بھارت میں کسانوں کی بھوک ہڑتال .. دلی کے مضافات میں انٹرنیٹ سروس بند
سینکڑوں کی تعداد میں ٹریکٹروں پر سوار مظاہرین یہاں پہنچ رہے تھے
نئی دہلی(ویب نیوز) بھارت میں مودی حکومت کے زرعی قوانین کے خلاف سراپا احتجاج کسانوں نے بھوک ہڑتال شروع کردی، جبکہ حکومت نے دلی کے اطراف کے علاقوں میں انٹرنیٹ سروسز بھی معطل کر دیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق پولیس کے ساتھ ایک ہفتے جاری رہنے والی جھڑپوں کے بعد کسان مظاہرین نے ہفتہ کو ایک روزہ بھوک ہڑتال کی،بھارتی وزارت داخلہ نے امن و امان کی صورتحال کے پیشِ نظر دلی کے تین سرحدی علاقوں میں انٹرنیٹ سروسز معطل کرکے اتوار کی رات 11 بجے تک بند رکھنے کا اعلان کیا ہے،انڈین وزارتِ داخلہ کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کو تین لوکیشنز پر بند کیا گیا ہے اور یہ بندش اتوار کی رات تک جاری رہے گی تاکہ عوام کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔ انٹرنیٹ کی بندش دلی کے سرحدی علاقوں سنگھو، غازی پور، اور تکری میں بند کی گئی ہے اور یہ 31 جنوری کو رات 11 بجے تک بند رہیں گی۔کسان ان علاقوں میں انڈین حکومت کے متعارف کروائے گئے تین نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں سے کسانوں کی بڑی تعداد کا غازی پور پہنچنے کا سلسلہ جاری ہے۔مغربی اتر پردیش کے علاوہ دلی سے بھی لوگ یہاں جمع ہو رہے ہیں اور اب تک احتجاج پرامن انداز میں جاری ہے۔26 جنوری کو کسان رہنما راکیش تکائت کو دلی میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کے بعد نوٹس بھیجا گیا تھا اور ان کے گرفتار کیے جانے کے بارے میں قیاس آرائی ہو رہی تھی۔ پھر 28 جنوری کی رات کو ان کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس کے بعد کسانوں نے بڑی تعداد میں غازی پور پہنچنا شروع کر دیا۔برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق شہر کے شمالی مضافاتی علاقے سنگھو میں سنیچر کو پولیس کی ایک بڑی تعداد موجود تھی اور ہریانہ سے سینکڑوں کی تعداد میں ٹریکٹروں پر سوار مظاہرین یہاں پہنچ رہے تھے۔ہریانہ سے تعلق رکھنے والے 65 سالہ کسان مہیش سنگھ کا کہنا تھا کہ یہ کسان یہاں حمایت کے اظہار کے لیے آئے ہیں اور مزید کسانوں کی اگلے دو دن میں آمد متوقع ہے۔یاد رہے کہ انڈیا کے کسانوں نے ہفتہ کو ایک روزہ بھوک ہڑتال کی اور آج ہی انڈین تحریکِ آزادی کے رہنما مہاتما گاندھی کی ہلاکت کا دن بھی تھا،دوسری جانب ہفتہ کو کل جماعتی میٹنگ کے بعد یونین وزیر پرہلاڈ جوشی نے وزیرِ اعظم نریندر مودی کے حوالے سے کہا کہ وہ 22-23 جنوری کو وزیرِ زراعت نریندر سنگھ تومار کی جانب سے کسانوں کی تنظیموں کو بھیجی گئی تجاویز پر بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔انھوں نے کہا: ‘اگر آپ بات چیت جاری رکھنا چاہتے ہیں تو وہ فون پر دستیاب ہیں۔ کسانوں کے سامنے جو تجاویز پیش کی گئی تھیں وہ اب بھی بہتر تجاویز ہیں۔ حکومت اب بھی وزیرِ زراعت کی پیشکش کے حوالے سے بات چیت کرنے کے لیے تیار ہے۔’کل جماعتی اجلاس کے بعد کانگریس کے رہنما ادھیر رنجن چوہدری نے بتایا کہ وزیرِ اعظم مودی کا کہنا تھا کہ وزیرِ زراعت کسانوں سے صرف ایک فون کال کی دوری پر ہیں۔ ‘کسان رہنماوں کو بتا دیا گیا ہے کہ جب وہ حکومتی تجاویز کے حوالے سے ذہن بنا لیں اور کسی نتیجے پر پہنچ جائیں تو تومار صاحب صرف ایک فون کال دور ہیں۔’پارلیمانی امور کے وزیر پرہلاڈ جوشی کا کہنا تھا کہ اس اجلاس میں تقریبا تمام جماعتوں نے شرکت کی۔انھوں نے کہا کہ اپوزیشن کا مطالبہ تھا کہ اس حوالے سے بل سے ہٹ کر لوک سبھا میں بحث ہونی چاہیے اور حکومت اس پر متفق ہے۔ انھوں نے کہا کہ اپوزیشن نے بھی کسانوں کے معاملے پر گفتگو کا مطالبہ کیا ہے۔اب تک انڈین حکومت اور کسان تنظیموں کے درمیان مذاکرات کے 11 دور ہو چکے ہیں مگر تنازع اب بھی برقرار ہے۔ حکومت نے پیشکش کی ہے کہ 18 ماہ کے لیے قوانین کو ملتوی کر دیا جائے مگر کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ ان قوانین کو مکمل طور پر واپس لیے جانے سے کم کسی چیز پر راضی نہیں ہوں گے۔گذشتہ ہفتے انڈیا کے یومِ جمہوریہ کے موقع پر ایک ٹریکٹر پریڈ بھی منعقد کی گئی تھی مگر یہ اس وقت ہنگامہ آرائی کی نذر ہوگئی جب کچھ مظاہرین نے پہلے سے طے شدہ روٹس کی خلاف ورزی کی، رکاوٹیں اکھاڑ دیں اور ان کا پولیس کے ساتھ تصادم ہوا جس پر پولیس کی جانب سے آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی۔