کراچی (ویب نیوز)
کونسل آف پاکستان نیوزپیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) نے ”پاکستان میڈیا فریڈیم رپورٹ برائے سال 2022” جاری کردی ہے۔ جس کے مطابق 2022ء کے دوران پاکستان میں آزادی صحافت کی صورتحال انتہائی مخدوش رہی اور آزادی اظہار کو دباؤ میں رکھنے کا سلسلہ جاری رہا۔ سی پی این ای کی ”پاکستان میڈیا فریڈم رپورٹ 2022 ”کے مطابق 4 صحافی فرائض کی انجام دہی کے دوران جان کی بازی ہار گئے۔ معروف اینکر وصحافی ارشد شریف ، اطہر متین اور ضیاء الرحمان فاروقی کے بہیمانہ قتل نے حکومت اور ارباب اختیار کے میڈیا کی آزادی سے متعلق تمام دعوے بین الاقوامی برادری کے سامنے عیاں کردیئے جبکہ ایک خاتون صحافی صدف نعیم پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران ناقص حفاظتی اقدامات کے باعث حادثے میں جاں بحق ہوئیں۔ وفاق میں اتحادی حکومت نے پی ٹی آئی کے دور کی میڈیا کش پالیسیوں کو مزید وسعت دے کر میڈیا کی آزادی سے متعلق اپنے تمام دعوؤں سے انحراف کیا اور تحریک انصاف کے سابقہ دور کی طرز پر انتقامی کارروائیاں جاری رکھیں۔ آزادی صحافت اور آزادی اظہار کی عالمی درجہ بندی میں پاکستان 157 ویں نمبر پر رہا جو گزشتہ سال 2021ء کے مقابلے 12 درجات کی تنزلی ہے۔ 2022ء میں حکومت کی تبدیلی کے باوجود پاکستان میں میڈیا کی آزادی، آزادی اظہار رائے، معلومات تک رسائی کے حقوق کو دبانے کے ہتھکنڈے تبدیل نہیں ہوئے۔ جاری کردہ رپورٹ میں شامل واقعات اور اعداد و شمار، سی پی این ای سیکریٹریٹ میں قائم میڈیا مانیٹرنگ ڈیسک نے براہ راست موصول شدہ اطلاعات نیز مختلف ذرائع ابلاغ ، اخبارات اور نیوز ویب سائٹس سے حاصل شدہ معلومات کی بنیاد پر سی پی این ای کی پریس فریڈم اینڈ مانیٹرنگ کمیٹی کے جانچ پڑتال کے بعد مرتب کئے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی میں سب سے زیادہ اندوہناک قتل معروف صحافی ارشد شریف کا کینیا میں ہوا جس کے تانے بانے پاکستان کی سرزمین پر موجود افراد سے ملنے کا شبہ ظاہر کیا گیا ہے۔ ارشد شریف کے لرزہ خیز قتل نے جہاں عالمی معیار کی تحقیقاتی صحافت کرنے والے پاکستانی صحافیوں کو ہراساں کیا بلکہ اِس شعبے میں آنے کی خواہش رکھنے والوں کے دلوں میں بھی خوف پیدا کیا۔ ملک کے طاقتور حلقوں نے اپنی بالادستی کا جابجا اور وقتا فوقتا مظاہرہ کرتے ہوئے پیشہ ور صحافیوں کو خوفزہ کرنے کی کوشش کی۔ پیکا (Prevention of Electronic Crime Act) کا غیر جمہوری اور کالا قانون بدستور نافذ ہے جس کی بعض شقیں آزادی صحافت اور اظہار رائے کو منفی طور پر متاثر کرتی ہیں۔ گزشتہ سال کے دوران آزادی اظہار کی پاداش میں صحافیوں پردھمکیوں اور حملوں کے واقعات سے پاکستان میں رائج جمہوریت کے دعوے غلط ثابت ہوئے ہیں اور آمرانہ روش کی عکاس ہیں۔ سی پی این ای کی رپورٹ کے مطابق 2022ء کے دوران صحافی، میڈیا ملازمین اور میڈیا ادارے عدم برداشت پر مبنی میڈیا مخالف کارروائیوں کا نشانہ بنے، تقریبا 28 سے زائدواقعات میں 13 صحافیوں پر تشدد،2صحافیوں کے گھروں پر حملے، 10 صحافیوں کی گرفتاریاں و مقدمات اور 3 خواتین صحافیوں کو ہراساں کیا گیا۔ سندھ میں سیلاب اور سیلاب متاثرین کی صورتحال سے متعلق حقائق پر مبنی رپورٹنگ کی پاداش میں کیٹی بندر کے صحافی الیاس سموں سمیت سندھ کے مختلف علاقوں کے صحافیوں کو انسداد دہشتگردی کی دفعات کے تحت جھوٹے مقدمات درج کر کے گرفتار کیا گیا۔ اسلام آباد کے صحافی وقار ستی کے خلاف توہین مذہب کی دفعات کے تحت قائم مقدمہ ہائی کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود برقرار ہے۔ اس کے علاوہ صحافیوں کو شدید سنسرشپ اور دیگر پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا رہا۔ 2022 کے دوران صحافیوں کو آن لائن ہراساں کرنے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ صحافیوں اور میڈیا اداروں کے خلاف سوشل میڈیا پر متعدد ٹرینڈز چلائے گئے ، بعض سیاسی اور مذہبی حلقوں کی جانب سے تخلیق کردہ مختلف سوشل میڈیا ٹرینڈز نے صحافیوں کی زندگیوں اور تحفظ کے لئے خطرات پیدا کئے، بعض صحافی طاقتور حلقوں کا دباؤ برداشت نہ کرسکے جس کی وجہ سے کچھ صحافی بیرون ملک منتقل ہوئے اور بیرون ملک بھی اپنی پہچان مخفی رکھنے پر مجبور ہوئے تاکہ وہ ارشد شریف جیسے انجام کا شکار نہ ہوں۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے ملک میں صحافیوں پر حملوں سے متعلق کوائف محفوظ کرنے کا کوئی مناسب، شفاف اور غیر جانبدارانہ طریقہ کار بھی موجود نہیں ہے۔ مختلف مرد و خواتین صحافیوں کے خلاف ٹرولنگ کی گئی جن میں شفا یوسف زئی، غریدہ فاروقی اور دیگر شامل ہیں۔ اسی طرح نئی اتحادی حکومت میں بھی گزشتہ حکومت کی طرح 2022ء میں اشتہارات کو بطور حربہ استعمال کرنے کی روش برقرار رہی ۔ میڈیا اداروں کے صحافی اور دیگر عملہ تنخواہوں کی عدم ادائیگیوں سمیت مختلف پریشانیوں کا شکار رہے تاہم سی پی این ای کی کوششوں سے پاکستان تحریک انصاف کی سابقہ وفاقی حکومت کے دور میں اشتہاراتی ایجنسیوں کے ذریعے ادائیگیوں کی بجائے میڈیا اداروں کو براہ راست ادائیگیوں کے نفاذ سے خاصی بہتری آئی تاہم پنجاب حکومت نے تاحال میڈیا اداروں کو براہ راست ادائیگیوں کے نظام پر عمل در آمد نہیں کیا ہے جبکہ سندھ میں سرکاری اشتہارات کی غیر منصفانہ تقسیم اور کئی سالوں سے واجبات کی ادائیگیوں میں تاخیر اور سست روی کی وجہ سے اخبارات و جرائد کو بندش جیسی صورت حال کا سامنا ہے۔ ان واقعات سے واضح ہوتا ہے کہ اظہار کی آزادی کے لئے وفاق اور صوبوں کے ارباب اختیار غیر سنجیدہ ہیں۔ رپورٹ میں سندھ میں صحافیوں کے تحفظ کے لئے قانون سازی اور ریٹائرڈ جسٹس رشید اے رضوی کی سربراہی میں جرنلسٹس پروٹیکشن کمیشن کا قیام خوش آئند لیکن عملی اقدامات کا ہنوز انتظار۔ کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای)نے اپنی رپورٹ میں متنبہ کیا ہے کہ ماضی میں آزادی صحافت کو سلب کرنے کے نتائج سقوط ڈھاکہ اور اسی نوعیت کے سانحات کی صورت میں برآمد ہوئے ہیں لہٰذا حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ میڈیا کی آواز دبانے کی بجائے میڈیا کی نشاندہی اور تجاویز پر توجہ دی جائے تاکہ جمہوریت کا فروغ اور آزاد رائے عامہ عوامی فلاح کی خاطر بحال ہو سکے۔ امید کی جاتی ہے کہ موجودہ حکومت جمہوریت اور معیشت کے استحکام کے ساتھ ساتھ ریاست کے اہم ستون میڈیا کی آزادی کا احترام کرے اور میڈیا اداروں اور صحافیوں کو دباؤ میں لانے یا ہراساں کرنے کی بجائے ان کے تحفظ کے لئے اقدامات کرے گی۔ سی پی این ای عزم ظاہر کرتی ہے کہ کسی بھی طرح کے دباؤ کو قطعی برداشت نہیں کیا جائے گا، آزادی صحافت اور آزادی اظہار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