مولانا فضل الرحمان کا جو کچھ حکومت سے طے ہوا وہ مولانا ہی بتا سکتے ہیں،علامہ طاہر اشرفی
مدارس کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی جارہی، خوف و ہراس نہ پھیلایا جائے،   چیئرمین پاکستان علما کونسل کی نجی ٹی وی سے گفتگو

تمام اسٹیک ہولڈرز کے مابین اتفاق رائے کے باوجود مدارس کے معاملات کو پیچیدہ بنانے سے مزید بگاڑ پیدا ہوگا،وفاق المدارس العربیہ پاکستان

ہمارے مدرسوں کو انتہا پسندی کی طرف دھکیلا جارہا ہے مگر ہم صبر سے کام لے رہے ہیں، فضل الرحمان
بیورو کریسی اور اسٹیبلشمنٹ جتنا چاہیں ہمدردی کے الفاظ استعمال کریں ہمیں ان پر کوئی اعتماد نہیں،جلسے سے خطاب

اسلام آباد  +  نوشہرہ (ویب  نیوز)

جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ آپ ہمارے مدرسوں کو شدت پسندی اور انتہا پسندی کی طرف دھکیل رہے ہیں مگر ہم صبر سے کام لے رہے ہیں،بیورو کریسی اور اسٹیبلشمنٹ جتنا چاہیں ہمدردی کے الفاظ استعمال کریں ہمیں ان پر کوئی اعتماد نہیں۔ نوشہرہ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہم نے آپ کے خلاف اعلان جنگ نہیں کیا، آپ نے ہمارے خلاف جنگ شروع کردی، ہم تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی اطاعت کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ نبی کریم نے فرمایا کہ اللہ سے عافیت مانگا کرو، دشمن کا سامنا کرنے کی خواہش نہ کیا کرو، لیکن اگر سامنا ہوجائے تو پھر ڈٹ جائو، اب سامنا ہوچکا ہے تو ہم ڈٹے رہیں گے۔سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ حکومت مدارس کو شدت اور انتہا پسندی کی جانب دھکیل رہی ہے، یہ تو ہم ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نے آئین پاکستان کے ساتھ چلنا ہے، ریاست سے تصادم نہیں چاہتے، آپ الزام لگاکر ہمیں بدظن کرنا چاہتے ہیں۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ کوئی ایسا فورم بھی نہیں ہے جہاں یہ بحث کی جاسکے کہ دہشتگردی آپ پیدا کر رہے ہیں یا ہم ؟ میرے بھائیو ! یہ ایک جنگ ہے، آپ نے جدیدیت کے نام پر الحاد کا اور ارتداد کا راستہ روکنا ہے، تو پھر مدرسے کی بقا انتہائی ضروری ہے, جبری اصلاحات گھڑ کے ہم پر مسلط کی جارہی ہیں۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ آپ سمجھتے ہیں کہ ہم تھک جائیں گے؟ تم نے یہ سبق نہیں پڑھا، ہم نے احادیث میں یہ سبق پڑھا ہے، ہم تو قیامت تک جہاد کے لیے تیار ہیں، اسی راستے سے تو ہم نے جنت تک پہنچنا ہے۔انہوں نے کہا کہ چیلنج کرتا ہوں ان جدید دور کے لوگوں کولے آئیں، میرے مدرسے کا طالب علم کالج، یونیورسٹی کا امتحان دینے کو تیار ہے، آپ بھی اپنے کالجز اور جامعات کے بچوں کو دینی امتحان میں بٹھائیں، تاکہ پتا لگ جائے کہ کس کو کس شعبے کا علم زیادہ ہے، ہم مدارس میں بچوں کو عصری علوم بھی پڑھاتے ہیں، جدید عصری اداروں میں دین پڑھایا جاتا ہے؟