سینیٹ قائمہ کمیٹی پارلیمانی امورکااجلاس میںالیکشن کمیشن حکام کی عدم شرکت پر اظہاربرہمی،تحریک استحقاق لانے کا فیصلہ
مالیاتی امور پر بریفنگ کے لئے سیکرٹری ای سی پی اور دیگر حکام کو مدعوکیا گیا
ای سی پی نے بیان بھیج دیااخراجات کی تفصیلی رپورٹ فراہم کرنے کے پابند نہیں
چیئرمین سینیٹ سے بھی کمیٹی کا رجوع کرنے کا فیصلہ
اسلام آباد ( ویب نیوز)
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امورنے اجلاس میںالیکشن کمیشن آف پاکستان حکام کی عدم شرکت پر اظہاربرہمی کرتے ہوئے تحریک استحقاق لانے کا فیصلہ کرلیا ۔ مالیاتی امور پر بریفنگ کے لئے سیکرٹری ای سی پی اور دیگر حکام کو مدعوکیا گیا تھا،ای سی پی نے بیان بھیج دیا کہ وہ کمیٹی کو اخراجات کی تفصیلی رپورٹ فراہم کرنے کا پابند نہیں ہیں ۔چیئرمین سینیٹ سے کمیٹی نے رجوع کرنے کا فیصلہ بھی کیا ہے ۔ کمیٹی کا اجلاس سینیٹر ڈاکٹر محمد ہمایوں مہمند کی زیر صدارت پارلیمینٹ ہاؤس میں ہوا۔ اجلاس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مالی سال 2024-25 کے لیے مختص مجموعی اخراجات کا جائزہ لیا جانا تھا ، تنخواہیں اور دیگر اخراجات شامل ہیں۔کارروائی کے دوران پی ٹی آئی رہنما سینیٹر علی ظفر نے سخت تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہماری توہین ہے، الیکشن کمیشن کے متعلقہ حکام یہاں نہیں آئے، چیف الیکشن کمشنر اور ارکان پر پارلیمانی نگرانی کا اختیار ہے ، اگر ہم ان سے سوالات نہیں پوچھ سکتے تو پھر کون سی کمیٹی ذمہ دار ہے؟۔سینیٹر ہمایوں مہمند نے اپنی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کمیٹیوں کو پہلے بریفنگ دے چکا ہے کہ ای سی پی کو 50 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، پھر بھی ہم ان سے ان کے اخراجات کے بارے میں پوچھ گچھ کرنے سے قاصر ہیں۔سینیٹر خلیل سندھو نے ای سی پی کے احتساب پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ کیا ہم سمجھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن ہائی کورٹ کے برابر ہے، کیا ہم ان کی بھرتی کے عمل پر سوال نہیں اٹھا سکتے؟سینیٹر سرمد نے ای سی پی کے وزارت پارلیمانی امور کے ساتھ تعلقات کے بارے میں استفسار کیا، سینیٹر محسن عزیز نے سوال کیا کہ ای سی پی کی رپورٹ بار بار پارلیمنٹ میں کیوں پیش کی جاتی ہے۔پارلیمانی امور کے سیکرٹری نے اس بات پر زور دیا کہ ای سی پی ایک آئینی ادارہ ہے، کسی وزارت سے وابستہ نہیں۔ ای سی پی کے اخراجات چارج شدہ اخراجات کے تحت آتے ہیں، جو قومی اسمبلی کی ووٹنگ سے مشروط نہیں ہیں۔سینیٹر ہمایوں مہمند نے اعلان کیا کہ "الیکشن کمیشن کا پیش ہونے سے انکار سینیٹ کی توہین ہے، میں استحقاق کمیٹی سے مداخلت کا مطالبہ کروں گا کیونکہ اس سے پارلیمنٹ کا وقار مجروح ہوا ہے۔”کمیٹی نے اس معاملے پر اٹارنی جنرل یا وزارت قانون سے مشورہ کرنے اور قانونی رائے لینے پر مشاورت کی۔ سینیٹر علی ظفر نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ای سی پی کی آزادی کے باوجود اس کے اخراجات کی پارلیمنٹ کو جانچ پڑتال کرنی چاہیے۔ جب کہ ای سی پی کی جانب سے بیان میں واضح کیا گیا کہ کمیشن ایک آزاد آئینی ادارے کے طور پر کام کرتا ہے، کسی وزارت کے ماتحت نہیں، اور وہ کمیٹی کو اخراجات کی تفصیلی رپورٹ فراہم کرنے کا پابند نہیں ہے۔ ای سی پی سے توقع ہے کہ وہ انتخابی قوانین اور آئینی امور سے متعلق قانون سازی کے معاملات میں معاونت کرے گا۔سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے اس معاملے میں چیئرمین سینیٹ رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے ان رہنمائی کے بعد اس معاملے میں پیش رفت کے لئے مشاورت ہوگی۔