سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو 9مئی2023کے 85 ملزمان کے فیصلے سنانے کی اجازت دے دی
فوجی عدالتوں کے فیصلے سپریم کورٹ میں زیرالتوا مقدمے کے فیصلے سے مشروط ہوں گے،آ ئینی بینچ کی28مارچ2024کے حکم میں ترمیم
اسلام آباد( ویب نیوز)
سپریم کورٹ آف پاکستان کے آ ئینی بینچ نے فوجی عدالتوں کو پاک فوج کی تحویل میں موجود 9مئی2023کے 85 ملزمان کے فیصلے سنانے کی اجازت دے دی۔آئینی بینچ نے حکم دیا ہے کہ جن ملزمان کی سزائیں کم ہیں یاان کی سزا معاف ہوسکتی ہے ان کوفوری طور پر رہا کردیا جائے جبکہ جن ملزمان کی سزائیں زیادہ ہیں ان کو سول جیلوں میں حکام کے حوالہ کیا جائے گا اور جیل مینوئل کے مطابق ان سے سلوک کیا جائے گا۔آئینی بینچ نے قراردیا ہے کہ فوجی عدالتوں کے فیصلے سپریم کورٹ میں زیرالتوا مقدمے کے فیصلے سے مشروط ہوں گے۔بینچ نے قراردیا ہے جو ملزمان آرمی چیف یا ہائی کورٹ میں فیصلوں کے خلاف اپیلیں کرنا چاہیں کرسکتے ہیں ۔ بینچ نے یہ بھی قراردیا ہے کہ اگرتو فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل نہ ہونے کے حوالہ سے فیصلہ برقراررکھا جاتا ہے توپھر تمام فوجی ٹرائل کالعدم ہوجائیں گے اور مقدمات دوبارہ انسدادہشت گردی عدالتوں میں چلیں گے تاہم اگر اپیلیں منظورہوتی ہیں تو پھر ملزمان کواپیل کاحق سپریم کورٹ کی جانب سے نظرثانی درخواستوں کے فیصلے کی تاریخ سے حاصل ہو گا۔ جبکہ آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستیں بھی پائپ لائن میں ہیں، ہم جنوری کے پہلے ہفتے میں سویلنز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کاکیس ختم کرکے جنوری کے دوسرے ہفتے سے 26ویں ترمیم کے خلاف دائردرخواستوں پر سماعت شروع کرنا چاہتے ہیں۔ بینچ جب لکھ چکا کہ وہ قانون کومانتا ہے توپھر کیسے شقوں کو کالعدم قراردیا ۔اگرقانون کالعدم ہوتا ہے توپھر سارا سسٹم زیروپرآجائے گااور دوبارہ ٹرائل ہوگا۔عدالت فیصلے کی پابند نہیں۔ جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سوال یہ ہے کہ کیا 2-Dآئین کے آرٹیکل 8کے مطابق ہے کہ نہیں، اگر قانون پڑھنا ہے توآرمی ایکٹ ابتدائیہ سے شروع کریں تاکہ پتا چلے کہ آرمی ایکٹ کے نفاذکا مقصد کیا تھا۔ ہم دیکھیں گے کہ آرمی ایکٹ کے نفاذ کامقصد کیا تھا۔ اگر فیصلے کے دونوں طرف خرابیاں ہیں کیاان کوہم ٹھیک کرسکتے ہیں۔ جن کوسزاہواُن کو ضمانت کاحق دے دیاجائے توکوئی حرج نہیں۔ جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کچھ افراد کے پوراقانون کالعدم قراردینا کیا درست ہے، 100یااس سے زیادہ لوگ تھے ان کے حوالہ سے دیکھنا تھا کہ وہ قانون کے تحت آتے ہیں کہ نہیں ساراقانون کالعدم قراردینا درست نہیں، یہ خراب ہے۔ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس سید حسن رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن پرمشتمل7رکنی آئینی بینچ نے 9مئی 2023واقعہ کے سول ملزمان کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے حوالہ سے سپریم کورٹ کے 5رکنی بینچ کے فیصلہ کے خلاف دائر 37انٹراکورٹ اپیلوں پرجمعہ کے روز سماعت کی۔ اپیلیں شہدا فائونڈیشن بلوچستان، وفاقی حکومت ، پنجاب حکومت اوردیگر کی جانب سے دائرکی گئی ہیں۔ درخواستوں میں سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ،بیرسٹر چوہدری اعتزازاحسن، کرامت علی، سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن آف پاکستان، زمان خان وردگ، جنید رزاق اوردیگر کوفریق بنایا گیا ہے ۔سماعت کے آغاز پر بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے اعلان کیا کہ آج نے جانے والے دیگر تمام کیسز کی کاز لسٹ منسوخ کردی گئی ہے صرف فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کاکیس سناجائے گا۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث احمد نے جمعہ کے روز بھی اپنے دلائل جاری رکھے جبکہ وہ آئندہ سماعت پر بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاخواجہ حارث کے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ نے رپورٹ شدہ فیصلے کے سارے حصے اپنے جواب کے ساتھ نہیں لگائے۔