• سینیٹ قائمہ کمیٹی خارجہ امورکا اجلاس میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی مسلسل عدم شرکت پر تحفظات کا اظہار
  • چیئرمین کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں ہر صورت وزیرمملکت خارجہ امور حنا ربانی کھر کو شرکت کی ہدایت کردی
  •   روسی درآمدہ تیل کی ڈالر کی بجائے مقامی کرنسی میں ادائیگی ہوسکتی ہے بریفنگ
  •  امریکہ یورپی یونین برطانیہ کے برعکس چین کے ساتھ تجارتی حجم میں عدم توازن ہے
  • دو ارب ڈالر سے زائد کی چین کو برآمدت جب کہ چین سے چھ اراب ڈالر سے زائد کی درآمدات ہوتی ہیں
  • سیکرٹری خارجہ اور وزارت تجارت کے حکام کی بریفنگ

اسلام آباد (ویب نیوز)

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی خارجہ امور نے اجلاس میںوزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی مسلسل  عدم شرکت پر ارکان نے تحفظات کا اظہار کردیا ،چیئرمین کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں ہر صورت وزیرمملکت خارجہ امور حنا ربانی کھر کو شرکت کی ہدایت کردی جب کہ بریفنگ میں بتایا گیا ہے کہ  روسی درآمدہ تیل کی ڈالر کی بجائے مقامی کرنسی میں ادائیگی ہوسکتی ہے امریکہ یورپی یونین برطانیہ کے برعکس چین کے ساتھ تجارتی حجم میں عدم توازن ہے دو ارب ڈالر سے زائد کی چین کو برآمدت جب کہ چین سے چھ اراب ڈالر سے زائد کی درآمدات ہوتی ہیں ۔منگل کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کا اجلاس چئیرمین فاروق ایچ نائیک کی صدارت میں ہوا۔اجلاس میں سینیٹر انوار لحق کاکڑ اور سینیٹر مشاہد حسین سید  وزیرخارجہ کی عدم شرکت پر تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ جب بھی اجلاس ہوتا ہے وزرا شرکت نہیں کرتے،اگر وزیر خارجہ ملک میں نہیں تو وزیر مملکت کو تو آنا چاہیے،وزیرمملکت  اگر نہیں آ سکتیں تو ہم وزارت خارجہ چلے جاتے ہیں۔چیئرمین کمیٹی نے ہدایت کی کہ کم از کم وزیر مملکت کا ہر صورت اجلاس میں آنا چاہیے تھا ۔سیکریٹری خارجہ اسد مجید خا ن نے کہا کہ جب بھی کمیٹی ہمیں بلاتی  ہے ہم  موجود ہوتے ہیں ۔چئیرمین کمیٹی نے استفسار کیا کہ خارجہ پالیسی کون بناتا ہے بیوروکریٹ یا سیاستدان  ؟ سیکرٹری خارجہ  نے کہا کہ حکومت خارجہ پالیسی بناتی ہے۔چئیرمین کمیٹی نے کہا کہ خارجی پالیسی سیاستدان بناتے ہیں جبکہ بیوروکریٹ اس پر عملدرآمد کراتے ہیں، تو سیاستدان وزیر مملکت کو یہاں موجود ہونا چاہیے تھا ،چئیرمین کمیٹی نے ہدایت کہ آئندہ اجلاس میں وزیر مملکت خارجہ امور کو موجود ہونا چاہیے انہیں پیغام پہنچا دیں۔چئیرمین کمیٹی نے روس اور یوکرائن تنازع  پر  پاکستان کے موقف سے متعلق  اجلاس کو ان کیمرہ کر دیا، درخواست وزارت خارجہ نے کی تھی،چئیرمین کمیٹی کی درخواست  پر صحافی کمیٹی روم سے باہر آ گئے،تاہم چئیرمین کمیٹی نے ابتدائی طورپر کہا  تھا کہ ہم اجلاس کو کیوں ان کیمرہ کریں، ہم کیوں خارجہ پالیسی کو عوام سے چھپائیں،کیا عوام کو خارجہ پالیسی کا علم نہیں ہونا چاہیے۔