اسلام آباد (ویب ڈیسک)
ظالم اسرائیل کی فوج کی جانب سے مسجد اقصیٰ پر حملے اور فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم پر وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ تمام مسلمان ممالک کومسئلہ فلسطین پریکجاہونا پڑے گا۔
عوام کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اسرائیلی فوج نےمسجدالاقصیٰ میں بہت ظلم کیا، پاکستان نے اسرائیلی مظالم کی بھرپورمذمت کی، سعودی ولی عہد محمدبن سلمان کیساتھ بھی مسئلہ فلسطین پربات کی، تمام مسلمان ممالک کومسئلہ فلسطین پریکجاہوناپڑےگا۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اسرائیلی فورسز نے 27ویں شب کو مسجد اقصیٰ میں فلسطینیوں پر جو ظلم کیا، میں نے اس کی مذمت کی ہے۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کو بھی کہا ہے کہ وہ اس معاملے پر ترکی اور سعودی عرب کے وزرائے خارجہ سے بات کریں، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے میں نے خود اسلاموفوبیا پر بات کی اور سب کو مل کر مقابلہ کرنا چاہیے کیونکہ ایک ملک کچھ نہیں کرسکتا اور اسی کے لیے ہم کوشش کر رہے ہیں۔
دوسری طرف وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال ہونے تک بھارت سے مذاکرات نہیں ہوں گے۔
اسلام آباد میں وفاقی وزرا کے ہمراہ عوام کے ٹیلی فون پر پوچھے گئے سوالات کا براہ راست جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مغربی ممالک نے بھارت کو چین کےخلاف معاشی محاذ پر تیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس لیے کشمیر میں مظالم پر خاموش رہتے ہیں۔ جب کسی انسانی بحران کے معاملے میں بھارت کا نام آتا ہے تو مغربی ممالک اپنے مفادات کی خاطر خاموشی اختیار کرلیتے ہیں کہ کشمیر میں بھارتی فورسز کے مظالم کیا ہیں۔
علاوہ ازیں انہوں نے دیگر موضوعات پر بات کرتے ہوئے زور دیا کہ قوم کورونا وائرس سے متعلق ایس او پیز پر عمل درآمد کرے۔ عید الفطر کی چھٹیوں میں اپنی قوم اور لوگوں کا خیال رکھیں، ایس او پیز کا جتنا خیال رکھیں گے، اسی قدر اس مشکل گھڑی سے نکل جائیں گے۔
انہوں نے بھارت میں کورونا سے پیدا ہونے والے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ملک میں کورونا کیسز کی تعداد میں ٹھہراؤ آیا ہے یعنی ان میں اضافہ نہیں ہورہا جبکہ بھارت بدترین صورتحال سے دوچار ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ پمز میں کل ڈاکٹر نے بتایا کہ کورونا کیسز اب اوپر نہیں جارہے۔ ماسک کا استعمال یقینی بنائیں کیونکہ ماسک سے کورونا پھیلنے کے خدشات 50 فیصد کم ہوجاتے ہیں۔ میں لاک ڈاؤن لگانے پر مجبور نہ ہو جاؤں کیونکہ اس کا سب سے بڑا نقصان غریب لوگوں کو ہوتا ہے۔
لائیو ٹیلی فون کال میں ملک میں قانون کی بالادستی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ انسانی تاریخ میں ترقی پانے والی اقوام نے ہمیشہ قانون کی بالا دستی کو اہمیت دی۔ ایک انسانوں اور دوسرا جانوروں کا قانون ہے، دوسرے والے قانون میں طاقت کی بالادستی ہے۔ جتنا اچھا قانون ہوتا ہے کمزور اور طاقتور ایک ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک اس وقت تباہ ہوتا ہے جب سربراہ یا طاقتور طبقہ پیسہ چوری کرتا ہے اور وہ پیسہ منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون بھیج دیا جاتا ہے۔
