سپریم کورٹ میں میڈیا چینلز کی غیر مشروط معافی منظور،توہین عدالت کی کاروائی ختم
ہر ادارہ حملے کی زد میں ہے،منظم طریقہ سے ملک کو تباہ کیا جا رہا ، باہر سے کسی کی ضرورت نہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
 ہم لوگوں کے سامنے جوابدہ ہیں، ہم میڈیا کی آزادی کاتحفظ چاہتے ہیں، کچھ ذمہ داری اٹھائی جانی چاہیئے،دوران سماعت ریمارکس

اسلام آباد(ویب  نیوز)

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ہر ادارہ حملے کی زد میں ہے،منظم طریقہ سے ملک کو تباہ کیا جا رہا ہے باہر سے کسی کی ضرورت نہیں،ہرطرف چور، چور ہورہاہوتا ہے، کیوں اپنی ذمہ داری پوری نہیں دکھاتے، جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہیں، کچھ ایسے کورٹ رپورٹرز بھی بھیج دیئے جاتے ہیں جن کو کچھ پتہ نہیں، جیونوٹس کے باوجود اسی شخص کو دوبارہ بھیج دیتا ہے جس کو کچھ پتا نہیں ، جھوٹ بولنے پر اے آروائی کولندن میں بند کردیا گیا، یہاں پر میڈیا کی آزادی اوراظہاررائے کی آزادی ہے۔ہر طرف چور چور ہو رہی ہوتی ہے کیا اس طرح کا ملک چاہتے ہیں،پیمرا نے کہا ہے کہ تاخیری میکنزم کانظام لگائیں وہ نہیں لگاتے، گالیاں نشر نہیں ہوں گی تو ریٹنگ کیسے آئے گی،کوئی گالی دے گاتوخوش ہوں گے،جنتی گالیاں دوسروں کوپڑواتے ہیںایک دفعہ ان کے اپنے خاندانوں کو پڑجائیں تو سب ٹھیک ہوجائیں گے۔ یوٹیوبرز بھی تنقید کریں یہ سب کاحق ہے، ہوتا کچھ ہے جاکرخبر کچھ اورچلائیں گے، ہم لوگوں کے سامنے جوابدہ ہیں، ہم میڈیا کی آزادی کاتحفظ چاہتے ہیں، کچھ ذمہ داری اٹھائی جانی چاہیئے ہم کسی کو جیل نہیں بھیجنا چاہتے مگر احساس ذمہ داری تو ہو ؟آگے بڑھنے کاطریقہ کیا ہے۔ ادارے کے اندرکوئی احتساب نہیں، یااُس رپورٹر کی حمایت کرتے ہیں جوسنسنی خیزخبرلاتا ہے، کتنوں کو جھوٹی خبر پرنکالا، سنسنی خیزخبرنہ دینے پر شاید کسی کونکالا ہو۔ دوتوہین عدالت کرنے والوں نے آکر معافی مانگ لی وہ کیوں نہیں چلائی اوراُس وقت ٹی وی چینلز نے معافی کیوں نہیں مانگی، خبرکوتباہ کیا، جس کی پگڑی اچھالنا چاہیں آپ کے ہاتھ میں ہے، یہ لیول ہے میڈیا کا، میڈیا کی آزادی کے پیچھے چھپنا چاہتے ہیں۔ صرف جاہلوں کے سامنے چیخ وپکارہوتی ہے، صرف اسی کوبلائیں گے جس سے ریٹنگ بڑھتی ہے ، عقلمند کوکبھی نہیں بلائیں گے۔ صرف ٹاک شوکے پاکستان میں کوئی اورچیز ہے۔ پی بی اے، یوٹیوبرز کے لئے کلاسیں منعقدکرے کہ لوگوں کی عزت نفس کاخیال رکھیں، کلاسز منعقد کریں، تربیت کریں یا رہنمائی فراہم کریں۔ جبکہ سینیٹر محمد فیصل واوڈاکی عدلیہ اور ججز کے خلاف توہین آمیر پریس کانفرنس دکھانے پر جاری توہین عدالت کے شوکازنوٹسز پر تمام ٹی وی چینلز کی جانب سے غیر مشروط معافی مانگ لی گئی ۔سپریم کورٹ نے ٹی وی چینلز کی غیر مشروط معافی منظورکرتے ہوئے ٹی وی چینلز کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی ختم کر دی۔ٹی وی چینلز نے پرائم ٹائم میں معافی نامہ نشر کرنے کی یقین دہانی کروا دی۔جبکہ پی بی اے نے یقینی دہانی کروائی ہے کہ ٹی وی چینلز خود احتسابی کا عمل بھی بہتر بنائیں گے اورتاخیری میکنزم بھی یقینی بنایا جائے گا۔جبکہ ٹی وی چینلز کے وکیل فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے تسلیم کیا کہ پریس کانفرنس میں کی گئی توہین آمیز باتیں بھی دوبارہ نشر نہیں ہونی چاہیں تھیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت خان ، جسٹس نعیم اخترافغان اور جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 4رکنی لارجر بینچ نے جمعرات کے روز سینیٹر فیصل واوڈا کی عدلیہ اورججز کے خلاف توہین آمیز پریس کانفرنس دکھانے پر 34ٹی وی چینلز کوجاری توہین عدالت کے شوکازنوٹسز پر سماعت کی۔ دوران سماعت ٹی وی چینلز کے مالکان ، سی ای اوز، پی بی اے چیئرمین شکیل مسعود اوردیگر حکام پیش ہوئے۔ درخواست گزاروں کی جانب سے فیصل صدیقی ایڈووکیٹ ، ذولفقار احمد بھٹہ، عاصمہ مشتاق بطوروکلاء پیش ہوئے جبکہ کچھ ٹی وی چینلز کے نمائندوں نے ذاتی حیثیت میں پیش ہوکرمعافی نامہ جمع کروایا۔ وفاق کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان نے پیش ہوکردلائل دیئے۔ فیصل صدیقی کاچیف جسٹس سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میں آپ کی اجازت سے 28جون 2024کاعدالتی حکمنامہ پڑھ دوں۔ حکم میں کہا گیا تھا کہ 34ٹی وی چینلز کو توہین عدالت کے شوکاز نوٹسز جاری کئے جاتے ہیں، فیصل صدیقی34میں 26ٹی وی چینلز کی نمائندگی کررہے تھے۔ عدالت نے دوہفتے میں شوکاز نوٹسز پر جواب طلب کیا تھا۔ حکم میں کہا گیا تھا کہ چینل کامالک یاسب سے بڑاشیئرہولڈر اور آپریشنل ہیڈ جواب پر دستخط کرے گا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ دیگر ٹی وی چینلز کی جانب سے کون آیا ہے۔ ذوالفقار بھٹہ ایڈووکیٹ نے پیش ہوکرکہا کہ وہ ٹیلن نیوز کی جانب سے پیش ہورہے ہیں، انہیں آج ہی وکیل کیا گیا ہے انہیں جواب جمع کروانے کے لئے مہلت دی جائے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جواب دیا ہے کہ نہیں ۔ اس پر ذوالفقار بھٹہ کاکہنا تھا کہ میں آج ہی انگیج ہوا ہوا ہوں ۔ اس پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ مبارک ہوچلیں بیٹھیں۔ سندھ ٹی وی ، سیون نیوزاوردھرتی ٹی وی کی جانب سے بھی جواب جمع کرایا گیا۔ جبکہ بول چینل کی جانب سے عاصمہ مشتاق ایڈووکیٹ نے پیش ہوکر معافی نامہ جمع کروایا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ معافی ماگی کہ نہیں۔ اس پرعاصمہ مشتاق کاکہنا تھاکہ معافی مانگی ہے۔ چیف جسٹس نے فیصل صدیقی کوہدایت کی کہ وہ 28جون2024کاحکمنامہ پڑھیں اوراس میں جوقرآن،حدیث اور دیگر جواسلامی حوالے دیئے گئے ہیں وہ پڑھیں تاکہ ٹی وی چینلز کے مالکان اس سے سیکھیں۔ اس کے بعد سماعت میں چائے کا وقفہ کردیا گیا۔ وقفہ کے بعد جب دوبارہ سماعت شروع ہوئی توچیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے سوال کیا کہ پاکستان میں سب سے بڑاچینل کون ساہے۔ اس پر فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ سب سے بڑاچینل جیونیوز ہے۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جواب پڑھیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پاکستان میں دوسرابڑچینل کون ساہے، اس حوالہ سے پورے اعدادوشمار ہوتے ہیں۔ اس پرفیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ دوسرابڑاچینل اے آروائی نیوز ہے۔ فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ میں اے آروائی کی بھی نمائندگی کررہاہوں،ٹی وی چینلز نے غیر مشروط معافی مانگی ہے۔فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ فیصل واوڈااورسید مصطفی کمال نے غیر مشروط معافی مانگ لی تھی جس کے بعد ہمیں بھی اپنی غلطی کااحساس ہوا۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ نے معافی کن وجوہات پر مانگی ہے؟