اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے زیراہتمام تعزیتی ریفرنس کاانعقاد،پروفیسر خورشید احمد کی علمی، فکری اور تحریکی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا
پروفیسر خورشید احمد ایک عظیم انسان تھے، ان کی شخصیت میں علم، تدبر، محبت اور اخلاص یکجا تھے،سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق
تعزیتی ریفرنس سے ناظمِ اعلی اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان حسن بلال ہاشمی، ناظم حلقہ احباب جمعیت محمد عبد الشکور، اور مدیر ترجمان القرآن پروفیسر سلیم منصور خالد کا خطاب

لاہور(ویب  نیوز)

اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے تحت پروفیسر خورشید احمد (مرحوم)کی علمی، فکری، اور تحریکی خدمات کے اعتراف میں ایک باوقار تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب کا انعقاد اچھرہ لاہور میں کیا گیا جس میں مختلف علمی، فکری، اور تحریکی شخصیات نے شرکت کی اور مرحوم کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ تعزیتی ریفرنس سے سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق، ناظمِ اعلی اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان حسن بلال ہاشمی، ناظم حلقہ احباب جمعیت  محمد عبد الشکور، اور مدیر ترجمان القرآن پروفیسر سلیم منصور خالد نے خطاب کیا۔ سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے اپنے خطاب میں کہا کہ پروفیسر خورشید احمد ایک عظیم انسان تھے، ان کی شخصیت میں علم، تدبر، محبت اور اخلاص یکجا تھے۔ وہ نہ صرف اسلامی معیشت کے بانیوں میں سے تھے بلکہ تحریک اسلامی کے ہر محاذ پر ایک سرپرست کی حیثیت رکھتے تھے۔ سینیٹ کے اراکین آج بھی ان کی سادگی اور فکری گہرائی کا احترام کرتے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے دور حکومت میں بجٹ کی تیاری اور ملاقاتوں کے عمل میں ان کا بھرپور تعاون رہا۔ بیرون ملک دوروں کے دوران بھی آپ کی حمایت ہمیشہ ساتھ رہی جبکہ عالمی سطح پر سود کے مقابلے میں اسلامی بنکاری کا بھرپور مقدمہ لغت رہے۔ ناظمِ اعلی اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان حسن بلال ہاشمی نے کہا کہ پروفیسر خورشید احمد کی زندگی ہمیں چار بنیادی اسباق دیتی ہے۔ اول، افراد کار کی تیاری جو دنیا کو اسلام کے مطابق چلانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ دوم، علم اور تحریک کے درمیان توازن۔ سوئم، اداراجات کی مضبوطی جو تحریک کی بنیاد ہیں اور چہارم، حصولِ کمال کا مزاج جو پروفیسر خوشید احمد کی شناخت تھی۔ وہ دبستانِ مودودی کے سرسبز گلستان کا نمایاں پھول تھے اور ہمیں بھی ارمغانِ خورشید کی صدائیں بلند کرنی ہیں۔ پروفیسر سلیم منصور خالد نے کہا پروفیسر خورشید احمد کی تحریکی فکر، علمی وسعت اور اخلاقی دیانت آج کے نوجوانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ ان کی تحریریں اور تقاریر نئی نسل کے لیے ایک فکری خزانہ ہیں۔ وہ ایک ایسے محقق اور مفکر تھے جنہوں نے اسلامی نظریہ حیات کو علمی زبان دی۔ ناظم حلقہ احباب جمعیت عبد الشکورکا کہنا تھا کہ پروفیسر خورشید احمد صرف ایک شخصیت نہیں، ایک مکتب فکر تھے۔ وہ نئی نسل کو فکر مودودی سے جوڑنے والے ایک فعال کردار تھے اور جمعیت کے ہر کارکن کے لیے ایک عملی مثال تھے۔ ریفرنس کے آخر میں مرحوم کے لیے دعائے مغفرت کی گئی۔ اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان نے کہا کہ پروفیسر خورشید احمد کی یاد میں خصوصی فکری نشستوں، مطالعاتی حلقوں اور تحقیقی سرگرمیوں کا اہتمام آئندہ بھی کیا جائے گا تاکہ ان کے افکار کو نئی نسل تک منتقل کیا جا سکے۔