سینیٹ میں فوجی عدالتوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف قرارداد منظور

عسکری تنصیبات پر حملوں کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں ہوتا ہے اور اس ضمن میں آرمی ایکٹ میں ترمیم 1967 سے موجود ہے۔

سینیٹر رضا ربانی اور سینیٹر مشتاق نے ایوان بالا میں فوجی عدالتوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف پیش کردہ قرارداد کی مخالفت کی۔ دونوں کو بات کرنے اجازت نہیں ملی ..

اسلام آباد (ویب  نیوز)

سینیٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف پیش کردہ قرار داد منظور کرلی گئی ، بعض ارکان نے مخالفت کردی سابق چیئرمین سینیٹ رضاربانی کو اظہار خیال کاموقع نہ مل سکا قراردادہنگامی طور پر پیش کی گئی بعض ارکان نے ضابطہ کار کی خلاف ورزی قراردے دیا چیئرمین نے کہا کہ وہ اجازت دے چکے ہیں تاہم اس قسم کی قراردادکے لئے رولز کو معطل کیا جاتا  ہے  اور ہاؤس سے اس کی اجازت لی جاتی ہے ۔سینیٹ میں قرارداد پیش کرنے کے لئے سینیٹر دلاور حسین کھڑے ہوگئے چیئرمین سینیٹ کے استفسار پر محرک نے کہا کہ قراردادپیش کرنا چاہتا ہوں اور  چیئرمین کو اسی وقت قراردادکی کاپی دی گئی حکومت سے موقف لینے پر نگران وزیرداخلہ سرفرازبگٹی نے قراردادکی مخالفت نہیں کی ۔9مئی کے  خصوصی عدالتوں میں چلانے کی قراردادپیش  کردی جس میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ ماہ، سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے حکومت کو 9 مئی کے پرتشدد مظاہروں کے نتیجے میں گرفتار کیے گئے شہریوں کا فوجی ٹرائل کرنے سے روک دیا تھا۔بینچ کی سربراہی کرنے والے جسٹس اعجاز الاحسن نے 23 اکتوبر کو فیصلہ سنایا، جس میں بینچ نے پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعہ 2 (1) (d) اور دفعہ 59 (4) (سول جرائم) کو بھی غیر آئینی قرار دیا تھا۔فیصلے میں مزید کہا گیا تھا کہ 9 مئی کے واقعے میں ملوث ہونے کے الزام میں جن 102 شہریوں کو فوجی ٹرائل کے لیے حراست میں لیا جا رہا ہے، ان پر صرف فوجداری عدالتوں میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔قرارداد میں کہا گیا کہ آرمی ایکٹ کے تحت مسلح افواج کے خلاف تشدد کے ملزمان کا ٹرائل پاکستان کے موجودہ آئینی فریم ورک اور قانونی نظام کے مطابق ایک مناسب اور متناسب ردعمل ہے۔قرارداد میں مزید کہا گیا کہ ملک کے آئینی فریم ورک کے اندر، آرمی ایکٹ کے تحت ریاست مخالف توڑ پھوڑ اور تشدد کے ملزمان کا ٹرائل اس طرح کی کارروائیوں کے خلاف ایک رکاوٹ کا کام کرتا ہے۔تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہ ہونے سے دہشت گردی کی کارروائیوں کے ذمہ داروں کی حوصلہ افزائی کا امکان ہے، اسی لیے باقاعدہ عدالتوں میں سخت انصاف نہ ہونے کی وجہ سے اس کی مکمل تائید کی جاتی ہے۔فوجی عدالتوں نے دہشت گردی کی کارروائیوں کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کو یقینی بنا کر دہشت گردی سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ تاہم عدالتی فیصلہ عام عدالتوں میں ٹرائل کرنے کے لیے نرمی فراہم کرتا ہے۔انہوں نے اس بات پر مایوسی کا اظہار کیا کہ عدالت عظمی نے موجودہ طریقہ کار کو مدنظر نہیں رکھا جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ فوجی عدالتوں کی طرف سے دی جانے والی سزائیں صوابدیدی نہیں ہیں اور مناسب عمل اور رسمی کارروائیوں کے بعد سنائی جاتی ہیں۔قرارداد کے مطابق، فوجی عدالتوں کے احکامات کے خلاف اپیل کے عمل کی موجودگی، جس میں چیف آف آرمی سٹاف اور صدر کے ساتھ اپیل کی راہیں شامل ہیں، اور ساتھ ہی عدالتوں میں رٹ پٹیشنز دائر کرنے کا اختیار بھی شامل ہے جو بالآخر سپریم کورٹ تک بھی پہنچ سکتی ہیں انہیں نظر انداز کیا گیا۔قرارداد میں کہا گیا کہ آرمی ایکٹ کی دفعات اور بنیادی طریقہ کار اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل 10 اے کے تحت منصفانہ ٹرائل کے حق کی خلاف ورزی نہ ہو۔قرارداد میں کہا گیا کہ سویلین کے مقدمات خصوصی عدالتوں میں چلنے چاہئیں، خصوصی عدالتوں سے متعلق سپریم کورٹ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے۔چیئرمین نے منظوری کے لئے پیش کی بعض ارکان نے  نو نو کی آوازبلند کی ایک سینٹر کا کہنا تھا کہ رولز کی خلاف ورزی کی گئی چیئرمین نے کہا کہ وہ اجازت دے چکے اس دوران رضاربانی موقف پیش کرنے کئے نشست سے اٹھے تاہم انھیں بولنے کا موقع نہ مل سکا جلدی جلدی قراردادکی منظوری دیتے ہوئے اجلاسبعدازاں منگل کی  صبح ساڑھے 10 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔۔

خیال رہے کہ 23 اکتوبر کر سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل غیرقانونی قرار دیتے ہوئے 9 مئی کے تمام ملزمان کا ٹرائل عام عدالتوں میں کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔
فیصلہ جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں پانچ رکن لارجر بینچ نے سنایا تھا جس میں جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحییٰ آفریدی شامل تھے۔ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ چار ایک کی اکثریت سے سنایا جس میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف درخواستیں منظور کرلی گئیں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے فیصلے سے اختلاف کیا۔