اس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ میں نے متعلقہ پیراگرافس ہی لگائے ہیں۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ پانچ رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں پاکستان آرمی ایکٹ 1952کو تسلیم کیا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ہم بھی اتفاق کرتے ہیں کہ یہ قانون آرمی ایکٹ ہی ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ سوال یہ ہے کہ کیا 2-Dآئین کے مطابق ہے کہ نہیں، کیا 2-Dآئین کے آرٹیکل 8کے مطابق ہے کہ نہیں، اگر قانون پڑھنا ہے توآرمی ایکٹ ابتدائیہ سے شروع کریں تاکہ پتا چلے کہ آرمی ایکٹ کے نفاذکا مقصد کیا تھا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا ھتا کہ اگریہ قراردیا کہ 2-Dآئین کے آرٹیکل8-3کے مطابق ہے توپھر ہم آگے چلیں گے، یہ فیصلہ سے پڑھ دیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ پھر آگے چلتے ہیں۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ فیصلے میں خرابی ہے۔ اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل کاانہیں مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اتنابھی فیصلے کوبے توقیر نہ کریں کہ یہ کہہ دیں فیصلے میں خرابی ہے۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ بینچ جب لکھ چکا کہ وہ قانون کومانتا ہے توپھر کیسے شقوں کو کالعدم قراردیا ۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ اس کامطلب ہے کہ آج یاکل کسی بھی شخص کو شامل کرنے کے حوالہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کردیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا پی پی سی اور سی پی سی تمام شہریوں پرلاگوہوتی ہے جبکہ آرمی ایکٹ صرف فوج میں بھرتی ہونے والے افراد پر لاگوہوتاہے، اگر کیس نے آرمی ایکٹ کی شرائط تسلیم نہیں کیں توکیسے اس پر اس کانفاذ ہو گا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ آرمی میں کوئی سویلین ڈرائیور، کوئی مالی اور کوئی کک ہوتا ہے اگروہ کسی دشمن ملک کو خفیہ انفارمیشن دیتا ہے تواس کے خلاف کہاں کیس چلے گا۔ اس پر خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ اُس کاکورٹ مارشل ہوگا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ہم دیکھیں گے کہ آرمی ایکٹ کے نفاذ کامقصد کیا تھا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ سارا کیس کورکمانڈرہائوس کے گرد گھوم رہا ہے ایف آئی آرکی کاپیاں فراہم کریں، ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ کہاں کہاں حملے ہوئے۔ اس پرایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمان نے عدالت کو بتایا کہ تمام تفصیلات آج صبح ہی موصول ہوئی ہیں۔ تفصیلات باضابطہ طور پر متفرق درخواست کی صورت میں جمع کرائوں گا۔جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ ایک قانون کالعدم قراردیا جاچکا ہے اس کے تحت خیبرپختونخوااوربلوچستان میں بہت سے ٹرائل ہوئے ان کاکیا بنے گا۔ اس پرخواجہ حارث کاکہنا تھا کہ اگر قانون کالعدم ہوتا ہے توپہلے سے ہونے والی سزائوں کو تحفظ حاصل ہوگا۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ اگرقانون کالعدم ہوتا ہے توپھر سارا سسٹم زیروپرآجائے گااور دوبارہ ٹرائل ہوگا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ میں23مارچ1952کو پیش ہونے والے اصل آرمی ایکٹ پڑھوں گا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ آرمی میں دوطرح کے لوگ کام کرتے ہیں ایک وردی میں اوردوسرے بغیر وردی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاخواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میراشروع سے سوال ہے کہ سیکشن2-Dآئین کے آرٹیکل 8کے مطابق ہے کہ نہیں، سیکشن 2-Dکو آئین کے آرٹیکل 8کے تحت لاکرمجھے مطمئن کریں پھر میں آپ کے ساتھ ہوں۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ بینچ نے آرمی ایکٹ کی دفعہ 2-(1)(d)(1)کو آئین کے آرٹیکل 8کے خلاف قراردیتے ہوئے کالعدم قراردیا۔ جسٹس مسرت ہلالی کاخواجہ حارث کے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ فیصلے میں خرابی ہے میں آپ کے ساتھ ہوں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ہم نے دیکھنا ہے کہ ایکٹ کاسکوپ کہاں تک ہے کیااس کا دائرہ کاروسیع کیا جاسکتاہے۔ ١س پرخواجہ حارث کاکہنا تھا کہ دائرہ کاروسیع نہیں کیاجاسکتا۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ آرمی ایکٹ کامقصد ڈسپلن اور ذمہ داریوں کی انجام دہی ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ میں عدلیہ میں اپنی مرضی سے آیا ہوں اور میں ادارے کے قوانین پر عملدرآمد کرنے کاپابند ہوں۔ خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ کوئی شخص جر م کامعاہدہ کرکے پاک فوج میں شمولیت اختیارنہیں کرتا۔ خواجہ حارث کاجسٹس جمال خان مندوخیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کافیصلہ ہے کہ قانون سے لاعلمی کوکسی کے ارتکاب میں بہانہ نہیں بنایا جاسکتا۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ کچھ افراد کے پوراقانون کالعدم قراردینا کیا درست ہے، 100یااس سے زیادہ لوگ تھے ان کے حوالہ سے دیکھنا تھا کہ وہ قانون کے تحت آتے ہیں کہ نہیں ساراقانون کالعدم قراردینا درست نہیں، یہ خراب ہے۔اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل کابینچ کے ارکان کومخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اب میں خاموش ہوتا ہوں یہ میراآخری سوال ہے،اگر فیصلے کے دونوں طرف خرابیاں ہیں کیاان کوہم ٹھیک کرسکتے ہیں۔اس پر جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ ٹھیک نہیں کرسکتے۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ عدالت فیصلے کی پابند نہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ مسلح افواج کے اہلکاروں کا جب کورٹ مارشل کرتے ہیں توکیاان کو بنیادی حقوق دیئے جاتے ہیں۔ اس پر خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ دیتے ہیں۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ ملٹری جسٹس سسٹم میں جولوگ آتے ہیں ان کو بنیادی حقوق دیئے جاتے ہیں۔ اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے خواجہ حارث سے مسکراتے ہوئے سوال کیا کہ کون ، کون آتے ہیں، یہ سوال ہے۔ جسٹس محمد علی مظہرکاکہنا تھا کہ کیا کیا حقوق دیئے جاتے ہیں، کیا فرد جرم عائد کی جاتی ہے، کیا وکیل کرنے کی سہولت دی جاتی ہے، کیا شواہد ریکارڈ ہوتے ہیں، کیا جرح کاحق دیا جاتا ہے، کیا ملزم کابیان ریکارڈ کیاجاتا ہے، کیاآرٹکل 10-Aمیں دیا گیا فیئر ٹرائل کاحق دیا جاتا ہے، کیارولز بنے ہیں کہ کیسے کاروائی کوچلایا جائے گا۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ رولز بنے ہیں۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاخواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ خواجہ صاحب!میں آپ کوریسکیو کرنا چاہتا ہوں، ہمارے نوشکی میں ایک سویلین کک فوج میں تھااس نے غیر ملک کو آئی ایس آئی، پاک فوج کی تنصیبات اور اہلکاروں کے حوالہ سے معلومات فراہم کیں وہ پکڑا گیااوراس کا کورٹ مارشل ہوا، اس کو وکیل کی سہولت فراہم کی گئی تحریری دلائل دونوں جانب سے جمع ہوئے ، فیئرٹرائل کاموقع دیا گیا، بلوچستان ہائی کورٹ نے فیصلہ برقراررکھا اور کورٹ مارشل کودرست قراردیا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ ہم اس طرف جاہی نہیں رہے کہ فوجی عدالتیں ٹھیک ہیں یاغلط۔ جسٹس سید حسن اظہررضوی کاکہنا تھا کہ ہم پروسیجر کی بات کررہے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ عام عدالتوں میں ججوں پرعدم اعتماد کیا جاتا ہے کیا یہ بات فوجی عدالت چلانے والے افسر کے حوالہ سے ہوسکتی ہے۔ اس پرخواجہ حارث کاکہنا تھا کہ ہوسکتی ہے۔خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ ملزم سے پہلا سوال یہ پوچھا جاتا ہے کہ پریزائڈنگ فوجی افسر پر اعتماد ہے کہ نہیں۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ جنہوں نے جرم کاارتکاب کیاانہوں نے بھی اپنی مرضی سے ایسا کیا، میرا پہلا کام ہے کہ بتائوں کہ فیصلہ قانون کے مطابق نہیں۔ اس موقع پر کمرہ عدالت میں موجود درخواست گزارچوہدری اعتزازاحسن نے کھڑے ہوکرکہا کہ سزاوہ شخص دیتا ہے جس نے ایک لفظ سنا نہیں ہوتا۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ فیلڈجنرل کورٹ مارشل کی جوعدلت کیس سن رہی ہوتی ہے وہ اعلیٰ افسر کوسفارشات بھیجتی ہے۔ اعتزازاحسن کاکہنا تھا کہ اگرسزائے موت ہوتی ہے تواس کی توثیق آرمی چیف کرتا ہے جس نے ایک لفظ نہیں سناہوتا۔ جسٹس امین الدین خان کااعتزاز احسن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ مسلح افواج کے لئے بھی ہے ہم آپ کو اپنی باری پرسنیں گے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاخواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میں مطمئن ہونا چاہتا ہوں اس لیئے اتنے سوال پوچھ رہا ہوں۔ اس پر جسٹس محمد علی مظہر کاجسٹس جمال خان مندوخیل کومخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم مطمئن ہوگئے تھے کہ آپ مزید سوال نہیں کریں گے، آپ پھر سوال کرنا شروع ہوگئے۔ اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ مجھے ضمنی سوال کرنے کی اجازت ہے، سارے قانون کاتنازعہ نہیں صرف 2-Dکا معاملہ ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ یہاں سویلین اور نان سویلین کی بات ہورہی ہے یہاں بنیادی حقوق کی بات نہیں ہورہی۔ جسٹس امین الدین خان کاخواجہ حارث کے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کاکہ آپ کتنا وقت مزید لیں گے۔ جسٹس مسرت ہلالی کاخواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اگر ہم جسٹس جمال خان مندوخیل کے سوال نہ کرنے کی گارنٹی لیں توآپ کتنا مزید وقت لیں گے۔ خواجہ حارث کاکہنا تھا مجھے مزید وقت تولگے گا۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے کیسز بھی پائپ لائن میں ہیں اورسویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا مقدمہ امید ہے جنوری کے پہلے ہفتے میں مکمل ہوجائے گااور دوسرے ہفتے میں 26 ویں ترمیم کے خلاف درخواستوں کو مقرر کریں گے۔جسٹس جمال خان مندوخیل کاخواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ دوبارہ جب دلائل دیں توبتائیں کس کے لیئے قانون بناناچاہتے تھے۔ جسٹس امین الدین خان کاحکمنامہ لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ موسم سرماکی چھٹیوں کے بعد بینچ کی دستیابی پر کیس سماعت کے لئے مقررکریں گے۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ اگر کوئی سزایافتہ ہے تووہ اپلائی کرے گافیصلے کی کاپی مل جائے گی پھر کیس دوسرے مرحلہ میں چلا جائے گا۔ جسٹس امین الدین کاکہنا تھا کہ کیا پوزیشن ہے فیصلوں کی کاپی دی ہے کہ نہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامررحمان کاکہنا تھا کہ گنہگاریا بے گناہ کالفظ فیصلے میں لکھاجاتا ہے، فیصلہ کنفرمنگ کرنے والی اتھارٹی لکھتی ہے، وہ فیصلہ دکھایا جاسکتا ہے۔ چوہدری عامررحمان کاکہنا تھا کہ عدالتوں کوساراریکارڈ فراہم کیا جاتا ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہناتھا کہ ہمارے پاس پشاور ہائی کورٹ میں فائل آجاتی تھی، ملزم فیصلے کوچیلنج کرتا تھا۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ یہ بنیادی حقوق کے خلاف بات ہے اگر میرے پاس فیصلہ نہیں۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ ہم نے کہا تھا کہ اپیل کاحق دیں گے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 199کے تحت فیصلہ چیلنج ہوگا۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ جو فیصلے ہوئے ہیں وہ بھی ان اپیلوں کے فیصلے سے مشروط ہوں گے۔ اعتزازاحسن کاکہنا تھا کہ ہم سزانہیں مانتے ، ملزمان کورہا کریں، سزاان اپیلوں کے فیصلے سے مشروط ہوگی۔ اعتزازاحسن کاکہنا تھا کہ ہمیں ریکارڈ تودیں۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ پہلے حکم کے مطابق بہت سے اورلوگ بھی رہاہوسکتے ہیں، ہماری خواہش ہے وہ رہاہوجائیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ ریکارڈ بھی آجائے گااور ملزمان کواپیل کاحق حاصل ہوگا۔ چوہدری عامر رحمان کاکہنا تھا کہ ہم کہہ رہے ہیں کہ ساروں کاآرڈر پاس کرنے دیں، جورہاہوسکتے ہیں ہوجائیں گے اور باقی جیل جائیں گے۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ اگردرخواست گزار کواعتراض ہے تووہ ہم لکھ دیتے ہیں باقی سب کے فیصلے سنادیں، اگرمزید سزاہوئی تووہ جیل چلے جائیں گے اور باقی رہاہوجائیں گے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ سزاپانے والے یامعافی کے لئے آرمی چیف کواپیل کریں گے یا پھر آئین کے آرٹیکل 199کے تحت ہائی کورٹ جائیں گے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ جس دن ہم فیصلہ سنائیں گے اس دن سے اپیل کاحق ہوگا۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ اگر سپریم کورٹ کافیصلہ برقراررکھاجاتا ہے توپھر مقدمات انسداددہشت گردی عدالتوں میں چلیں گے اوروہ لوگ پکڑے جائیں گے۔ چوہدری عامر رحمان کاکہنا تھا کہ ایک اپیل کورٹ آف اپیل میں زیر التواہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ جن کوسزاہواُن کو ضمانت کاحق دے دیاجائے توکوئی حرج نہیں۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ سزامیں رعایت کاحق آرمی چیف کوحاصل ہے۔جسٹس سید حسن اظہر رضوی کاکہنا تھا کہ اب تک جن کورعایت مل سکتی ہے ان کودے دیں۔ اس دوران جسٹس محمد علی مظہر کافوج کی تحویل میں موجود ملزم حسان خان نیازی کے والد سینئر صحافی حفیظ اللہ خان نیازی کے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کی خواہش پر ہی فیصلے سنانے کی اجازت دے رہے ہیں۔ اس دوران عدالتی معاون فیصل صدیقی کاکہنا تھا کہ یہ نہ ہوکہ فوجی حکام سزاپنے والوں کو جیل نہ بھیجیں۔ اس پر جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ جن کوسزاہوئی ان کوجیل بھجوائیں گے۔ بعد ازاں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے28مارچ2024کے حکم میں ترمیم کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کو 85 ملزمان کے فیصلے سنانے کی اجازت دیدی۔ عدالت نے قرار دیا کہ فوجی عدالتوں کے فیصلے سپریم کورٹ میں زیرالتوا مقدمے کے فیصلے سے مشروط ہوں گے۔ آئینی بینچ نے کہا کہ جن ملزمان کو سزائوں میں رعایت مل سکتی ہے وہ رعایت دے کر رہا کیا جائے۔ جن ملزمان کورہا نہیں کیا جا سکتا انہیں سزا سنانے پر جیلوں میں منتقل کیا جائے۔حکم میں کہا گیا ہے کہ ہم ایڈیشنل اٹارنی جنرل کابیان ریکارڈ کررہے ہیں کہ جن سویلینز کوسزہوگی ان کو سول جیلوں میں حکام کے حوالہ کیا جائے گا اور جیل مینوئل کے مطابق ان سے سلوک کیا جائے گا۔سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے کے بعد ملزمان اپیل کرسکتے ہیں۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 103میں سے 20 افرادپہلے رہاہوچکے ہیں اور 2 مزید افراد کو فوج کی تحویل میں دیاگیا تھا،اس وقت فوج کی زیر حراست 85 افراد ہیں۔ عدالت نے مزید سماعت موسم سرماکی چھٹیوں کے بعد تک ملتوی کردی۔