اس پر فیصل صدییق کاکہنا تھا کہ 28 جون کا عدالتی حکمنامہ پڑھا تو احساس ہوا غلطی ہوئی۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آپ ہمارے اس آرڈر سے اتنے متاثر ہوتے تو اس کی تشہیر نہ کرتے؟ آپ ٹی وی چینلز سب کنٹرول کرتے ہیںجوپوراپاکستان سنتا ہے، کون کیا سوچے اسے بھی آپ کنٹرول کرتے ہیں، کیا توہین آمیز پریس کانفرنس دکھائی جانی چاہیئے، آپ نے ہمارے 28جون کے حکمنامے کو بھی دبادیا اوراسے اخبارات میں بھی نہیں چھپنے دیا۔فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ میں نے ٹی وی پر بھی سناتھا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ بیرون ملک اس طرح ٹی وی پرلوگوں کو بدنام کیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ فیصلے پر تنقید کرسکتے ہیں،بے لگام سوشل میڈیا کے ساتھ مقابلہ ہے،آپ نے سنسنی پھیلانی ہوتی ہے، یوٹیوب پر بھی ڈالرز ہی دیکھے جاتے ہیں، پھر میڈیا کی آزادی کے پیچھے چھپیں گے، جائو10سال جاکر ہتک عزت کا کیس چلائو۔ چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ میں نے اپنے کیریئر میں یہ پہلا توہین عدالت کا کیس اٹھایا،ہر طرف چور چور ہو رہی ہوتی ہے کیا اس طرح کا ملک چاہتے ہیں،پیمرا نے کہا ہے کہ تاخیری میکنزم کانظام لگائیں وہ نہیں لگاتے، گالیاں نشر نہیں ہوں گی تو ریٹنگ کیسے آئے گی،کوئی گالی دے گاتوخوش ہوں گے،جنتی گالیاں دوسروں کوپڑواتے ہیںایک دفعہ ان کے اپنے خاندانوں کو پڑجائیں تو سب ٹھیک ہوجائیں گے۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یوٹیوبرز بھی تنقید کریں یہ سب کاحق ہے، ہوتا کچھ ہے جاکرخبر کچھ اورچلائیں گے، ہم لوگوں کے سامنے جوابدہ ہیں، ہم میڈیا کی آزادی کاتحفظ چاہتے ہیں، کچھ ذمہ داری اٹھائی جانی چاہیئے ہم کسی کو جیل نہیں بھیجنا چاہتے مگر احساس ذمہ داری تو ہو ؟آگے بڑھنے کاطریقہ کیا ہے۔  آپ کو سخت ٹیچر جیسا پیمرا ہی چاہیے جو بتائے کیا ٹھیک کیا غلط ہے؟کیا یہ کوئی پرائمری کلاس ہے،ہر ادارہ حملے کی زد میں ہے،منظم طریقہ سے ملک کو تباہ کیا جا رہا ہے باہر سے کسی کی ضرورت نہیں،ہرطرف چور، چور ہورہاہوتا ہے، کیوں اپنی ذمہ داری پوری نہیں دکھاتے، جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہیں، کچھ ایسے کورٹ رپورٹرز بھی بھیج دیئے جاتے ہیں جن کو کچھ پتہ نہیں، جیو کونوٹس کے باوجود اسی شخص کو دوبارہ بھیج دیتا ہے جس کو کچھ پتا نہیں ، جھوٹ بولنے پر اے آروائی کولندن میں بند کردیا گیا، یہاں پر میڈی کی آزادی اوراظہاررائے کی آزادی ہے۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ آئین کاآرٹیکل 19پڑھیں جو آزادی اظہار رائے کے حوالہ سے ہے اورآئین کاآرٹیکل 14بھی پڑھیں فرد کی عزت نفس کے حوالہ سے ہے۔ فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ کسی کی بے عزتی نہیں کرسکتے اورکسی کی ساکھ کو غلط انفارمیشن کے زریعہ خراب نہیں کرسکتے، کسی کی تذلیل نہیں کرسکتے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اخلاقیات کامطلب کیاہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ادارے کے اندرکوئی احتساب نہیں، یااُس رپورٹر کی حمایت کرتے ہیں جوسنسنی خیزخبرلاتا ہے، کتنوں کو جھوٹی خبر پرنکالا، سنسنی خیرخبرنہ دینے پر شاید کسی کونکالا ہو۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پہلے سینئررپورٹرزکو سپریم کورٹ بھیجا جاتا تھا، آج کل تورپورٹرز کوکچھ پتا ہی نہیں کہ آئین کیاہے ، قانون کیااور سپریم کورٹ کی کاروائی کیا ہے، آپ نے خبرچلا دی ہم کیا وضاحت چلاتے رہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ مسئلہ ہم نے ٹی وی چینلزنے حل کرناہے، اِن کواچھے اوربرے، گڈاوربیڈ کی تمیزنہیں، کیا اِن کو بیٹھ کرتعلیم دینا ہے، ریونیو کی بات ہے اِن کوخوب پتاہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یاتوکہیں کہ اِدھر سے جائواورجگہ نوکری ڈھونڈوتم نے غلط خبرچلائی تھی۔