نیب ترامیم کیس، سپریم کورٹ نے احتساب عدالتوں کو حتمی فیصلے سے روک دیا

پریکٹس اینڈ پروسیجربل 2023کیس کا تفصیلی فیصلہ آنے تک سماعت ملتوی

 چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی

اسلام آباد( ویب  نیوز)

سپریم کورٹ آف پاکستان نے نیب ترامیم کیس کا فیصلہ معطل کرنے کی سینیٹر فاروق فاروق ایچ نائیک کی درخواست مسترد کرتے ہوئے پریکٹس اینڈ پروسیجربل 2023کیس کا تفصیلی فیصلہ آنے تک سماعت ملتوی کر دی۔عدالت نے احتساب عدالتوں کو سپریم کورٹ کا حتمی فیصلہ آنے تک ٹرائل جاری رکھنے کی اجازت دیتے ہوئے انہیںحتمی فیصلے جاری کرنے سے روک دیا ہے۔عدالت نے قراردیا ہے کہ کیس کی آئندہ سماعت تک متعلقہ احتساب عدالتیں کیس سن سکتی ہیں اور ضمانت دے سکتی ہیں۔عدالت نے سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان ، اٹارنی جنرل بیرسٹر منصور عثمان ، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد اور تمام صوبوں کے ایڈوکیٹ جنرلز کو بھی نوٹس جاری کر دیا۔عدالت نے اتارنی جنرل کو کیس میں عدالتی معاونت کے حوالہ سے آرڈر 27-Aکا نوٹس جاری کیا ہے جبکہ ایڈووکیٹ جنرلز کو 23-Aکا نوٹس جاری کیا گی اہے۔کیس کی آئندہ سماعت سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023کے خلاف دائر درخواستوں پر تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد مقرر کی جائے گی۔جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ہم ٹرائل کورٹ ججز کے لئے واضح راستہ فراہم کرنا چاہتے ہیں اور وضح ہدایات دینا چاہتے ہیں کہ ٹرائل کورٹ کے ججز کس طرح چلیں۔ ٹرائل کورٹ جج کو وضاحت ہونی چاہیئے کہ آگے کیا کرنا ہے۔نیب ترامیم فیصلے کے خلاف اپیلیوں پر سماعت منگل کے روز چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس سید حسن اظہر رضوی پر مشتمل بینچ نے کی۔ کیس کی سماعت دن ساڑھے 11بجے مقرر تھی تاہم بینچ 20منٹ تاخیر سے کمرہ عدالت میں آیا۔ سماعت کے آغاز پر ہی وفاقی حکومت نے انٹرا کورٹ اپیل کی پہلی سماعت پر کیس میں التوا مانگ لیا جس کے لیے درخواست دائر کی گئی تھی۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان بیرون ملک ہیں اس لئے سماعت ملتوی کی جائے۔ مخدوم علی خان نے درخواست میں بتایا کہ میں 3 نومبر تک عدالتی رخصت پر ہوں اور 27 اکتوبر کو پیرس پہنچا ہوں جبکہ 28 اکتوبر کو نیب اپیل سماعت کے لیے مقرر ہونے کا پتہ چلا۔درخواست گزار کے مطابق انہوں نے واپس آنے کی ٹکٹس حاصل کرنا چاہا لیکن تمام ٹکٹس فروخت ہو چکے تھے، پیرس سے 4 نومبر کو واپس آں گا لہذا کیس کی سماعت 6 نومبر سے شروع ہونے والے ہفتے تک ملتوی کی جائے۔سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل فار پاکستان بیرسٹر منصور عثمان اعوان نے کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے وکیل مخدوم علی خان کو وکیل کیا گیا ہے، اصل کیس اور اپیل دونوں میں مخدوم علی خان ہی وکیل تھے اس لیے مخدوم علی خان کی جانب سے کیس ملتوی کرنے کی درخواست دی گئی ہے۔ مخدوم علی خان 3 نومبر تک چھٹی پر ہونے کے باعث بیرون ملک ہیں، میں عدالت کی معاونت کے لیے دستیاب ہوں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیس میں کچھ دوسری درخواستیں بھی ہیں۔درخواست گزار زوہیر احمد صدیقی کے وکیل فاروق ایچ نائیک پیش ہوئے۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میرا کلائنٹ سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلہ سے متاثر ہوا، کیس میں شامل ہونے کے لیے درخواست دائر کی ہے۔ ترامیم کے نتیجے میں میرے موکل کا کیس دوبارہ اوپن ہوگیا، مجھے بھی کیس میں فریق بنایا جائے، ہمیں سنے بنا عدالت نے فیصلہ دیا ہم فیصلے کی مخالفت کر رہے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ بھی آیا ہے، درخواست گزار چاہیں تو اختلافی نوٹ کی بعد درخواست میں ترمیم بھی کر سکتے ہیں اور نظر ثانی تک اختیار سماعت ہے، اگر آپ نظرثانی درخواست دائر کرینگے تو انٹرا کورٹ اپیل نہیں سنیں گے۔فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میںاپنی دو دائر شدہ نظرثانی درخواستیں واپس لیتا ہوں۔