انہوں نے اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سالانہ ایک ارب ڈالر غریب ممالک سے چوری ہو کر دوسرے ممالک منتقل ہوتے ہیں۔ پاکستان کا بڑا مسئلہ قانون کی بالادستی نہ ہونا ہے جس کی بنیاد جسٹس منیر نے رکھی اور آمریت کی اجازت دے دی جب سے انصاف کبھی آیا ہی نہیں۔
عمران خان نے کہا کہ پاکستان میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے ڈنڈوں سے سپریم کورٹ پر حملہ کیا اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے۔ نواز شریف نے سپریم کورٹ کے دیگر ججز کو پیسے دیے تا کہ وہ چیف جسٹس کو باہر نکال سکیں۔ قانون کی بالادستی کی جنگ اس وقت شروع ہوئی جب سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے ایک چیف جسٹس کو باہر نکالا اور مجھے فخر ہے کہ پرویز مشرف کے اقدام کے خلاف جدوجہد کی اور مجھے پابند سلاسل کردیا گیا دو لیڈر اپنے بڑے بڑے محلات میں رہنے کے لیے بیرون ملک فرار ہوگئے تھے۔
کشمیر میں بھارتی مظالم اور عالمی برادری کی ان مظالم پر خاموشی سے متعلق ایک شہری کے سوال کے جواب میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ یہ تلخ حقیقت ہے کہ مغربی ممالک انسانی حقوق سے متعلق خلاف ورزی کو اپنی خارجہ پالیسی کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مغربی ممالک نے بھارت کو چین کے خلاف معاشی محاذ پر تیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جب کسی انسانی بحران کے معاملے میں بھارت کا نام آتا ہے تو مغربی ممالک اپنے مفادات کی خاطر خاموشی اختیار کرلیتے ہیں کہ کشمیر میں بھارتی فورسز کے مظالم کیا ہیں۔ بھارت اگر چین کے سامنے کھڑا ہوگا تو اپنی تباہی کرے گا۔ جب تک بھارت مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال نہیں کرتا تب تک پاکستان نئی دہلی کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں کرے گا۔
لائیو کال کے دوران ایک خاتون کی جائیداد سے متعلق مسئلے پر وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ سی ڈی اے کو ہدایات کی ہیں کہ سارا ڈیجیٹل آن لائن کریں تاکہ کرپشن کا دخل کم سے کم کیا جا سکے۔
وزیر اعظم عمران خان نے پاکستانی سفارتخانوں میں پاکستانیوں سے خراب رویے سے متعلق اپنے بیان کی وضاحت کی کہ ایسا لگا کہ جیسے میں پورے فارن آفس کو اس کی خراب کارکردگی پر کوس رہا ہوں۔ فارن آفس متعلق گفتگو لائیو نہیں ہونی چاہیے تھی۔
وزیر اعظم عمران خان نے اپنے گزشتہ بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ فارن آفس بالعموم اور بالخصوص کشمیر کے معاملے میں بہتر انداز میں کام کررہے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی وزارت اور دنیا بھر میں تمام سفارتخانوں کے زیر اتنظام ایک شکایتی پورٹل ہوگا جہاں کوئی اوررسیز پاکستانی اپنی شکایت آن لائن درج کراسکے گا۔
