غزہ پر اسرائیل کے فضائی اور بحری حملے، ہلاکتوں کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ، عالمی فوجداری عدالت کا اظہار تشویش
تین روز میں 15 بچوں اور 3 خواتین سمیت 53فلسطینی شہید ، راکٹ حملوں میں چھ اسرائیلی ہلاک
اسرائیلی فوج کاحماس’ کے ملٹری انٹیلی جنس چیف کو فضائی حملے میں شہید کرنے کادعوی
اسرائیل میں دو ہفتے کے لیے ہنگامی حالت میں توسیع کا بھی اعلان
غزہ (ویب نیوز)فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی میں اسرائیل اور فلسطینی تنظیم ‘حماس’ کے درمیان بدھ کے روز لڑائی میں مزید اضافہ سامنے آیا ہے جبکہ عالمی فوجداری عدالت نے ان حملوں پر اظہار تشویش کیا ہے ، اسرائیل نے فضائی حملوں کے بعد سمندر سے بھی میزائل داغنے شروع کردیے ہیں۔ اب تک کی اطلاعات کیمطابق مجموعی طور پر تین روز میں 15 بچوں اور 3 خواتین سمیت 53فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ فلسطینیوں کے راکٹ حملوں میں چھ اسرائیلی ہلاک ہوئے ہیں۔عرب میڈیا کے مطابق بدھ کے روز اسرائیل کی غزہ کی پٹی پر بمباری گذشتہ کئی سال کی شدید ترین ہے۔ دوسری طرف اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی میں آپریشن کا دائرہ مزید وسیع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ مصر نے غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فوجی کارروائی روکنے اور کشیدگی میں کمی لانے کے لیے کوششیں تیز کردی ہیں۔غزہ کے ساحل کے قریب متعدد اہداف پر اسرائیلی جنگی کشتیوں اور آبدوزوں ذریعے میزائل داغے گئے جب کہ فضائی حملوں میں اسرائیل کے ‘ایف 16’ طیاروں کے علاوہ ‘اپاچی ہیلی کاپٹر’ بھی حصہ لے رہے ہیں۔اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ اس نے غزہ کی پٹی میں ڈرون طیاروںکے ذریعے حملوں کی تیاری کرنیوالے ایک گروپ کو نشانہ بنایا ہے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق تازہ کارروائیوں میں حماس کے کئی اہم رہ نما اور جنگجو مار ے گئے ہیں۔درایں اثنا اسرائیلی وزیر دفاع بینی گینٹز نے کہا ہے کہ ‘طویل البنیاد’ جنگ بندی کے بغییر کوئی فائر بندی نہیں ہوگی۔ انہوں نے اسرائیل میں دو ہفتے کے لیے ہنگامی حالت میں توسیع کا بھی اعلان کیا ہے۔ غزہ کی سرحد کے قریب ‘کورنیٹ’ راکٹ حملے میں ایک اسرائیلی فوجی ہلاک اور تین زخمی ہوگئے ہیں۔ زخمیوں میں سے ایک کی حالت تشویشناک ہے جب کہ ایک کو درمیانے اور دوسرے کو معمولی زخم آئے ہیں۔اسرائیلی فوج نے غزہ کی سرحد کے قریب فوجی گاڑیوں کی آمد ورفت بند کردی ہے۔اسرائیلی فوج نے دعو ی کیا ہے کہ ‘حماس’ کے ملٹری انٹیلی جنس چیف فضائی حملے میں مارے گئے ہیں۔ اسرائیلی فوج نے حماس رہ نما صلاح دھمان کے گھر پر بھی بمباری کی ہے جس کے نتیجے میں متعدد افراد جاں بحق اور زخمی ہوگئے ہیں۔ اسرائیلی فوج نے مشرقی خان یونس بیت لاھیا کے مقام پر ایک موٹرسائیکل پر بھی حملہ کرکے اسلامی جہاد کے میزائل یونٹ کے تین مجاہدین کو شہید کردیا ہے۔اسرائیلی فوج کے مطابق غزہ کی پٹی پرجاری بمباری کے دوران حماس کے دو اہم رہ نما مارے گئے ہیں۔ اسرائیلی پولیس کے مطابق غزہ سے داغے راکٹوں سے مزید دو اسرائیلی ہلاک ہوگئے ہیں،فلسطینی وزارت صحت نے بتایا کہ اسرائیلی حملوں میں شہید فلسطینیوں کی تعداد 35 ہو گئی ہے جبکہ سیکڑوں افراد زخمی ہیں جنہیں طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔حماس رہنما باسم النعیم نے ایک انٹرویومیں بتایا کہ اسرائیلی فضائیہ کے حملوں میں اب تک 43 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، سب سے زیادہ 23 شہادتیں بیت حنون میں ہوئیں۔سابق حماس وزیر باسم النعیم کا کہنا تھا کہ صیہونی حملوں میں زخمیوں کی تعداد 300 ہے، رات سے جاری اسرائیلی حملے شدید تر ہو گئے ہیں۔پاکستانی عوام کو عید کی مبارکباد دیتے ہوئے حماس رہنما کا کہنا تھا کہ ہمارے لیے دعا کی جائے، پاکستانیوں سے آواز اٹھانے اور امدادی کارروائیوں کی بھی اپیل ہے۔باسم النعیم کا کہنا تھا کہ اسرائیل بربریت کا مرتکب ہے، دہشت گرد ملک کو تسلیم نہ کیا جائے۔علاوہ ازیں بین الاقوامی فوجداری عدالت(آئی سی سی)کی پراسیکیوٹر فتو بینسودا نے اسرائیل کی جانب سے فلسطین میں مغربی کنارے میں بڑھے ہوئے حملوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہاں جنگی جرائم کا ارتکاب ہورہا ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق انہوں نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا کہ میں مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) کے مشرقی سمیت غزہ کے آس پاس اور مغربی کنارے میں بڑھتے ہوئے پرتشدد واقعات کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتی ہوں۔آئی سی سی کی پراسیکیوٹر پراسیکیوٹر فتو بینسودا نے مارچ میں فلسطینی علاقوں میں ہونے والے ممکنہ جنگی جرائم کی سرکاری تحقیقات کا اعلان کیا تھا۔خیال رہے کہ وہ 16 جون کو برطانوی پراسیکیوٹر کریم خان کی جگہ لیں گی۔پراسیکیوٹر فتو بینسودا نے دسمبر 2019 میں کہا تھا کہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں جنگی جرائم ہوئے ہیں یا ہو رہے ہیں۔انہوں نے اسرائیل فورسز اور فلسطینی گروپ حماس پر الزام عائد کیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ میرا دفتر زمین پر ہونے والی پیشرفتوں پر نظر رکھے گا۔رواں برس فروری میں اسرائیل نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں جنگی جرائم کی تحقیقات سے متعلق بین الاقوامی فوجداری عدالت کے فیصلے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے ‘یہودیوں کیخلاف نظریات’ قرار دیا تھا