پانچ سال کے بچے کو 148کنال زمین کا گفٹ دینے کا معاملہ ہم قبول نہیں کریں گے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

ہم نے دیکھنا ہے کہ مسلم لاء کے مطابق گفٹ درست ہے کہ نہیں

شوہر نے دوسری بیوی کو خوش کرنے کے لئے غلط گفٹ دیا

شوہر نے سوچا بیوی بھی خوش ہوجائے گی اورگفٹ بھی نہیں ہوگا جیسے پولیس والے غلط ایف آئی آرکاٹ دیتے ہیں،دوران سماعت ریمارکس

اسلام آباد( ویب  نیوز)

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ پانچ سال کے بچے کو 148کنال زمین کا گفٹ دینے کا معاملہ ہم قبول نہیں کریں گے، شوہر نے دوسری بیوی کو خوش کرنے کے لئے غلط گفٹ دیا، شوہر نے سوچا بیوی بھی خوش ہوجائے گی اورگفٹ بھی نہیں ہوگا جیسے پولیس والے غلط ایف آئی آرکاٹ دیتے ہیں۔ ہم نے دیکھنا ہے کہ مسلم لاء کے مطابق گفٹ درست ہے کہ نہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اورجسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے صدر عباس کی جانب سے ڈسٹرکٹ کلیکٹر سرگودھا کے خلاف دائر اپیل پر سماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن بیرسٹر محمد شہزاد شوکت پیش ہوئے جبکہ مدعا علیحان کی جانب سے بشریٰ قمر بطور وکیل پیش ہوئیں۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ سارے بچے کتنے ہیں، ڈونر کانام کیا ہے۔ اس پر شہزادشوکت کا کہناتھا کہ عطامحمد کی دوبیویاں تھیں پہلی بیوی سے چار بیٹیاں اوردوسری بیوی سے دو بیٹے تھے۔ شہزادشوکت کا کہنا تھا کہنا والد نے صدر عباس کو گفٹ کیا۔ اس پر جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ درخواست گزارکوگریس شوکرنا چاہیئے تھا۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ درخواست گزار نے ہائی کورٹ کا 29مئی1998کا حکم بھی چیلنج نہیںکیا۔ شہزاد شوکت کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کاحکم غلط ہے، ادب سے کہتا ہوں۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ کیا دوسرے بھائی نے گفٹ چیلنج کیا ۔اس پر شہزاد شوکت کا کہنا تھاکہ چیلنج نہیں کیا بلکہ پارٹی بنا۔ شہزادشوکت کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ والد ایک بچے کو گفٹ نہیں دے سکتا جو کہ اسلام کی تعلیمات کے بھی خلاف ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے دیکھنا ہے کہ گفٹ مسلم لاء کے تحت ویلڈ ہے یانہیں۔ شہزادشوکت کا کہنا تھا کہ والد نے صدرعباس کو148کنال زمین گفٹ کی اور مزارعین کے سامنے بچے کو قبضہ دیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پانچ سال کے بچے کو زمین کاقبضہ یا، جب عطامحمد زندہ تھا تودوبارہ صدر عباس کو گفٹ کردیتا۔ جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھاکہ صرف بیٹے کے لئے عطامحمد نے دوسری شادی کی اور میاں بیوی کی عمرمیں 30سال کا فرق تھا۔ شہزاد شوکت کاکہنا تھاکہ ہماری بیٹی کی بڑی خواہش تھی مگر اللہ تعالیٰ نے ہماری خواہش پوری نہیں کی۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ہمارے سامنے تومینڈیٹری انجنکشنز کا معاملہ ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ہم پانچ سال کے بچے کو گفٹ دینے کا معاملہ قبول نہیں کریں گے، والد نے دوسری بیوی کوخوش کرنے کے لئے جان بوجھ کر غلط گفٹ دیا کہ بیوی بھی خوش ہوجائے اورگفٹ بھی نہ ہو جیسے پولیس والے غلط ایف آئی آر کاٹ دیتے ہیں۔ شہزادشوکت کا کہنا تھا کہ کوئی فائنڈنگ نہیں کہ عطامحمد پاگل تھا۔ جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ عطامحمد ایک سرٹیفیکیٹ لگادیا کہ میں پاگل نہیں۔ چیف جسٹس کا شہزادشوکت سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہمیں دکھادیں ویلڈ گفٹ ہے ہم ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قراردیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایک جگہ عطامحمدکہہ رہا ہے کہ اس کی صرف بیٹیاں ہیں ایسا نہ ہودرخواست گزار وراثت سے ہی محروم ہوجائے۔ جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ آگے عطامحمد کہتا ہے کہ مجھے ہسپتال میں ہاتھ باندھ کررکھا تھا میںپاگل نہیںتھا۔ چیف جسٹس کا حکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ پانچ سالہ بچے کو گفٹ کا قبضہ نہیں دیاجاسکتا تھا، گفٹ ثابت نہیں ہوا لہذادرخواستیں خارج کی جاتی ہیں۔