• پی ٹی آئی نے آڈیو لیکس تحقیقات کرنیوالے جوڈیشل کمیشن کوسپریم کورٹ میں چیلنج کردیا
  • سپریم کورٹ کے کسی جج کے خلاف تحقیقات یا کارروائی کا فورم سپریم جوڈیشل کونسل ہے
  • جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیا جائے،درخواست میں استدعا
  • آڈیو لیکس تحقیقات،جوڈیشل کمیشن نے تمام آڈیوز کے ٹرانسکرپٹ طلب کرلئے
  • ہم پر بھاری ذمہ داری ہے، چاہتے ہیں جلد کمیشن اپنی کارروائی مکمل کرے،جسٹس فائز عیسیٰ
  •  کمیشن 2016کے ایکٹ کے تحت بنایا گیا ہے،اٹارنی جنرل
  •  یہ سپریم جوڈیشل کونسل نہیں بلکہ یہ صرف اورصرف جوڈیشل کمیشن ہے،جسٹس فائز عیسیٰ
  • وفاقی حکومت کو کمیشن کا ایک ای میل ایڈریس بھی بناکر جاری کرنے کی ہدایت

اسلام آباد  (ویب نیوز)

تحریک انصاف نے آڈیو لیکس کی تحقیقات کرنے والے جوڈیشل کمیشن کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔ جوڈیشل کمیشن کے خلاف سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کردی گئی۔ یہ درخواست پی ٹی آئی کی جانب سے ایڈوکیٹ بابر اعوان کے توسط سے دائر کی گئی جس میں استدعا کی گئی ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیا جائے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس پاکستان کی اجازت کے بغیر کسی جج کو کمیشن کے لیے نامزد نہیں کیا جاسکتا، سپریم کورٹ کے کسی جج کے خلاف تحقیقات یا کارروائی کا فورم صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہے۔

