سپریم جوڈیشل کونسل میں سابق جج جسٹس (ر)سید مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف پانچ سرکاری گواہوں نے بیان ریکارڈ کروادیئے
پلاٹ بیچنے والے مالک چوہدری محمد شہباز اوراس کے بیٹے حسن شہباز کا بیان بھی ریکارڈ ۔تمام گواہوں کے بیان حلف لینے کے بعد ریکارڈ کیئے گئے
ابھی شہادتیں ریکارڈ کررہے ، سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی بینچ کے فیصلہ تک کوئی فائنڈنگ نہیں دیں گے،چیف جسٹس
جسٹس (ر)سید مظاہر علی اکبر نقوی نے وکیل خواجہ حارث احمد کو اپنی مزید وکالت سے روک دیا ،کونسل کی مزید کارروائی آج دوبارہ شروع ہوگی
اسلام آباد( ویب نیوز)
آڈیو لیک اسکینڈل کے خلاف درخواستوں پر سپریم جوڈیشل کونسل میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق جج جسٹس (ر)سید مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف پانچ سرکاری گواہوں نے بیان ریکارڈ کروادیئے جبکہ پلاٹ بیچنے والے مالک چوہدری محمد شہباز اوراس کے بیٹے حسن شہباز کا بیان بھی ریکارڈ کر لیا گیا۔تمام گواہوں کے بیان حلف لینے کے بعد ریکارڈ کیئے گئے۔ جبکہ سپریم جوڈیشل کونسل میں انکشاف ہوا ہے کہ پلاٹ کے مالک کو پانچ کروڑ روپے کا چیک سمارٹ سٹی پرائیویٹ لمیٹڈ لاہور کی جانب سے دیا گیا۔ کونسل نے سمارٹ سٹی پرائیویٹ لیمٹڈ کے نمائندے اور منیجر عسکری بینک غالب روڈ گلبرک لاہور کو چیک تیار کرنے کے معاملہ پر طلب کر لیا ہے۔ جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے واضح کیا ہے کہ ہم ابھی شہادتیں ریکارڈ کررہے ہیںاور سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی بینچ کے فیصلہ تک کوئی فائنڈنگ نہیں دیں گے۔ جبکہ جسٹس (ر)سید مظاہر علی اکبر نقوی نے وکیل خواجہ حارث احمد کو اپنی مزید وکالت سے روک دیا ہے جس کے بعد خواجہ حارث نے کونسل کے سامنے پیش ہونے سے معذرت کر لی۔ کونسل نے مزید کاروائی آج (جمعہ)دن 11بجے تک ملتوی کردی۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر)سید مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی زیر صدارت کھلی عدالت منعقد ہوا۔ کونسل کے دیگر ارکان میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس سید منصور علی شاہ، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس محمد امیر بھٹی اور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس نعیم اخترافغان شامل ہیں۔ اجلاس کی کاروائی رجسٹرار سپریم کورٹ مس جزیلہ اسلم نے چلائی جبکہ اٹارنی جنرل بیرسٹر منصور عثمان اعوان بطور پراسیکیوٹرپیش ہوئے۔ کونسل نے جسٹس (ر)مظاہر نقوی کے خلاف آفیشل گواہان کے بیانات قلم بند کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ پراسیکوٹر منصور عثمان اعوان نے گواہان کی فہرست کونسل میں پیش کردی۔پراسیکیوٹر منصور عثمان اعوان نے کہا کہ مجموعی طور پر پانچ آفیشل گواہان کی فہرست پیش کی۔ پہلے گواہ ملٹری اسٹیٹ آفیسر لاہور کینٹ عبدالغفار ریکارڈ کے ہمراہ کونسل کے سامنے پیش ہوئے۔ ملٹری اسٹیٹ آفیسر لاہور کینٹ عبدالغفار نے بیان قلم بند کرانے سے قبل حلف اٹھایا۔