سینیٹر انوارلحق کاکڑنے کہا کہ نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے  اجلاس میں جو بریفنگ دی گئی وہ  سب اخبارات میں شائع ہوگئیں، مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ان کیمرہ سیشن کی ضرورت کیا ہے۔اجلاس میں  ایڈیشنل سیکرٹری کامرس احسن علی منگی  نے کمیٹی کو درآمدات و برآمدات پر بریفنگ ہوئے بتایا کہ امریکہ کے ساتھ پاکستان  جی ایس پی معاہدہ کی تجدید کہ کوشش کر رہا ہے۔ یورپی یونین امریکہ برطانیہ پاکستانی برآمدات کا بڑا حصہ ٹیکسٹائل پر مبنی ہے جب کہ پاکستان امریکہ سے کاٹن درآمد کر رہا ہے،گذشتہ برس ایک ارب ڈالرز کی کاٹن امریکہ سے منگوائی گئی ہماری کاٹن کی فصل خسارے میں ہوئی، اس مرتبہ کاٹن کی درآمد تین گنا زیادہ ہو گی، گوشت,  آم,  آئی ٹی ڈیٹا سیکیورٹی پر امریکہ سے بات چیت ہوئی ہے  ۔پہلی مرتبہ برطانیہ پاکستان ٹریڈ ڈائیلاگ شروع ہوئے ہیں ، یہ ڈائیلاگ کافی مفید رہے ہیں، برطانیہ موسمیاتی تبدیلیوں لیبر,  انسانی حقوق سمیت چار مختلف فریم ورکس پر بات چیت کررہا ہے تاہم آسٹریلیا,  کینئڈا,  جاپان کے ساتھ ہمارے تجارتی تعلقات بہت زیادہ نہیں ہیں۔سینیٹر محمد طاہر بزنجونے کہا کہ وزیر دفاع  نے بھی ڈیفالٹ کا بیان دیا تاہم اگر ہم ڈیفالٹ نہیں کر چکے تو اس کے قریب ضرور ہیںماضی کو چھوڑین ہمیں موجودہ اور تازہ  تجارتی کامیابی کی صورتحال کا بتائیں،بہت سے دوست ممالک سے ہمارے دوستانہ تعقات اس طرح نہیں رہے۔ ایڈیشنل سیکرٹری کامرس کے مطابق آئندہ 5 برس میں ہمین برطانیہ سے انتہائی سازگار تجارت ملے گی انہوں نے جی ایس پی پلس سے زیادہ بہتر انتظام متعارف کرایا ہے،یہ انتظام یوکے ڈیویلپنگ کنٹریز ٹریڈنگ سکیم کے نام سے ہے۔پاکستان کو اس اسکیم سے کافی فائدہ ہونے کی توقع ہے۔سیکرٹری خارجہ اسد مجید خان نے کہا کہہمیں ایک بحران کا سامنا ہے، اس صورتحال مین ہماری برآمدات کو چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے، ہمارا روایتی برآمدات  کا حجم  بھی کافی کم ہوا ہے،ہم یورپ کو صرف 5 ملین کی مچھلی برآمد کرتے ہیں، اس میں معیار اور اسٹینڈرڈ کے مسائل کا سامنا ہے۔امریکہ سے ایک. کافی عرصہ بعد اب ہماری بات چیت بہتر ہوئی ہےِ، تجارت میںسروسز بہت زیادہ پھیلی ہوئی ہے ،ہم ابھی تک عالمی بنک کے معیار کے مطابق لوئیر انکم ممالک میں شامل ہیں۔ ہم ایک کم ترقی پذیر ملک ہیں۔سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ازبکستان میں بھی کپاس وافر پیدا ہو رہی ہے، تو ہم امریکہ سے کپاس کیوں درآمد کر رہے ہیں۔ایڈیشنل سیکرٹری کامرس ازبکستان سے  بھی کپاس کی درآمد بڑھ جائے گی  بریفنگ میں یہ بھی  بتایا گیا ہے کہ  روسی درآمدہ تیل کی ڈالر کی بجائے مقامی کرنسی میں ادائیگی ہوسکتی ہے۔ امریکہ یورپی یونین برطانیہ کے برعکس چین کے ساتھ تجارتی حجم میں عدم توازن ہے ۔دو ارب ڈالر سے زائد کی چین کو برآمدات جب کہ چین سے چھ اراب ڈالر سے زائد کی درآمدات ہوتی ہیں۔ پاکستان اور چین کے درمیان چینی کرنسی یوآن میں لین دین  بھی ہوتی ہے روس  کو بھی روبل میں ادائیگی پر بات ہوسکتی ہے تاہم حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے ۔ارکان کے سوالات کے جوابات میں سیکرٹری خارجہ اسد مجید خان نے کہا کہ آئی ایم ایف اے بات چیت پر وزارت خزانہ قیادت کر رہی ہیاوروزارت خزانہ ان مزاکرات کو تکنیکی مذاکرات قرار دے رہی ہے،یہ پہلی یا آخری مرتبہ نہیں کہ ہم آئی ایم ایف کے پاس گئے ہیں۔ایڈیشنل سیکرٹری کامرس نے کہا کہ روس ہمارا اہم ہمسایہ ہے،تاہم ہماری روس سے زیادہ تجارت نہیں رہی،یوکرائن جنگ کے بعد ہماری تجارت میں مزید کمی ہوئی ہے،حال ہی میں ہم نے آلو کی بڑی فصل ایران,  آزربائیجان کے راستے روسی شہر کازان پہنچائی،پابندیوں کے بعد ادائیگیوں میں بہت سے مسائل کا سامنا ہے، روس کے ساتھ تیل کی ادائیگیاں ڈالرز یا روبل میں کرنے پر فیصلہ نہیں ہوا، اس حوالے سے بات چیت ابھی جاری ہے روس کے ساتھ ماسکو میں انٹر گورنمنٹ میٹنگ ہے  چین کی طرح  روس کو مقامی کرنسی میں ادائیگیاں ہوسکتی ہیں  ہم ان سے مسلسل رابطے میں ہیں،ابھی اس اجلاس کا وقت طے نہیں کیا گیا۔ افریقی ممالک سے تعلقات پر بھی  بریفنگ دی گئی اور کہا گیا کہ ہماری خارجہ پالیسی کا ایک بڑا مرکوز افریقہ پر ہے متعدد افریقی ممالک کے سفارت کاروں کو تربیت فراہم کر رہے ہیں افریقی ممالک سے طلبہ کو سکالر شپ  دے  رہے ہیں، افریقی ممالک کے کیڈٹس کو بھی تربیت فراہم کی جا رہی ہے افریقی ممالک سے تجارت انتہائی کم 6.94ارب ڈالرز ہے،اس میں صرف1.91ارب ڈالرز کی برآمدات ہیں پاکستان افریقہ کے ساتھ تجارت میں اضافہ کے لئے پرامید ہیں۔مشاہد حسین سیدنے کہا کہ افریقہ انتہائی اہم براعظم ہے اب ہمارے وہاں تعلقات میں بہتری آ رہی ہے ۔سیکرٹری تجارت نے بتایا کہ قازقستان کے ساتھ ترجیحی تجارت کا معاہدہ تیار ہے، ان کے صدر نے پاکستان کا دورہ کرنا ہے ،اسی طرح وسطی ایشیائی ممالک ازبکستان,  آزربائیجان و دیگر ممالک کے ساتھ معاہدے کیے جا رہے ہیں۔ تجارت کے حوالے سے ریجن پر بھی توجہ دے رہے ہیںگذشتہ ایک برس میں افریقہ کے ساتھ تجارت مین کافی اضافہ ہوا ہے۔ فارما کی صنعت نے افریقہ می. بہت تیزی سے جگہ بنائی ہے ۔ رکشہ اور موٹرسائیکل مینوفیکچرز کے حوالے سے  افریقی ممالک میں اہم معاہدے ہوئے ہیں۔چاول اور استعمال شدہ گرم کپڑے بڑی تعداد میں افریقی ممالک کو برآمد کیے جاتے ہیںہم نے دفتر خارجہ سے ہٹ کر لک افریقہ کی پالیسی متعارف کرائی ہے، ہر برس ہم افریقہ میں ایک بڑی تقریب منعقد کرتے ہیں،اس تقریب میں ہم پاکستان سے کمپنیوں اور کاروباری شخصیات کو لے کر جاتے ہیں،مختلف ممالک میں ایسی تقریبات کا انعقاد کر چکے ہیں۔اس برس تجارت کے لئے  ہم مصر کی جانب بڑھیں گے،مصر نے پاکستانی گوشت میں دلچسپی دکھائی ہے،افریقہ کے ساتھ ٹیرف کے دلچسپ انتظامات ہیں،اگر ہم چیزیں حصوں میں لے کر جائیں اور وہاں جوڑ لیں تو ٹیرف کافی کم ہوتا ہے تاہم بھارت افریقہ میں ایک بڑا پلئیر ہے۔بقیہ اجلاس ان کیمرہ کردیا گیا اور روسن یوکرین تنازع پر بریفینگ دی گئی۔