قلت آب سے متعلق ایک شہری کے سوال کے جواب میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ملک کے تمام بڑے شہروں میں پانی کی قلت کا امکان ہے جبکہ کراچی میں تو یہ صورتحال سنگین علامات کے ساتھ موجود ہے۔ قلت آب کے علاوہ دیگر مسائل بھی ہیں اس لیے یہ بتانا ضروری ہے کہ تمام بڑے شہروں کے ماسٹر پلان بن رہے ہیں۔ کراچی بے ہنگم آبادی کے باعث پانی کا مسئلہ سنگین ہے۔ ہم نے ماسٹر پلان کے ساتھ شہروں کو بلند و بالا عمارتوں کی تعمیرات کی اجازت دے دی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ یہ ضروری نہیں کہ ٹیم کے تمام کھلاڑی اسٹار ہوں، بعض وزرا بہت اچھا کام کررہے ہیں۔ کچھ وزرا تسلی بخش کام نہیں کررہے اس لیے انہیں تبدیل کرنا پڑے گا۔
ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم عمران خان نے بتایا کہ ہم نے قبضہ مافیا کے خلاف اعلان جنگ کیا ہوا ہے اور اب تک 21 ہزار ایکٹر اراضی واگزار کراچکے ہیں۔ اس کی مالیت 27 ارب روپے بنتی ہے۔ زمینوں کے کیسز پر ہم اصلاحات کرچکے ہیں بس پنجاب میں کچھ کام باقی ہے۔
علاوہ ازیں انہوں نے بتایا کہ کچھ تکنیکی وجوہات کی بنا پر بلوچستان میں ایرانی پیٹرول آرہا ہے لیکن اب بلوچستان سے ملک کے دیگر حصوں میں ایرانی پیٹرول کی اسمگلنگ روک دی ہے۔ ملک میں اسمگل ہونے والے ایرانی پیٹرول سے 180 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ بے روز گار لوگوں کو بارڈر مارکیٹس سے روزگار ملے گا۔
وزیراعظم نے جہانگیر ترین سے متعلق ایک شہری کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے لیکن جہانگیر ترین کو واضح طور پر کہا ہے، میں نے ناانصافی کبھی کسی سے نہیں کی۔
ان کا کہنا تھا کہ جو میرے مخالف ہیں جن کے خلاف میں نے 25 سال جنگ لڑی ہے اور جہاد کیا ہے، کسی سے بھی میں نے کسی قسم کی ناانصافی نہیں کی، کوئی آج مجھے کہے کہ کسی پر جھوٹا کیس بنایا ہے اور انتقامی کارروائی کی ہے، کوئی ایک جگہ بتائیں۔
انہوں نے کہا کہ تو جب میں مخالف سے نہیں کرتا تو اپنی پارٹی میں جہانگیر ترین سے کیوں کروں، اس لیے ناانصافی کسی سے بھی نہیں ہونی چاہیے لیکن یہ میرا وعدہ ہے کہ جنہوں نے چینی مہنگی کرکے عوام کو تکلیف پہنچائی ہے اگر میری حکومت بھی چلی جاتی ہے تو ان کو این آر او نہیں ملے گا۔
عمران خان نے کہا کہ ملک کے بڑے سیاست دان اور اشرافیہ سب کی شوگر ملز ہیں، جب چینی ایک روپے مہنگی ہوتی ہے تو عوام کے جیب سے 5 ارب روپے نکل کر شوگر ملوں کے پاس چلے جاتے ہیں اور ہمارے دور میں 25 روپے چینی مہنگی ہوگئی تو سوچیں ایک سو ارب سے زائد روپے عوام کے جیبوں سے نکل کر شوگر ملز کو گئے۔
انہوں نے کہا کہ شوگر ملوں نے 5 برسوں میں ٹیکس 22 ارب روپے دیا ہے، اس میں سے ان کو 12 ارب روپے واپس ملے تو مجموعی طور پر 10 ارب روپے انہوں نے ٹیکس دیا جبکہ 5 برسوں میں 29 ارب روپے سبسڈی ملی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ طاقت ور لوگ نہ ٹیکس دیتے ہیں اورچینی جب چاہے مہنگی کرتے ہیں لیکن سارا سال چینی کی قیمت اوپر جاتی ہے، اس لیے میرا وعدہ ہے کہ مافیا سے کوئی رعایت نہیں ہوگی لیکن کسی سے ناانصافی بھی نہیں ہوگی۔
