معیشت کے اندر بھی کبھی بھی سمجھ نہیں آئی کہ ہم نے اپنے آپ کو معاشی طور پر محفوظ بنانا کیسے ہے
جب عوام ملک بچانے کے لیے اسٹیک ہولڈر بن جائیں تو یہ سب سے بڑی نیشنل سکیورٹی ہوتی ہے
کوشش ہے عوام اور ریاست ایک راستے پر چلیں، قومی سلامتی پالیسی میں نیشنل سکیورٹی کو صحیح معنوں میں واضح کیا گیا، بڑی محنت سے متفقہ قومی دستاویز تیار کی گئی
وزیر اعظم کا قومی سلامتی پالیسی کے پبلک ورژن کا اجراء کرنے کے حوالہ سے تقریب سے خطاب
اسلام آباد (ویب ڈیسک)
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کوشش ہے عوام اور ریاست ایک راستے پر چلیں، مجبوری کی حالت میں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے اور ان کی شرائط ماننے کے لیے عوام پر بوجھ ڈالنا پڑتا ہے، ماضی میں ملک کو معاشی طور پر مستحکم نہیں کیا گیا،ملک کی معیشت کمزور ہو گی تو دفاع بھی کمزور ہو گا، قومی سلامتی پالیسی میں نیشنل سکیورٹی کو صحیح معنوں میں واضح کیا گیا، بڑی محنت سے متفقہ قومی دستاویز تیار کی گئی ۔ان خیالات کااظہار وزیر اعظم عمران خان نے قومی سلامتی پالیسی کے پبلک ورژن کا اجراء کرنے کے حوالہ سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ عمران خان نے کہاکہ میں معید یوسف اور نیشنل سیکیورٹی ڈویژن کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ آپ نے بڑی محنت کرکے ایک متفقہ دستاویز تیار کی ہے اورآپ نے نیشنل سیکیورٹی کی صیح معنوں میں تشریح کی ہے، کیونکہ پاکستان کی جو ایوولیوشن ہوئی وہ بہت غیر محفوظ ماحول میں ہوئی اور ہماری جو نیشنل سیکیورٹی تھی وہ قابل فہم طورپر ایک جہتی ہو گئی کیونکہ ہمارا جو ہمسایہ تھا وہ ہم سے سات گنا بڑا تھا ، ان کے ساتھ1948میں پہلی لڑائی ہوئی اس کے بعد1965میں ہوئی تو جو ہمارا سارا مائنڈسیٹ تھا کہ ہمیں ایک جہتی تھا کہ ہمیں ملٹری سیکیورٹی کی ضرورت ہے۔ میں اپنی سیکیورٹی فورسز کو ضرورخراج تحسین پیش کروں گا کہ ہمیںبڑا خطرہ تھا اوران کا بڑا ملک تھا ، جس طرح انہوں نے ہمیں محفوظ رکھا اورحال ہی میں جو دہشت گردی کے خلاف جنگ ہوئی اس کے اندر ہماری فورسز کی جو قربانیاں تھیں اورجس طرح انہوں نے پاکستان کو محفوظ کیا ، آپ کو صرف مسلمان دنیا میں دیکھنا چاہیئے کہ آج بھی ان کی کس طرح تباہی ہوئی اوران کی سیکیورٹی فورسز اپنے ملک کو محفوظ نہیں رکھ سکیں۔لیبیا سے شروع ہوں، صومالیہ، شام اورافغانستان، 90کی دہائی میں یہ بوسینیا سے شروع ہوا تھا۔ ہم آج بڑے خوش قسمت ہیں کہ ہمارے پاس ڈسپلنڈ اور بڑی تربیت یافتہ سیکیورٹی فورسز تھیں جنہوں نے ہمیں محفوظ بنایا۔ معید یوسف نے پوری قوم کا اتفاق رائے پید اکرکے ایک قوم کا قبلہ درست کیا ہے اورسمت دی ہے کہ سیکیورٹی کی بہت ساری جہتیں ہیں ، اگر ایک ہی جہت ہو تو ہمارے سامنے سویت یونین کی مثال ہے کہ دنیا کی سب سے تگڑی فورسز بھی سویت یونین کو اکٹھا نہ رکھ سکیں۔جوکثیرالجہتی سیکیورٹی پالیسی دی ہے ، اب ہماری ساری کوشش ہے کہ ہماری جو حکومت ہے اور عوام ہیں وہ سب ایک سمت میں جائیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ عوام کا آپ کے ساتھ کھڑے ہونا سب سے بڑی سکیورٹی ہے، جب عوام ملک بچانے کے لیے اسٹیک ہولڈر بن جائیں تو یہ سب سے بڑی نیشنل سکیورٹی ہوتی ہے، ہماری پوری کوشش ہے کہ نچلے طبقے کو اوپر لانا ہے۔عمران خان نے کہا کہ اگر معیشت صیح نہیں ہے توآپ دیر تک اپنے آپ کو محفوظ رکھ نہیں سکتے، اگر آپ کی معیشت کے یہ حالات ہیں کہ ہر تھوڑی دیر کے بعد آپ کو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے تواس کا مطلب آپ کی سیکیورٹی متاثر ہو گی، اس کی وجہ کیا ہے کہ کبھی بھی ایک اتفاق رائے سے نیشنل سیکیورٹی کا نظریہ نہیں آیا۔ عمران خان نے کہاکہ معیشت کے اندر بھی کبھی بھی سمجھ نہیں آئی کہ ہم نے اپنے آپ کو معاشی طور پر محفوظ بنانا کیسے ہے۔ شرح نمو ہماری اوپر جاتی تھی تو کرنٹ اکائونٹ خسارہ ہو جاتا تھا ، کرنٹ اکائونٹ خسارہ ہوتا تھا تو روپے پر دبائو پڑجاتا تھا، روپیہ جب نیچے جاتا تھا تو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑجاتا تھا۔ جب بھی آپ آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں اورآئی ایم ایف کے پاس اس لئے جاتے ہیں کہ آپ مجبور ہیں ، سب سے آخر میں جو آپ کی مدد کرتا ہے اورآپ کو سب سے سستے قرضے دیتا ہے وہ آئی ایم ایف ہے لیکن آپ کو ان کی شرائط ماننی پڑتی ہیں اور جب آپ ان کی شرائط مانتے ہیں تو پھر کہیں نہ کہیں آپ کی سیکیورٹی کمپرومائز ہو تی ہے۔