بھارتی کسانوں اور بی جے پی حکومت میں مذاکرات ناکام ، دہلی مارچ آج (بدھ کو) پھر شروع ہوگا
اس بار حکومتی یقین دہانی کے بجائے قانونی گارنٹی ملنے تک کسانوں کا واپس نہ لوٹنے کا اعلان
نئی دہلی( ویب نیوز)
بھارتی حکومت اور کسان یونین کے درمیان معاہدہ نہ ہوسکا، کسانوں نے بدھ سے "دہلی چلو” مارچ پھر شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔احتجاج کی قیادت کرنے والے رہنماں میں سے ایک جگجیت سنگھ دلیوال نے میڈیا کو بتایا کہ اتوار کو دی گئی حکومت کی تجویز کسانوں کے مفاد میں نہیں تھی۔انہوں نے مزید کہا کہ کسان جن میں سی لاکھوں لوگ حکومتی پیشکش کے انتظار میں دارالحکومت سے تقریبا 200 کلومیٹرکے فاصلے پر ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں بدھ سے نئی دہلی کے لیے اپنا مارچ دوبارہ شروع کریں گے۔دلیوال نے کہا کہ ہم حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ یا تو ہمارے مسائل حل کریں یا رکاوٹیں ہٹائیں اور ہمیں پرامن احتجاج کے لیے دہلی جانے کی اجازت دیںاحتجاج کرنے والے کسانوں نے گزشتہ ہفتے اپنا مارچ شروع کیا تھا لیکن ان کی شہر تک پہنچنے کی کوششوں کو حکام نے روک دیا ہے۔پولیس نے آنسو گیس کا استعمال کیا اور دارالحکومت میں داخلی راستوں پر بھاری رکاوٹیں لگا دیں ہیں تاکہ 2021 جیسا کسان احتجاج دہرایا نہ جا سکے جب انہوں نے ایک سال سے زائد عرصے تک کے لیے مضافات میں ڈیرے ڈال لیے تھے۔گزشتہ رات تادیر کاشتکار رہنماں نے کہا کہ انہوں نے حکومت کی طرف سے دالوں، مکئی اور کپاس سمیت فصلوں کے لیے ضمانت شدہ قیمتوں کے لیے پانچ سالہ معاہدے کی پیشکش کو مسترد کر دیا ہے ۔بھارتی کسانوں نے حکومتی آفرکو مسترد کر دیا، متنازع ذرعی اصلاحات کے خلاف اور پینشن کے حصول کے لیے دلی کی طرف جانے پر بضد، دوسری جانب مودی حکومت نے کسانوں کو روکنے کے لیے روکاوٹیں کھڑی کر دیں۔بھارت میں ان دنوں کسان متنازع ذرعی اصلاحات، پینش، قرضوں کی معافی سمیت اپنے حقوق کے لیے احتجاج کر رہے ہیں، اگرچہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کی جانب سے کئی آفرز دی گئیں، تاہم کسان اپنے مطالبات سے ٹس سے مس نہیں ہو رہے ہیں۔ رواں سال ہونے والے مارچ کو کسانوں نے دلی چلو مارچ کا نام دیا ہے۔دلی سے 200 کلومیٹر دور پولیس کی جانب سے کسانوں کو روکا گیا تھا، جس کے بعد سے کسانوں اور حکومت کے مابین مذاکرات کے کئی دور گزر چکے ہیں، لیکن ڈیڈ لاک برقرار ہے۔مودی حکومت کی جانب سے کی گئی آفر پر کسانوں کا ایک ہی موقف تھا کہ یہ ہمارے مفاد میں نہیں ہے حکومت کی جانب سے ایک نئی آفر MSP یعنی Minimum Support Price بھی دی گئی تھی، جس کے مطابق کوآپریٹوز کے ذریعے اگلے 5 سال تک کے لیے ایک خاص قیمت پر دالیں، کپاس اور مکئی کی خریداری ہو گی۔لیکن اس سب میں کسان چونکہ ایک بار پہلے ہی حکومتی یقین دہانی پر دھوکہ کھا چکے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس بار قانونی طور گارنٹی ملنے تک واپس نہ جانے اعلان کر رکھا ہے، ساتھ ہی اس آفر میں 3 فصلوں کے بجائے 23 فصلیں شامل کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔کسان یونین کے رہنما جگجیت سنگھ دلیوال کا کہنا تھا کہ ہم حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ یا تو ہمارے مسائل حل کریں یا پھر دلی جانے کے لیے لگائی گئیں، رکاوٹیں ہٹا دیں اور ہمیں اجازت دیں کہ ہم دلی میں پر امن احتجاج کر سکیں۔واضح رہے 2020 میں بھی کسانوں کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا تھا اور اسی حوالے سے کسان دارالحکومت دلی کی طرف آ رہے تھے تاہم حکومتی یقین دہانی پر وہ واپس چلے گئے تھے، تاہم اس بار حکومتی یقین دہانی کے بجائے قانونی گارنٹی ملنے تک واپس نہ لوٹنے کا اعلان کر دیا ہے۔دوسری جانب کسانوں پر مختلف مقامات پر بھارتی پولیس کی جانب سے ڈنڈے بھی برسائے جا رہے ہیں، جس کے باعث کئی کسان زخمی بھی ہوئے۔