نئی دہلی میں بھارتی ہائی کمیشن کی ٹیم کو جلد از جلد مقبوضہ کشمیر جانے دیا جائے ۔ برطانیہ
پاکستان اور بھارت کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق مسئلہ کشمیر کا سیاسی حل تلاش کریں۔
برطانوی وزیراعظم کی طرف سے برطانوی وزیر کا چیرپرسن اے پی پی جی برائے کشمیر ڈیبی ابراہیم کو خط
لندن (ویب ڈیسک)
حکومت برطانیہ نے بھارت کے زیرانتظام جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی شکایات کی غیرجانبدارانہ شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ بھارتی حکومت سے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کے جائزے کے لئے نئی دہلی میں بھارتی ہائی کمیشن کی ٹیم کو جلد از جلد مقبوضہ کشمیر جانے کی اجازت دے۔ برطانیہ نے پاکستان اور بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق مسئلہ کشمیر کا سیاسی حل تلاش کریں۔ برطانوی پارلیمنٹ میں آل پارٹیز پارلیمنٹری گروپ برائے کشمیر نے برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کو جموں وکشمیر اور بھارت کی صورت حال پر خط لکھا تھا۔ خط میں کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرنے، بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک ختم کرنے اور غیرسرکاری تنظیموں پر پابندیوں کے خاتمے کیلئے بھارتی حکومت سے بات کرنے پر زور دیا تھا۔ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کی طرف سے برطانوی وزیر برائے جنوبی ایشیا و دولت مشترکہ لارڈ طارق احمد نے آل پارٹیز پارلیمنٹری گروپ برائے کشمیر کے خط کا جواب دیا ہے۔کے پی آئی کے مطابق لارڈ طارق احمد نے برطانوی ممبر پارلیمنٹ اور آل پارٹیز پارلیمنٹری گروپ برائے کشمیر کی سربراہ Debbie Abrahams ڈیبی ابراہامز کو خط لکھ کر صورتحال سے آگاہ کیا ہے۔ لارڈ طارق احمد نے لکھا ہے کہ کے وزیراعظم کو لکھے گئے خط میں کشمیر کی صورتحال پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ برطانوی حکومت کا دیرینہ موقف ہے کہ پاکستان اور بھارت جموں کشمیر کے تنازعے کا ایسا سیاسی حل تلاش کریں جو کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق ہو۔ اسی صورت میں جنوبی ایشیا میں استحکام آئے گا۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی شکایات کی غیرجانبدارانہ شفاف تحقیقات ہونی چاہئیں۔ انسانی حقوق ہماری خارجہ پالیسی کا اہم عنصر ہے۔ اس پر حکومت برطانیہ کمپرومائز نہیں کر سکتی۔ برطانوی وزیر نے لکھا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں معاشی ترقی کے بھارتی حکومت کے عزم کا ہم خیرمقدم کرتے ہیں۔ بھارتی حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اقدامات کی مزید تفصیلات بتائے۔ برطانوی وزیر نے لکھا ہے کہ 2019ء کو بھارتی حکومت نے جموں کشمیر میں کچھ آئینی تبدیلیاں کی تھیں۔ اس موقع پر کچھ پابندیاں بھی عائد کی گئی تھیں۔ 4G انٹرنیٹ پر پابندی تھی۔ تاہم اب یہ دو اضلاع میں بحال ہو چکی ہے۔ جموں کشمیر میں پابندیاں ختم ہونی چاہئیں۔ حکومت برطانیہ جموں کشمیر کی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ حکومت برطانیہ نے بھارتی حکومت سے درخواست کر رکھی ہے کہ نئی دہلی میں برطانوی ہائی کمیشن کی ٹیم کو جلدازجلد جموں کشمیر جانے دیا جائے۔ برطانوی وزیر کے مطابق ہم اگست 2019ء کے بعد گرفتار ہونے والے سیاسی رہنماؤں سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی کی رہائی کا خیرمقدم کرتے ہیں اور بھارتی حکومت سے کہتے ہیں کہ تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔ بھارتی حکومت قیدیوں اور شہری آزادیوں بارے معلومات فراہم کرے۔ برطانوی وزیر نے اپنے خط میں کہا کہ لائن آف کنٹرول پر دونوں طرف سے جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کی شکایات ہیں۔ حکومت برطانیہ سمجھتی ہے کہ دونوں طرف کشیدگی کم ہونی چاہئے اور باہم روابط بڑھائے جانے چاہئیں۔ جموں کشمیر کے تنازعے بارے پاکستان اور بھارت کی حکومتوں سے حکومت برطانیہ کا رابطہ ہے۔ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن، بھارتی وزیراعظم مودی اور پاکستانی وزیراعظم عمران خان سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ بات چیت سے مسائل حل کریں گے۔ 15 دسمبر کو برطانوی سیکرٹری خارجہ نے بھارتی ہم منصب سے ملاقات میں کشمیر کی صورتحال کو زیربحث لایا تھا۔ تین نومبر کو بھارتی وزیر خارجہ سے اس بارے میں بات چیت ہوئی۔ حکومت برطانیہ مذہبی امتیاز کی مذمت کرتی ہے۔ برطانیہ تمام عقائد کا احترام کرتا ہے۔ حکومت برطانیہ کا بھارتی حکومت پر اعتماد ہے کہ وہ اس سلسلے میں شکایات کو دیکھے گی۔ 04 جنوری 2021ء کو نئی دہلی میں برطانوی ہائی کمیشن نے بھارتی وزیر خارجہ سے اقلیتوں کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔ برطانوی وزیر نے خط میں لکھا ہے کہ ہمیں معلوم ہے کہ بھارت میں غیرملکی فنڈنگ ریگولیشن کے نئے قانون سے ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت غیرسرکاری ادارے پابندیوں کا شکار ہیں۔ ہم نے ایمنسٹی کا معاملہ لندن میں بھارتی ہائی کمیشن سے 13 نومبر کو اٹھایا تھا۔ بھارتی حکومت کو ایمنسٹی انٹرنیشنل کے تمام فنڈز بحال کر دینے چاہئیں۔ کرناٹکا ہائی کورٹ کی طرف سے کچھ فنڈز کے استعمال کی اجازت کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر لندن میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ڈائریکٹر کیٹ ایلن سے رابطے میں ہوں۔ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن جلد ہی بھارت کا دورہ کریں گے۔ بھارتی وزیراعظم مودی کے ساتھ ملاقات میں یہ معاملہ بھی اٹھائیں گے۔کے پی آئی کے مطابق ڈیبی ابراہامزنے ایک ٹویٹ میں برطانوی وزیر کے خط کو جاری کیا اور کہا ہے کہ تجارت کے لئے انسانی حقوق کا سودا نہیں کیا جانا چاہئے۔ ہم اس سلسلے میں حکومتی نگرانی اور محاسبہ کریں گے۔