فضل الرحمن نے کہا کہ ماضی میں برصغیر میں بھی دارالعلوم دیو بند نے عصری علوم کا انکار نہیں کیا تھا، بلکہ علی گڑھ یونیورسٹی نے دینی علوم پڑھانے سے انکار کیا تھا، مدارس کیوں وجود میں آئے؟ بر صغیر کے علاوہ دنیا میں اس طرح کے مدارس کیوں نہیں ہیں؟ اسلام اور علما تو ہر جگہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ پشاور میں اسلامیہ کالج ہے، اس کا جب آغاز ہوا تھا تو اس کا نام دارالعلوم الاسلامیہ تھا، لیکن سرکار نے اس کا کیا حشر کیا ؟ یہ سرکاری مدرسہ تھا، بہاولپور میں نواب آف بہاولپور نے جس جامعہ کی بنیاد رکھی تھی، اس میں مولانا شمس الحق افغانی جیسے بڑے پائے کے علما درس دیا کرتے تھے جب سرکار نے وہاں قبضہ کیا تو آج پوچھیں کہ کیا حال ہے۔انہوں نے کہا کہ اب تک آپ کے ہاتھ جو مدارس آئے ہیں، آپ نے ان کا خاتمہ کرکے چھوڑا ہے، مزید یہ چاہتے ہیں کہ ہم اور مدارس ان کو دے دیں ؟ ہم ریاست سے ٹکرائو نہیں چاہتے، ہم کہتے ہیں ہماری رجسٹریشن کریں، بینک اکائونٹ کھولیں، لیکن آپ ہمارے اکائونٹ بند کردیتے ہیں، اب یہ بتائیں کہ رجسٹرڈ مدارس بہتر ہیں یا غیر رجسٹرڈ؟ لائسنس یافتہ اسلحہ غیرقانونی ہتھیاروں سے بہتر ہوتا ہے، خطرات کم ہوجاتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ الیکشن سے قبل پی ڈی ایم کی حکومت بنی، پیپلز پارٹی اس میں شامل تھی اور شہبازوزیراعظم تھے، طویل بحث کے بعد اس بات پر اتفاق ہوا تھا کہ مدارس کو اختیار ہوگا کہ جس کے ساتھ چاہیں رجسٹریشن کرائیں گے ہم نے اس وقت بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا تھا، پھر ڈرافٹ بنا اور 1860 سوسائٹی ایکٹ کے تحت ہم نے ایک شق کا اضافہ کیا یہ ڈرافٹ ہم نے نہیں حکومت نے تیار کیا تھا اس پر اتفاق رائے ہوا تھا بل اسمبلی سے پاس ہوا یہ بل اسمبلی میں پیش ہوا مگر کسی نے روک دیا، ابھی 26 ویں ترمیم میں اس متفقہ ڈرافٹ پر قانون سازی چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں وہ بل ایکٹ بنے۔انہوں نے کہا کہ 26 ویں ترمیم میں مدارس کی رجسٹریشن سے متعلق بل میں بغیر کسی تبدیلی کے ہم نے اسے قبول کیا، تاہم اب تک یہ بل ایکٹ نہیں بن سکا، نہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی اب بھی حکومت میں ہے، ایک ماہ تک مذاکرات کیے اور مجھے انگیج رکھا گیا، پانچ گھنٹے مذاکرات کے بعد یہ بل پاس ہوا اگلے روز میاں نواز شریف کے ساتھ پانچ گھنٹے مذاکرات ہوئے اور بل پر اتفاق رائے قائم ہوا،  پہلے سینٹ بل آیا، 26 ویں ترمیم کا بل 56 شقوں پر مشتمل تھا پھر ہم نے اپنے پانچ نکات شامل کیے، بل پاس ہوگیا اور اب ایوان صدر سے اعتراضات آرہے ہیں، لاہور اجلاس میں صدر اور بلاول موجود تھے اب اعتراض لگانا درست نہیں۔