چیف جسٹس نے مخدوم علی خان کے معاون وکیل سعد ہاشمی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ روسٹرم پر کھڑے نہیں اور آپ اٹارنی جنرل کا دفتر ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، جس پر معاون وکیل نے کہا کہ ایسا نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کے تحت میرٹس کو دیکھا تو اپیلیں بحال ہوجائیں گی، کیا ہمیں پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کے تفصیلی فیصلے کا انتظار نہیں کر لینا چاہیے۔فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اگر تفصیلی فیصلے کا انتظار کیا گیا تو اس طرح تاخیر ہوجائے گی، پانچ رکنی لارجر بینچ بلا تاخیر کیس پر کارروائی جاری رکھے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اب پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون نافذ العمل ہوچکا ہے، کیا ابھی پریکٹس اینڈ پروسیجر کے تفصیلی فیصلے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے، آئین کے آرٹیکل184کی شق تین کے تحت فیصلے کے خلاف اپیل کا حق مل چکا ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہا کہ یہ کیس تشریح کا ہے، وفاقی حکومت اس کیس میں کیسے متاثرہ فریق ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون میں لفظ پرسن ہے جو متاثرہ ہو اپیل کر سکتا ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ نیب ترامیم سے سب کچھ ختم نہیں کیا گیا، نیب ترامیم سے صرف فورم تبدیل ہوا ہے۔ نیب ترامیم سے کوئی الزامات سے بری نہیں ہوا۔ فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اب فیصلے میں دوبارہ نیب کورٹ جانا میرا حق متاثر کرتا ہے۔اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وفاق متاثرہ ہے اس لیے اپیل دائر کر رکھی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون تفصیلی فیصلے کے بعد نیب انٹرا کورٹ اپیل سنیں گے۔فاروق ایچ نائیک نے استدعا کی کہ سپریم کورٹ نیب کے اس فیصلے کو معطل کرے کیونکہ نیب عدالت سے سزا ہو جائے گی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم کہہ سکتے ہیں سپریم کورٹ کے فیصلے تک نیب عدالتیں حتمی فیصلہ نہ کریں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ نیب کیس کے اکثریتی فیصلے کے پیراگراف نمبر 49میں دی گئی ہدیات معطل کرے، نیب ترامیم ہمارا قانون ہے اس لیے دفاع کر رہے ہیں۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ تیسری ترامیم کو جائزہ لیے بغیر پہلی اور دوسری ترمیم کیسے کالعدم قرار دی جا سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نیب ترامیم کیس میں پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کی روشنی میں پانچ رکنی بینچ کو سننا چاہیے تھا۔فاروق ایچ نائیک نے دلائل میں کہا کہ نیب میں تیسری ترمیم کو نہیں چھیڑا گیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں تفصیل دیں، نیب قانون کی کتنی ترامیم کالعدم قرار دی گئیں اور کتنی ترامیم اب بھی برقرار ہیں۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ جب تک تمام ترامیم کو اکھٹا نہ دیکھا جائے کچھ ترامیم کو کیسے کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نیب قانون میں کی گئی ایک ترمیم دوسری سے لنک کرتی ہے۔دوران سماعت چیف جسٹس نے نام لئے بغیر اہم ریماکس دیے کہ اب چیف جسٹس نہیں بلکہ اب تو ججز ہوتے ہیں، میں جسٹس اطہر من اللہ کی آبزرویشن سے متفق ہوں، نیب قانون میں تینوں ترامیم ایک دوسرے سے لنک کرتی ہیں، نیب قانون میں تیسری ترمیم کے بعد بھی پانچ ماہ میں کیس کی چھ سماعتیں ہوئیں اور بینچ نے تیسری ترمیم کو نہیں دیکھا ،میں اس قانونی نقطے پر کافی حیران ہوں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر نیب قانون میں تیسری ترمیم سے قبل فیصلہ محفوظ ہو جاتا تو الگ بات تھی لیکن نیب قانون میں تیسری ترمیم کے بعد بھی 6سماعتیں ہوئیں، ہمیں ٹرائل کورٹ ججز کو بالکل واضح ہدایات دینی چاہیں، ایسی صورت میں تیسری ترمیم پر بھی فیصلہ ہونا چاہیے تھا۔جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل معطل ہوا تھا لیکن ایکٹ کھبی معطل نہیں ہوا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ابھی پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کا تفصیلی فیصلہ نہیں آیا اور ہوسکتا ہے اس فیصلے میں اس نقطے پر بھی فیصلہ موجود ہو، ایسی صورت میں ہم اس کیس کو آج نہیں چلا سکتے، کیا ایک ٹرائل کورٹ میں ریکارڈ کیے گئے شواہد فورم بدل جانے ہر دوسری عدالت میں قابل قبول شہادت ہیں؟ ٹرائل کورٹ کے جج پر تشریحات کا بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے، ٹرائل کورٹ کے جج کو صرف ٹرائل تک رکھنا چاہیے۔عدالت میں وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ 25 مئی کو نیب قانون میں تیسری ترمیم بھی ہوئی، تیسری نیب ترمیم کا اثر عدالتی فیصلے سے زائل ہوگیا ہے، عدالتی فیصلے سے تیسری نیب ترمیم غیرفعال ہوچکی۔چیف جسٹس نے فاروق نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا نائیک صاحب آپ نے ایک چیز چھوڑ دی، فیصلہ معطل کرنے کی استدعا تو کی ہیں نہیں۔ چیف جسٹس کا فاروق نائک سے مزید مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم سینئر کونسل کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ آئینی سوالات کے جواب دیں۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ تیسری ترمیم میں کہا گیا ہے کہ ہر کیس کا دوبارہ ٹرائل ہوگا، پارلیمنٹ نے جس چیز کو تحفظ دیا ہے اس سے آگے کیس چلے گا، فیصلہ معطل ہونے کا یہ مطلب ہو گا کہ سارے کیسز دیگر عدالتوں میں جائیں گے اورٹرائل شروع ہو گا اور ہم ٹرائل نہیں روک سکتے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا فاروق نائیک کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ ٹرائل سے جان نہیں چھڑواسکتے،دونوں عدالتوں میں ٹرائل ہو گا۔ چیف جسٹس نے حکم لکھواتے ہوئے قراردیا کہ عدالت کو بتایا گیا پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کی شق 4کے تحت جہاں آئینی تشریح کا معاملہ ہو 5 ججز سے کم کیس نہیں سن سکتے اور بتایا گیا پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کو آئین کے مطابق بنایا گیا۔ سعد ہاشمی نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کو درست قرار دے چکی ہے۔ معاون وکیل سعد ہاشمی مخدوم علی خان کے جونیئر عدالت میں پیش ہوئے۔حکمنامے میں کہا گیا کہ یہ مناسب ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے تفصیلی فیصلے کے بعد نیب انٹرا کورٹ اپیل سماعت کے لیے مقرر کی جائے، یہ عدالت فیصلہ کر چکی ہے پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کا ابھی تفصیلی فیصلہ لکھا نہیں گیا۔فیصلے میں قراردیا کہ گیا کہ نیب قانون میں تین ترامیم ہوئیں پہلی ترمیم 22جون2022، دوسری ترمیم12اگست 2022اورتیسری ترمیم 29مئی2023کو ہوئی ۔ تیسری ترمیم کا نفاذ اس وقت ہوا جب کیس زیر سماعت تھا اوراس کے بعد کیس کی چھ سماعتیں ہوئیں تاہم بینچ کی جانب سے تیسری ترمیم کو نہیں دیکھا گیا جس سے صورت حال پیچیدہ ہوئی۔ فیصلہ تیسری ترمیم کااحاطہ نہیں کرتا۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے تفصیلی فیصلے کے آنے تک سماعت ملتوی کررہے ہیں۔ عدالت نے قراردیا کہ احتساب عدالتیں حتمی فیصلہ جاری نہیں کرسکتیں تاہم کیس سن سکتی ہیں اور ضمانت دے سکتی ہیں۔ عدالت نے قراردیا کہ عدالتی فیصلے کی کاپی فریقین کو بھجوائے جانے والے نوٹس کے ساتھ منسلک کی جائے۔چیف جسٹس کا فاروق نائک کے ساتھ مکاملہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آگے اہم کیسز آرہے ہیں اور ہمیں فیصلے لکھنے کے لئے بھی وقت چاہیئے۔ سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تفصیلی فیصلے تک کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔واضح رہے کہ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے 15 ستمبر کو دو ایک کے تناسب سے فیصلہ سنایا تھا۔ بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ شامل تھے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجازالاحسن نے نیب ترامیم کالعدم قرار دیا جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے نوٹ تحریر کیا جو گزشتہ روز جاری کیا گیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے نیب ترامیم کو قرار دیا تھا۔