جسٹس عرفان سعادت خان کافیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیاآپ تجویز کررہے ہیں کہ ٹی وی چینلز کے خلاف پیمراآرڈینس کی شق 29-Aکے تحت کاروائی کاکہیں، یہ توایسے ہی ہوگیا کہ نمازیں بخشوانے آئے تھے اورروزے گلے پڑوالئے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ دوتوہین عدالت کرنے والوں نے آکر معافی مانگ لی وہ کیوں نہیں چلائی اوراُس وقت ٹی وی چینلز نے معافی کیوں نہیں مانگی، خبرکوتباہ کیا، جس کی پگڑی اچھالنا چاہیں آپ کے ہاتھ میں ہے، یہ لیول ہے میڈیا کا، میڈیا کی آزادی کے پیچھے چھپنا چاہتے ہیں۔ جسٹس عرفان سعادت خان کاکہنا تھا کہ فیصل واوڈا کی ججوں اورعدلیہ کے حوالہ سے توہین آمیز زبان کے استعمال کی کسی نے اڑھائی ماہ تک مذمت نہیں کی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پبلک ڈاکیومنٹ چلائیں گے نہیں کسی کوپتا بھی نہیں چلے گا۔ فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ ہم نے غلطی ہے اورغیر مشروط معافی مانگی ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھاکہ صرف جاہلوں کے سامنے چیخ وپکارہوتی ہے، صرف اسی کوبلائیں گے جس سے ریٹنگ بڑھتی ہے ، عقلمند کوکبھی نہیں بلائیں گے، جس سے ریٹنگ بڑھتی ہے اسی کوبلائیں گے،ایک چینل نہیں بلائے گاتودوسراچینل پکڑ لے گا ہمارے پاس آجائو۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ صرف ٹاک شوکے پاکستان میں کوئی اورچیز ہے، جنگل نہ کاٹو، پانی ضائع نہ کرو۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ سیاست کے حوالہ سے پارلیمنٹ موجود ہے، پارلیمنٹ کو پی ٹی وی کے علاوہ کوئی کور نہیں کرتا۔اس پر فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے پارلیمنٹ کو سب کوور کرتے ہیں۔فیصل صدیقی کاکہنا تھاکہ پاکستان میں سب سے زیادہ لوگ حادثات میں مرتے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس کاکہناتھا کہ حادثات کے حوالہ سے تومیں نے کوئی پروگرام نہیں دیکھا، بہت کم اچھے پروگرام ہوتے ہیں۔ فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ ٹی وی چینلزکے مالکان موجود ہیں وہ ججز کی جانب سے کی گئی باتوں پر عمل کریں گے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اپنے شہریوں کوپسند کرنا ہے کیونکہ ان کے ساتھ رہنا ہے، 12ربیع الاول آرہی ہے، نبی ۖ کواخلاق کی بہتری کے لئے بھیجاگیاتھا اس کی بات ہی کوئی نہیں کرتا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کوئی بھی مذہب دوسرے کوبرابھلاکہنے اور جھوٹ بولنے کانہیں کہتا۔ چیف جسٹس کافیصل صدیقی کے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پھر کیاہم آپ کے ساتھ کریں، آپ نے کہا ہے ہم معافی چلائیں گے، ہم میڈیا کودبانا نہیں چاہتے، مان لیا آپ نے ایم این اے اورسینیٹر کی کوریج کرنی ہے، بعد میں کہہ دیں کہ انہوں نے جوکہا وہ ہمارے خیالات نہیں تھے۔ فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ دوبارہ نہیں چلانا چاہیے تھا۔ جسٹس عرفان سعادت خان کاکہنا تھا کہ ایک دفعہ نہیں بلکہ 5،5مرتبہ دوبارہ پریس کانفرنس چلائی گئی۔ فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ 51ٹی وی مالکان اور سی ای اوز میںسے 8نہیں آئے وہ بیرون ملک ہیں اورباقی 43آئے ہیں۔ بول نیوز کی وکیل کاکہنا تھا کہ معافی نشرکی جانی چاہئے تھی۔ جبکہ چیف جسٹس کاایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کچھ کہنا چاہیں گے۔ اس پر عامر رحمان کاکہنا تھاکہ غیر مشروط معافی صرف توہین کی شدت کو کم کرتی ہے،1996 کا خالد مسعود کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے،عدالت طے کر چکی توہین عدالت کیس میں نیت نہیں دیکھی جاتی،ڈان اخبار کا اپنا ایک محتسب ہے باقی اداروں میں بھی خوداحتسابی ہونی چاہیے۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ معاف کرنے کی روایت کوبرقرارکھیں یاتوڑدیں۔ فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ چیئرمین پی بی اے اور ڈان ٹی وی کے سی ای او شکیل مسعود بھی عدالت میں موجود ہیں ۔شکیل مسعود کاکہنا تھاکہ ہم خود احتسابی کے عمل کو بہتر بنائیں گے۔چیف جسٹس کاشکیل مسعود سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ڈان انگلش چینل بند ہوگیا کیونہ وہ برابھلاکہنے والے چینلز کے ساتھ مقابلہ نہیں کرسکتا تھا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ڈان اخبار کی رپورٹنگ سب سے درست ہوتی ہے۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ فیصل صدیقی ہمارے خلاف آرٹیکل لکھتے رہے ہیں ہم اس کوسراہتے ہیں۔ شکیل مسعود کاکہنا تھا کہ ڈان اردوچینل 7ویں نمبر پر ہے جبکہ ڈان انگلش اخبار پہلے نمبر پر ہے۔چوہدری عامر رحمان کاکہناتھا کہ خوداحتسابی کرلیں تودرست ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کوئی تاخیری میکنزم اپنا لیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اگر کوئی رپورٹر غلط خبردیتا ہے توکیا کوئی خوداحتسابی اورسزاکامیکنزم ہے۔۔ جسٹس عرفان سعادت خان کاکہنا تھا کہ پہلے بے عزت کردواورپھر معذر ت کرلو۔ جسٹس عرفان سعادت کان کاکہنا تھا کہ یوٹیوبرز، ٹک ٹاکرز، وی لاگرز کس کے کنٹرول میں ہیں، ان کا بھی احتساب کریں۔اس پر فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ وہ پی بی اے کے ماتحت نہیں ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیاہم کہیں کہ آپ میکنزم کوبہترکریں گے، یہ یوٹیوبرز، وی لاگرزاورٹک ٹاکرز پربھی نافذ کیاجائے۔ شکیل مسعود کاکہنا تھا کہ ان کاکوئی میکنزم نہیں ہے،ہم نے کہا ہے یوٹیوبرز کے حوالہ سے بھی ٹی وی چینلز کی طرح میکنزم بنایاجائے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ پی بی اے، یوٹیوبرز کے لئے کلاسیں منعقدکرے کہ لوگوں کی عزت نفس کاخیال رکھیں، کلاسز منعقد کریں، تربیت کریں یا رہنمائی فراہم کریں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا یوٹیوبرز کی کوئی تنظیم نہیں؟وہ کہتے ہیں ہم سب کچھ جانتے ہیں۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ میڈیا ریاست کاچوتھا ستون ہے، حکومت پارلیمنٹ اورہمارے اوپر چیک رکھتا ہے، چھوٹی خبروں میں سچی خبریں بھی غائب ہوجاتی ہیں۔بعد ازاں عدالت نے ٹی وی چینلز کی معافی قبول کرتے ہوئے توہین عدالت کے شوکاز نوٹس نمٹا دیئے۔ ZS
#/S