چیئرمین پاکستان علما کونسل علامہ طاہر اشرفی 

چیئرمین پاکستان علما کونسل علامہ طاہر اشرفی نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کا جو کچھ حکومت سے طے ہوا وہ مولانا ہی بتا سکتے ہیں۔ فضل الرحمان صرف یہ بتائیں تعلیم کا صنعت اور وزارت داخلہ سے کیا تعلق ہے؟ نجی ٹی وی سے گفتگو میں علامہ طاہر اشرفی نے کہا کہ ہمارا تو مطالبہ ہی یہ تھا کہ مدارس کو وزارت تعلیم کے ماتحت کیا جائے۔ طاہر اشرفی نے کہا کہ مدارس کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی جارہی، خوف و ہراس نہ پھیلایا جائے۔

تمام اسٹیک ہولڈرز کے مابین اتفاق رائے کے باوجود مدارس کے معاملات کو پیچیدہ بنانے سے مزید بگاڑ پیدا ہوگا،وفاق المدارس العربیہ پاکستان

وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے چاروں صوبوں کے ناظمین نے مدارس بل کے حوالے سے موجودہ صورت حال کو افسوس ناک قرار دیا،انہوں نے کہا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے مابین اتفاق رائے کے باوجود مدارس کے معاملات کو پیچیدہ بنانے سے مزید بگاڑ پیدا ہوگا،مدارس بل کے حوالے سے تاخیری حربے ملک و ملت کے لیے نیک شگون نہیں،مدارس کے لاکھوں طلبہ و طالبات کو بنیادی انسانی حقوق اور بہتر مستقبل کے امکانات سے محروم رکھنا سراسر زیادتی ہے،مولانا فضل الرحمن کی مدارس کے حوالے سے کاوشیں قابل تحسین ہیں۔ تفصیلات کے مطابق دینی مدارس کے حوالے سے پارلیمنٹ اور سینٹ سے منظور کیے گئے بل کے حوالے سے جو ڈیڈلاک پیدا ہوگیا اس پر جہاں مولانا فضل الرحمن نے حکومت مخالف تحریک چلانے کا عندیہ دیا ہے وہیں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے چاروں صوبوں کے ناظمین مولانا امداد اللہ ناظم وفاق صوبہ سندھ،مولانا صلاح الدین ناظم وفاق صوبہ بلوچستان،مولانا حسین احمد ناظم وفاق المدارس صوبہ خیبر پختونخوا،مولانا زبیر احمد صدیقی ناظم جنوبی پنجاب،مولاناقاضی نثار گلگت بلتستان اور سید عدنان شاہ آزاد کشمیر نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں موجودہ صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کیا اورمولانا فضل الرحمن کے مدارس بارے کردار پر انہیں خراج تحسین پیش کیا ہے-وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظمین نے وزارت تعلیم کے ڈائریکٹوریٹ کو مدرسہ بورڈ کی جدید شکل قراردیاانہوں نے کہا کہ بیرونی ایجنڈے پر مدارس کی آزادی و خود مختاری کو سلب کرنے کے لیے جو مختلف حربے اختیار کیے جا رہے ہیں وہ کسی صورت قابل قبول نہیں- وفاق المدارس کے ناظمین نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ مفاہمت اور بات چیت کا راستہ اپنایا اور احتجاج اور تحریک چلانے کی طرف نہیں گئے لیکن بدقسمتی سے مدارس کے معاملات کو دانستہ بگاڑا جا رہا ہے انہوں نے کہا کہ سمجھ نہیں آتی کہ وہ کون سی قوتیں ہیں جو تمام اسٹیک ہولڈرز کے مابین اتفاق رائے سے طے پانے والے مسودے کے راستے میں رکاوٹیں ڈال رہی ہیں۔وفاق المدارس کے ناظمین نے مطالبہ کیا کہ اگر حکمرانوں نے کسی بھی عالمی ادارے یا بیرونی قوتوں کے ساتھ مدارس بارے کوء خفیہ معاہدے کر رکھے ہیں ان سے قوم کو آگاہ کیا جائے اور مدارس کے معاملات کو درست سمت پر آگے بڑھنے دیا جائے