وزیراعظم نے مہنگائی کے خاتمے سے متعلق ایک شہری کے سوال کے جواب میں کہا کہ طاقت ور مل کر کارٹیل بناتے ہیں جیسے چینی کا معاملہ ہے وہ مل بیٹھ کر چینی کی قیمت طے کرتے تھے پہلی دفعہ حکومت نے قیمت طے کی ہے تو نیچے آگئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیرخزانہ کو صرف دو وجوہات پر لے کر آیا ہوں کہ وہ مہنگائی کو روکے اور دوسرا شرح نمو بڑھائیں تاکہ لوگوں کو نوکریاں ملیں۔ پاکستان میں پیٹرول امریکا اور بھارت سے بھی سستا ہے تاکہ لوگوں کو مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے، مہنگائی صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ کووڈ کی وجہ سے دنیا بھر میں مہنگائی ہوئی ہے۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ مہنگائی کے بارے میں ٹی وی پر بڑی باتیں ہوتی ہیں اور لوگ مجھے بتا رہے ہوتے ہیں، اپوزیشن کا کام تو یہ باتیں کرنا ہے۔ جب آپ کہتے ہیں ملک تباہ ہوگیا، یہ بھی غلط اور وہ بھی غلط ہے تو مانا مہنگائی ہے جیسا میں نے کہا کہ پوری دنیامیں مہنگائی ہے لیکن ہم مہنگائی پر کنٹرول کرنے کے لیے کوششیں کررہے ہیں۔ میں نئے وزیرخزانہ کو اسی لیے لے کر آیا ہوں اور ان کو مینڈیٹ دیا ہوا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں حکومت میں آئے 2 سے ڈھائی سال ہوگئے ہیں لیکن گزشتہ 50 سال خاص کر 30 برسوں میں پچھلی حکومتوں نے سوائے لوٹ مار کے کچھ نہیں کیا۔
اپوزیشن اور نواز شریف پر تنقید کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ میرا لندن کا فلیٹ ڈیکلیئرڈ تھا لیکن انہوں نے مجھے انتقام کا نشانہ بنایا جبکہ یہ خود بھاگے ہوئے ہیں، آج عدلیہ آزاد ہے واپس آکر اس کا سامنا کیوں نہیں کرتے، مجھے پتا ہے یہ لندن میں جن علاقوں میں رہتے ہیں وہاں برطانیہ کا وزیراعظم بھی نہیں رہتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے پشاور کا شوکت خاتم ہسپتال 3 سال میں کھڑا کیا لیکن پشاور کے سرکاری ہسپتالوں کو بہتر کرنے کے لیے 7 برسوں سے کوشش کر رہے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں جو معیشت ملی تھی اس میں پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا خسارہ تھا، ہمارے ریزرو دس ارب تک گر چکے تھے، بیرون ملک قسطیں دینی تھیں وہ اس سے زیادہ تھے یعنی ہم دیوالیہ تھے۔ کوئی نہیں سمجھتا تھا کہ ہمارے خزانے میں اضافہ ہوگا بیرونی ملک سے ترسیلات زر دیوالیہ کے قریب تھے، اگر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین ہمیں پیسے نہ دیتے تو ہم دیوالیہ کر گئے تھے، ہمارا روپیہ ڈھائی سے تین سو فی کس ڈالر تک جانا تھا اور آج تباہی مچی ہوتی۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہماری برآمدات 13.5 فیصد بڑھی ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں برآمدات نہیں بڑھی تھیں، ملک میں مالی خسارے سے نکل کر سرپلس پر چلے گئے ہیں، ٹیکس میں پچھلے دس ماہ میں اضافہ ہوا ہے۔ ٹیکسٹائل کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے اور آج ٹیکسٹائل کے لیے لیبر نہیں مل رہی ہے، ٹوئٹا والے کہہ رہے ہیں جب سے ہم نے پلانٹ لگایا ہے اب سب سے زیادہ گاڑیاں بیچی ہیں، اس کا مطلب ہے کچھ تو ہورہا ہے۔ میں سوال کرتا ہوں کہ جب ہماری برآمدات بڑھ رہی ہیں، معیشت بہتر ہورہی ہے، سیلز بڑھ رہی ہے تو یہ لوگ بیٹھ کر مایوس کرتے ہیں کہ کچھ نہیں ہو رہا ہے۔