حلف میں کہا گیا کہ میں اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر حلف اٹھاتا ہوں کہ میں جو کچھ کہوں کاریکارڈ کے مطابق کہوں گا اورجوکچھ کہوں گا ایمان کے مطابق سچ کہوں گا اور جھوٹ نہیں بولوں گا۔جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے دوران عدالتی معاون خواجہ حارث نے مقف اپنایا کہ میرا وکالت نامہ جسٹس مظاہرنقوی کے جج ہونے تک ہی تھا، میرا وکالت نامہ منسوخ ہو چکا ہے اسی طرح کے سوالات شوکت عزیزصدیقی کیس میں بھی ہیں۔ جس پر چیف جسٹس پاکستان نیریمارکس دیے کہ شوکت عزیزصدیقی کیس کی سماعت مکمل ہو چکی ہے، اگرآپ گواہان پرجرح کرنا چاہیں تو کونسل کوبتا دیجیے گا۔خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ ریٹائرڈ ججز کے خلاف کارروائی سے متعلق سپریم کورٹ کا بینچ مقدمہ سن رہا ہے، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے عافیہ شہربانو کیس کے فیصلے کا انتظار کریں گے، شوکت عزیزصدیقی کیس میں فیصلہ محفوظ ہے، جسٹس نقوی کے خلاف گواہان کو بلایا گیا تھا، آج ان کے بیانات ریکارڈ کریں گے۔ بعد ازاں وکیل خواجہ حارث نے سپریم جوڈیشل کونسل کی مزید معاونت سے معذرت کرلی۔ ڈپٹی کنٹرولر ملٹری اسٹیٹ آفیسر لاہور کینٹ عبدالغفار ر نے لاہور کنٹونمنٹ میں 1983 اسکوائریاڈر کے پلاٹ کے دستاویزات پیش کردیں، ریکارڈ کے مطابق پلاٹ 28 جون 2022 کو سابق جج مظاہر نقوی کے نام کروایا گیا، سینٹ جونز پارک پراپرٹی لاہور کینٹ کا ریکارڈ کونسل میں پیش کر دیا گیا۔چیئرمین کونسل چیف جسٹس نے گواہ سے مکالمہ کیا کہ آپ کے پاس کونسی پراپرٹی کا ریکارڈ ہے؟گواہ نے بتایا کہ لاہور کنٹونمنٹ بورڈ کی پراپرٹی نمبر 100 کا ریکارڈ ہے، 1962 میں یہ پراپرٹی سید افضال علی کو لیز پر دی گئی۔ابتدائی طور پر پلاٹ کا رقبہ 2.455ایکڑ تھا۔ 1967 میں یہ پراپرٹی محمد اسحاق کو ٹرانسفر ہوئی، محمد اسحاق نے پراپرٹی اپنی بیوی نسیمہ وارثی کو گفٹ کردی، 2004 میں یہ زمین نسیمہ وارثی کی بیٹی بسمہ وارٹی کو ٹرانسفر ہوی، بسمہ وارٹی نے اس زمین کو 2 پلاٹس میں تقسیم کیا، بسمہ وارثی کے بعد شوہر چوہدری محمد شہباز اور بیٹے حسن شہباز وارثی کو یہ پلاٹس ملے، 2022 میں پراپرٹی جسٹس مظاہر نقوی نے10 کروڑ سے زائد میں خریدی۔پلاٹ یکم جولائی کو جنرل لینڈ رجسٹرمیں رجسٹرڈ کیا گیا۔ سیل ڈیڈ کے مطابق پلاٹ 10کروڑ 60لاکھ روپے سے رائد رقم میں سید مظاہر علی اکبر نقوی نے خریدا۔چیف جسٹس نے کہا کہ شکایت کندہ کہاں ہے کوئی سوال پوچھناچاہتا ہے توگواہ سے پوچھ لے۔ اس کے بعد دوسرے گواہ کنٹونمنٹ ایگزیکٹو آفیسر لاہور کنٹونمنٹ کاشف شہزاد نے بیان ریکارڈ کروایا اور بتایا کہ انہوں نے سید مطاہر علی اکبرنقوی کے گھر کی تعمیر کے کنسٹرکشن پلان کی دودسمبر 2022کو منظوری دی۔جبکہ دوگواہوں نے پیش ہو کر پلاٹ کی 2022اور موجودہ قیمت کے تخمینے سے آگاہ کیا۔ جسٹس سردار طارق مسعود کا کہنا تھا کہ کیا یہ آفیشلز ہیں۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ان کاتعلق پاکستان بینکنگ ایسوسی ایشن سے ہے۔ ڈائریکٹر ڈی ایف اے آصف عزیز نے بتایا کہ اس زمین یا پلٹوں کی قیمتوں کے تعین کا18سالہ تجربہ اوراب تک وہ 700سے800جائیدوادوں کی قیمت کاتخمینہ لگاچکا ہے۔ آصف عزیز کا کہنا تھا کہ ان کی کمپنی لاہور، اسلام آباداورفیصل آباد میں کام کرتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 25جون2022کو پلاٹ کی مالیت جو کہ 3.97کنال رقبہ پر واقع ہے مالیت 27اور28کروڑکے درمیان تھی جبکہ 9جنوری2024کواس کی مالیت 37کروڑ روپے تھی۔ چیف جسٹس نے آصف عزیز سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کوادائیگی ہوجائے گی۔ جبکہ ایکسل انجینئرنگ کے ڈائریکٹر محمد کاشف رحمان نے بتایا کہ ان کی پی بی سے سے منظورشدہ کمپنی ہے اوربینکوں کی زمینوں کی مالیت کاتخمینہ لگاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سید مظاہر علی اکبر نقوی کے پلاٹ کی قیمت 25جون2022کو 25کرور78لاکھ سے زائد تھی جبکہ 8جنوری2024کو یہ مالیت 35کروڑ 70لاکھ روپے تک پہنچ چکی ہے۔کاشف رحمان کا کہنا تھا کہ انہوں نے سید مظاہر علی اکبر نقوی کے گھر کا دورہ کیا تاہم انہیںملازمین کی جانب سے اندر نہیں جانے دیا گیا۔ کاشف رحمان نے بتایا کہ ان کا زمینوں کی قیمتوں کے تعین کا20سالہ تجربہ ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ قیمت کے حساب سے لاہور میں کون سے علاقہ میں جگہ سب سے زیادہ مہنگی ہے۔ اس پر کاشف رحمان نے بتایا کہ لاہور کینٹ اور پھر جی اوآر کاعلاقہ ہے، کینٹ 6نمبر میں ایک کنال پلاٹ کی قیمت 6سے8کروڑ روپے ہے۔ اس کے بعد ڈائریکٹر جنرل ریجنل ہیڈآفس نادرالاہور سہیل جہانگیر نے پیش ہوکر چوہدری محمد شہباز کی بیویوں اوربچوں کی تفصیل بتائی۔ ان کا کہنا تھا کہ چوہدری شہباز کی دوبیویاں بسمہ وارثی اور حمیرہ شہزادی ہیں۔ جبکہ بسمہ وارثی سے تین بیٹے محمد حسن شہبازوارثی، محمد حسین شہبازوارثی اور علی حمزہ شہباز ہیں جبکہ حمیرہ شہزادی سے توبیٹیاں اورایک بیٹا ہے۔ ان کا کہناتھا کہ محمد شہباز نے بسمہ وارثی کی 2020میں وفات کے بعدان کا شناختی کارڈ 19جولائی2020کو منسوخ کروایا۔ جسٹس سردار طارق مسعود کا کہناکا کہنا تھا کہ جب عدالت سے 1مارچ2021کو ڈگری ہوئی تواس وقت ایک ہی بچہ تھا وہ بالغ تھا کہ نہیں۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ بچے کی تاریخ پیدائش2004ہے۔ جسٹس سردار طارق مسعود کا کہنا تھا کہ جب سول کورٹ نے ڈگری جاری اس وقت بھی بڑا بچہ نابالغ تھا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سول کورٹ سے کیس کاریکارڈ منگوایا تھاوہ آیا کہ نہیں۔اس پر رجسٹرار سپریم کورٹ جزیلہ اسلم نے بتایا کہ وہ ریکارڈ آگیا ہے۔ چیف جسٹس کا پلاٹ کے مالک محمد شہبازسے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سیل ڈیڈ پر کس نے دستخط کئے ہیں۔ اٹارنی جنرل کا والد اوربچے نے کئے ہیں۔ ریکارڈ منگوانے کے رجسٹرار سپریم کورٹ نے خط لکھا تھااس لئے مس جزیلہ اسلم روسٹرم پر آئیں اور حلف پر بتایا کہ انہوں نے خطوط لکھے تھے اور ریکارڈ موصول ہوا۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ پلاٹ کے مالک چوہدری محمد شہبازاورحسن شہباز بھی موجود ہیں اوران سے کوئی بھی سوال پوچھ سکتا ہے۔ اس کے بعد دونوں روسٹرم پر آئے تاہم چیف جسٹس نے حسن شہبازکو باہر بھجوادیا اور ان کے والد کا بیان ریکارڈ کیا گیا۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ چوہدری محمد شہباز نے 12فروری2021کو بسمہ وارثی کی جائیداد اپنے اوربیٹے کے نام منتقل کرنے کے لئے کیس دعویٰ دائر کیا۔ چوہدری شہبازنے بتایا کہ وہ ہائی کورٹ کے وکیل ہیں اوران کی10سال پریکٹس ہے۔ چوہدری شہبازکا کہنا تھا کہ ان کا بنگلا بناہوا تھا تاہم سید مظاہر علی اکبر نقوی نے گراکراسے دوبارہ تعمیر کیا ہے۔ چیف جسٹس نے محمدشہباز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے درخواست میں غلط بیانی کی۔ اس پر محمد شہبازکا کہنا تھا کہ دوبچوں کے (ب)فارم نہیں بنے تھے۔ جسٹس سردار طارق مسعود کا کہنا تھا کہ حسن نابالغ تھااس کو بھی چھپا لیتے۔ چیف جسٹس نے محمد شہبازسے اسفسار کیا کہ گارڈین آف پراپرٹی کے لئے کوئی درخواست دی تھی کہ نہیں، تین بچے نابالغ تھے مجھے بیچنے کی اجازت دی جائے، کوئی درخواست دی تھی کہ نہیں۔ اس پر محمد شہبازکا کہنا تھا کہ کوئی درخواست نہیں دی۔ چیف جسٹس نے ان سے سوال کیا کہ یہ غلط کام آپ نے کیوں کیا، کیا کسی نے کہا یہ کرو، غلط بیانی کرو، بیٹوں کا حق ماررہے ہو،جب بچے بڑے ہوتے تو توہ بیچ دیتے، آپ کے ہاتھ میں امانت تھی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ماشاء اللہ آپ وکیل ہیںگارڈین عدالت سے اجازت لے لیتے، جھوٹا دعویٰ دائر کیا، قانونی طور پر بانالغ اپنی مرضی بتاہی نہیں سکتا، جج صاحب کو معطل کریں یا کیا کریں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کسی کو اعتراض نہ ہونے کااشتہار فرنٹ اخبار میں چھپوایا میں نے تویہ اخبار نہیں دیکھا۔ محمد شہبازکا کہنا تھا کہ تصدق مصطفی نقوی جو کہ سید مظاہر علی اکبر نقوی کے صاحبزادے ہیں وہ سارا معاملہ ڈیل کرتے تھے، جولائی میں قبضہ دینا تھا ، مصدق مصطفی نقوی نے کہا کہ 30جون 2022کے بعد سیل ڈیڈ کا ریٹ دوگنا ہوجائے گااس لئے جلدی سیل ڈیڈکر لیں ، 24جون2022کو سیل ڈیڈ کروائی اور دومرتبہ جج صاحب بھی میرے پاس آئے، مطاہر نقوی نے کہا کہ سیل ڈیڈ پہلے رجسٹرڈ کروالیں اور گارڈین جج سے بعد میں سرٹیفکیٹ لے لینا۔ محمد شہبازنے بتایا کہ اسے پانچ، پانچ کروڑ روپے کے دوپے آرڈر دیئے گئے اور3کروڑ روپے کیش دیا گیا اور کل 13کروڑ روپے ملے، سید مظاہر نقوی نے پے آرڈر دیئے اورکیش بھی انہوں نے ہی دیا۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ لاہور سمارٹ سٹی کی درخواست پر عسکری بینک گلبرگ لاہور نے پے آرڈر بناکردیا۔ جسٹس سردار طارق مسعود کا محمدشہباز کامخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ ایڈووکیٹ بھی ہیں اورآپ کو پتا ہے عدالت میں جھوٹ بولنا جرم ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ محمد شہبازنے عدالت میں حلف پر بیان دیا کہ میراایک بیٹا ہے، غلط بیان دیا کہ بسمہ وارثی اورمیراایک ہی بچہ تھا۔ جسٹس سردار مسعود نے سوال کیا کہ کیس میں دوگواہ طارق محمود اور محمد جمیل کون ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ محلہ داروں کو بھی اپنے ساتھ پھنسائیں گے، کون محلے دارگواہی دینے جاتا ہے۔ جسٹس سردار طارق مسعود کا کہنا تھا کہ اپنا پتہ ٹیمپل روڈ مزنگ لکھا ہے اور گواہوں کا پتا شاہدرہ اورسمن آباد لکھا ہے۔ ان دونوں نے حلف پر بیان دیا، دونوںنے کہا کہ حسن کے علاوہ کوئی بچہ نہیں، ایسے گواہ کچہری میں دستیاب ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دونوں گواہ جانتے تھے کہ محمد شہباز کے بسمہ وارثی سے تین بیٹے ہیں اورمحمد شہباکی طرف سے انہوں نے جھوٹ بولا۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کا کہنا تھا کہ بینکرز چیک کس کی درخواست پر بنایا گیا ۔ اس پر محمد شہبازکا کہنا تھا کہ مظاہر نقوی کے بیٹے نے کہا کہ لاہور سمارٹ سٹی پرائیویٹ لمیٹڈ کا چیک لے لیں ، کوئی مسئلہ ہوتوہم ذمہ داروں گا ہمارا آپس مین لین دین ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کس اکائونٹ سے ادائیگی ہوئی کیا یہ سمارٹ سٹی کااکائونٹ ہے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ مجھے بینکرز چیک جاری کرنے کے معاملہ پر گلبرگ برانچ کے کسی ذمہ دار افسر کو بلانے کیااجازت دی جائے۔ محمد شہبازکا کہنا تھا کہ اس نے اچھی نیت سے بنگلا بیچا تھا اوراپنے تینوں بچوں کے ڈی ایچ اے میں ساڑھے 4کروڑ کا پلاٹ بھی خریدا ہے۔ محمد شہباز نے پلاٹ کی خریداری کا ثبوت بھی چیف جسٹس کو فراہم کیا تاہم چیف جسٹس نے محمد شہبازکو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اسے واپس لے لیں آپ مزید پھنسیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سینٹ جانز کا پلاٹ بیچ کر ڈی ایچ اے میں پلاٹ خرید رہے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سمارٹ سٹی کیا چیز ہے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ 17فروری کو سمارٹ سٹی کی جانب سے زاہد رفیق بطور گواہ پیش ہوں گے۔ محمد شہبازنے بتایا کہ دوسرا پے آرڈر بھی عسکری بینک کا ہی تھا۔ چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ دوسرے پے آرڈر کی کاپی بھی فراہم کی جائے۔ چیف جسٹس نے محمد شہباز کا بیان ریکارڈ کرنے کے بعد کہا حسن شہباز وارثی کو بلائیں۔ حسن شبہاز نے پیش ہو کرکہا کہ وہ کوئی بیان نہیں دے اس کے والد نے جوبیان دیا ہے وہ کافی ہے۔ چیف جسٹس کا حکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی کاروائی عوام کے لئے کھلی تھی، مظاہر علی اکبر نقوی نے خواجہ حارث کو مزید وکالت سے روک دیا۔ ہم نے کہا کہ خواجہ حارث یااورکوئی بھی جسٹس (ر)مظاہر نقوی کی جانب سے جرح کرنا چاہتے توکرسکتا ہے۔ کونسل نے آئین کے آرٹیکل 210-Aکے تحت حکم دیا کہ رقم کی ادائیگی کے حوالہ سے پے آرڈر بنانے پر عسکری بینک غالب روڈ گلبرگ برانچ کے مینجر ریکارڈ پیش کریں، اوریجنل ریکارڈ بھی پیش کریں اورفوٹوکاپیاں بھی فراہم کریں۔ کونسل نے سمارٹ سٹی کے نمائندے کو بھی پیش ہونے کاحکم دیا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم سپریم کورٹ کے فیصلے تک کوئی فائنڈنگ نہیں دیں گے۔ کونسل نے مزید کاروائی (جمعہ)دن 11بجے تک ملتوی کردی۔ ZS
#/S