سلام آباد (صباح نیوز)
اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) نے چینی اسکینڈل سے متعلق رپورٹ پر حکومتی ترجمان کے بیان پر ردعمل میں کہا ہے کہ حقائق مسخ کرنے سے وزیراعظم اور وزیراعلی پنجاب کی چوری چھپائی نہیں جا سکتی۔ حکومتی ترجمان کی پریس کانفرنس اور ایف آئی اے کی رپورٹ مطابقت نہیں رکھتی۔ حکومتی ترجمان کی رپورٹ الگ جبکہ ایف آئی اے کی رپورٹ الگ ہے۔ ترجمان مسلم لیگ (ن) کے بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومتی منہ پر کرپشن کی کالک لگ چکی ہے، حکومتی ترجمان اپنے جھوٹ سے دوسروں پر ملنے کی ناکام کوشش نہ کریں۔ماضی کی حکومتوں کا نام لے کر اب عمران صاحب اور بزدار صاحب کی چوری کوئی حکمران نہیں چھپا سکتا’۔ انہوں نے کہا کہ ‘نواز شریف اور شہباز شریف کے دور میں کسی کی جرات نہیں تھی کہ عوام کے حق پہ ڈاکا ڈالیں، عمران صاحب تاریخ میں اس بات کی بھی نظیر نہیں ملتی کہ ملک کا وزیراعظم عوام کا آٹا اور چینی چور ہو’۔حکومت پر تنقید کرتے ہوئے بیان میں کہا گیا ہے کہ جن اے ٹی ایمز سے وزیراعظم کا کچن چلتاہے، پارٹی کی فنڈنگ ہ وتی ہے، انہیں کو وزیراعظم نے فائدہ پہنچایا، عمران خان اپنی چوری پکڑے جانے پر آخر کب تک شریف خاندان پر الزامات لگا کر چھپتے رہیں گے’۔ایف آئی اے کی رپورٹ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ حکومتی ترجمان آٹا اور چینی چوری کے حوالے سے ایف آئی اے ک ی رپورٹ کو غلط رپورٹ ظاہر کر کے حقائق چھپا نہیں سکتے، شریف خاندان نے ایک روپے کی سبسڈی لی اور نہ چینی برآمد کی۔ حکومتی ترجمان بتاتیں کہ آٹے چینی مافیا کو کس وقت ہتھکڑی لگے گی، ایف آئی اے رپورٹ میں شہبازشریف کا نام نہیں اور نہ ہی اس وقت وہ حکومت میں ہیں جبکہ رپورٹ میں اعلی حکومتی شخصیات اور وزراء کے نام ہیں۔ حکومتی ترجمان کو اب الزامات لگانے سے پہلے سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے تمام فیصلے پڑھنے چاہئیں، ثبوت دینے کی جب باری آئی تو نیب نیازی گھٹ جوڑ عدالتوں سے فرار ہوگیا۔خیال رہے کہ گزشتہ روز حکومت نے چینی کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے ایف آئی اے کی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ جاری کی تھی۔تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں اس اہم پہلو کو بھی اٹھایا ہے کہ برآمدی پالیسی اور سبسڈی کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والے سیاسی لوگ ہیں جن کا فیصلہ سازی میں براہ راست کردار ہے، حیران کن طور پر اس فیصلے اور منافع کمانے کی وجہ سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا اور اس کی قیمت بڑھی۔ رپورٹ کے مطابق چینی کی برآمد اور قیمتوں میں اضافے سے سب سے زیادہ حکمران جماعت کی ایک اعلی شخصیت اورایک وفاقی وزیر کے بھائی نے اٹھایا۔رپورٹ کے مطابق رواں سال گنے کی پیداوار گزشتہ سال کے مقابلے میں درحقیقت ایک فیصد زیادہ ہوئی، پچھلے سال کے مقابلے میں کم رقبے پر گنے کی کاشت کی گئی’۔رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ گزشتہ چند سالوں کے دورن چینی کی پیداوار مقامی ضرورت سے کہیں زیادہ تھی جس کی وجہ سے اس پہلو کی تحقیقات کرنا اور اسے شامل کرنا ضروری تھا کہ چینی کی برآمدات میں دی گئی سبسڈی، مقامی سطح پر چینی کی قیمت پر مرتب ہونے والے اثرات اور ان سبسڈیز سے کس نے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا۔دستاویز کے مطابق سال 17-2016 اور 18-2017 میں چینی کی پیداوار مقامی کھپت سے زیادہ تھی اس لیے اسے برآمد کیا گیا۔ملک میں چینی کے بحران اور قیمتوں میں اضافے کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کی رپورٹ میں 2018 میں چینی کی برآمد کی اجازت دینے کے فیصلے اور اس کے نتیجے میں پنجاب کی جانب سے 3 ارب روپے کی سبسڈی دینے کو بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق 2018 میں تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو اس وقت میں ملک میں چینی ضرورت سے زیادہ تھی، اس لیے مشیر تجارت، صنعت و پیداوار کی سربراہی میں شوگر ایڈوائزری بورڈ (ایس اے بی) نے 10 لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی سفارش کی جس کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے بھی منظوری دی، حالانکہ سیکریٹری فوڈ سیکیورٹی نے اگلے سال گنے کی کم پیداوار کا امکان ظاہر کرتے ہوئے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔تاہم چینی کی برآمد کی اجازت دے دی گئی اور بعد میں پنجاب حکومت نے اس پر سبسڈی بھی دی۔کمیٹی کی رپورٹ میں چینی کی برآمد اور قیمت میں اضافے سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں کے نام بھی سامنے لائے گئے ہیں جس کے مطابق اس کا سب سے زیادہ فائدہ ایک بااثر گروپ کو ہوا جس نے مجموعی سبسڈی کا 22 فیصد یعنی 56 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیا۔رپورٹ کے مطابق اس کے بعد سب سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے والا گروپ بھی ایک وفاقی وزیر کا قریبی عزیز ہے جس نے 18 فیصد یعنی 45 کروڑ 20 روپے کی سبسڈی حاصل کی۔اس گروپ کے مالکان میں دو چوہدری بھی شامل ہیں جبکہ اس کے بعد تیسرے نمبر پر زیادہ فائدہ اٹھانے والے گروپ کو 16 فیصد یعنی 40 کروڑ 60 لاکھ روپے کی صورت میں ہوا۔اس کی ملکیت میں موجود کمپنیوں نے گزشتہ برس چینی کی مجموعی پیداوار کا 29.60 فیصد حصہ برآمد کیا اور 40 کروڑ 60 لاکھ روپے کی سبسڈی حاصل کی۔ایک اور گروپ کی 8 شوگر ملز نے گزشتہ برس برآمداتی سبسڈی کی مد میں 90 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیے، اس گروپ پر منی لانڈرنگ کیس بھی چل رہا ہے۔
#/S