ا ڈیو لیکس تحقیقات،جوڈیشل کمیشن

آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لئے حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس نعیم اختر افغان اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق پر مشتمل تین رکنی کمیشن نے اٹارنی جنرل آف پاکستان  منصور عثمان اعوان سے بدھ 24مئی تک تمام آڈیوز کے ٹرانسکرپٹ طلب کرلئے ۔ کمیشن نے آڈیوزمیں شامل تمام افراد کے نام ، ایڈریس اور رابطہ نمبر بھی طلب کر لئے۔کمیشن کی دوسری سماعت آئندہ ہفتے کے روز منعقد ہو گی۔ سوموار کے روز کمیشن کا اجلاس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں منعقد ہوا۔اجلاس سپریم کورٹ کے کورٹ روم نمبر7میں منعقد ہوا۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل نے کمیشن کے نوٹیفکیشن  کے ٹی اوآرز پڑھ کرسنائے۔ جوڈیشل کمیشن نے اپنا سیکرٹریٹ سپریم کورٹ میں قائم کرلیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج کی حیثیت سے کچھ آئینی فرائض بھی ہیں، ہم پر بھاری ذمہ داری ہے، چاہتے ہیں جلد کمیشن اپنی کارروائی مکمل کرے۔ دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان سے استفسار کیا کہ یہ جوڈیشل کمیشن کس قانون یا ایکٹ کے تحت بنایا گیا ہے۔ اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کمیشن 2016کے ایکٹ کے تحت بنایا گیا ہے۔ اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے واضح کیا کہ یہ سپریم جوڈیشل کونسل نہیں بلکہ یہ صرف اورصرف جوڈیشل کمیشن ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل کو ایک سم اورایک انیڈائیڈ فون بھی فراہم کرنے کا حکم دیا ہے۔ جو نمبر کمیشن کے استعمال کے لئے دیا جائے گاوہ موبائل نمبر پبلک کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔وفاقی حکومت سے کمیشن کا ایک ای میل ایڈریس بھی بناکر جاری کرنے کی ہدایت جاری کی گئی ہے تاکہ لوگ اگر کمیشن کے حوالے سے کوئی معلومات دینا چاہیں تووہ دے سکتے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ آڈیو لیکس میں دوبڑی عمر کی خواتین بھی شامل ہیں اور ان کا بیان بھی ریکارڈ کیا جائے گااوراگر اس مقصد کے لئے کمیشن کو لاہور بھی جانا پڑا توکمیشن لاہور بھی جائے گا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کمیشن کی کارروائی کو پبلک کیا جائے اس حوالے سے وفاقی حکومت کو کوئی اعتراض تو نہیں۔ اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جیسے کمیشن مناسب سمجھے۔ اس پر کمیشن نے فیصلہ کیا کہ اس تمام ترکارروائی کو اوپن رکھا جائے گا۔ کمیشن کا کہنا تھا کہ بدھ کے روز تک ایک اشتہار دیا جائے کہ جو لوگ اس کیس سے متعلق کوئی تفصیلات دینا چاہیں تو وہ دے سکتے ہیں، جو معلومات دینے والا ہو گااس کو تمام تراپنی ہی تفصیلات دینا ہوں گی، کوئی نامعلوم درخواست موصول نہیں کی جائے گی۔کمیشن نے کہا ہے کہ تمام آڈیوز کا ٹرانسکرپٹ لفظ بہ لفظ درست فراہم کیا جائے اور یہ کسی ذمہ دار افسر کے دستخط کے ساتھ فراہم کیا جائے تاکہ اگرٹرانسکرپٹ میں کوئی  غلطی ہوئی تو اس کا ذمہ داراسی افسرکو ٹھہرایا جائے ۔ کمیشن نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت جلد ازجلد تمام مطلوبہ اشیاء فراہم کرے تاکہ کمیشن اپنی کارروائی کوآگے بڑھایا جاسکے کیونکہ کمیشن کے رکن ججز اپنی ، اپنی آئینی ذمہ داریاں بھی اداکرتے ہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ کمیشن کی کارروائی صرف اورصرف حقائق جاننے کے لئے ہے، یہ کسی بھی طور پر سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی نہیں ہے اور نہ ہی ہم کسی جج کے خلاف اس کے کنڈکٹ کا جائزہ لے رہے ہیں، صرف اور صرف حقائق سامنے لانے کے لئے اورحقائق واضح کرنے کے لئے یہ کمیشن تشکیل دیا گیا ہے چونکہ وہ خود سپریم جوڈیشل کونسل کے رکن بھی ہیں اور سپریم کورٹ سینئر ترین جج بھی ہیں اس لئے وہ کسی بھی ایسے معاملہ میں نہیں جائیں گے جہاں پر یہ معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کے دائرہ اختیار میں مداخلت کی طرف آئے گا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ یہ کوئی فوجداری کارروائی بھی نہیں ہے ، تمام فریقین کو بہت احترام کے ساتھ نوٹسز جاری کئے جائیں گے اورانہیں طلب کیا جائے گااوران کے بیان قلمبند کئے جائیں گے لہذا نہ تو کوئی اس میں کوئی ملزم ہے اور نہ اس میں کسی قسم کے الزامات کی تحقیقات کرنی ہے۔ کمیشن نے واضح کیا ہے کمیشن کی کاروائی پبلک اور اوپن ہو گی اور کسی چیز کو چھپایا نہیں جائے گا۔کمیشن نے کہا ہے کہ اگر کسی حساس معاملہ کے اوپر ان کیمرہ کارروائی کی درخواست آئی تو اس وقت اس درخواست کا موقع پر ہی جائزہ لے کر اس حوالہ سے کمیشن مناسب احکامات جاری کرے گا۔ کمیشن نے واضح کیا ہے کہ کسی نامعلوم ذرائع سے آنے والی معلومات کو قبول نہیں کیا جائے گا ، جو معلومات فراہم کرنا چاہتا ہے اس کو اپنا نام، رابطہ نمبر اور اپنی شناخت واضح کرنا ہو گی۔