اگرآئینی بینچ کاوجود نہیں توپھر آج ملک میں سپریم کورٹ کاوجود بھی نہیں۔ ہم آئین پرعمل کرنے کے پابند ہیں۔جسٹس امین الدین

 کس آئینی شق پر عمل کرتے ہوئے فل کورٹ تشکیل دے دیں،، آج بھی اکیلا چیف جسٹس فل کورٹ نہیں بناسکتا، تین رکنی کمیٹی فیصلہ کرے گی

26ویں ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران ججز کے ریمارکس،کیس کی کاروائی سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پر براہ راست دکھائی گئی

اسلام آباد(  ویب  نیوز)

سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ میں 26ویں ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے ہیں اگرآئینی بینچ کاوجود نہیں توپھر آج ملک میں سپریم کورٹ کاوجود بھی نہیں۔ ہم آئین پرعمل کرنے کے پابند ہیں۔ کس آئینی شق پر عمل کرتے ہوئے فل کورٹ تشکیل دے دیں، یہ ہمارے بس میں نہیں کہ 26ویں ترمیم سے پہلے کی پوزیشن پر چلے جائیں۔جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر 191-Aکونکال دیں تو آئینی بینچ ختم ہوجائے گا۔ اگرہمارے وجود کونہیں مانتے توپھر ہم کوئی آرڈر جاری نہیں کرسکتے۔ ترمیم ہم نے نہیں پارلیمنٹ نے کی ہے۔ جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دئے ہیں کہ 26ویںآئینی ترمیم میں پارلیمانی کمیٹی کو جوڈیشل کمیشن میں ضم کردیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے قراردیا ہے کہ چیف جسٹس ماسٹر آف روسٹر نہیں، آج بھی اکیلا چیف جسٹس فل کورٹ نہیں بناسکتا، تین رکنی کمیٹی فیصلہ کرے گی۔ آئین کے آرٹیکل 191-Aکو بھول جائیں توپھر کوئی آئینی بینچ وجودنہیں رکھتا۔ جبکہ جسٹس عائشہ اے ملک نے ریمارکس دیئے ہیں کہ آئین فل کورٹ بنانے سے نہیں روکتا، چیف جسٹس کافل کورٹ بنانے کااختیارہے۔ کوئی چیز بینچ کونہیں روک رہی کہ جوڈیشل آرڈر نہ کریں کہ فل کورٹ نہیں سن سکتی، 26ویں ترمیم میں کہاں پابندی لگائی ہے کہ فل کورٹ نہیں بن سکتی۔ جبکہ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر 191-Aکونکال دیں توپھر پارلیمنٹ سے فل کورٹ کی تشکیل لئے رجوع کرنا پڑے گا۔سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر ،مسز جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس سید حسن اظہررضوی، مس جسٹس مسرت ہلالی ،جسٹس نعیم اخترافغان اور جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 8رکنی بینچ نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف، سنی اتحاد کونسل ،امیرجماعت اسلامی پاکستان انجینئرحافظ نعیم الرحمان، سردارمحمد اختر جان مینگل، صدر لاہور ہائی کورٹ بارایسوسی ایشن ، صدر لاہور بارایسوسی ایشن مبشر رحمان چوہدری، بلوچستان بارکونسل ، بلوچستان ہائی کورٹ بارایسوسی ایشن، صدر کراچی بارایسوسی ایشن، صدر اسلام آباد ہائی کورٹ بارایسوسی ایشن، پشاور ہائی کورٹ بارایسویس ایشن ایبٹ آباد بینچ اوردیگرکی جانب سے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر 37درخواستوں پرسماعت کی۔ کیس کی کاروائی سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پر براہ راست دکھائی گئی۔سماعت کے آغاز پرجسٹس عائشہ اے ملک کاوکیل حامد خان کومخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کی کون سی ای ایم اے ہے۔ اس پر حامد خان کاکہنا تھا کہ انہوں نے فل کورٹ کی تشکیل کے لئے درخواست دائرکی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاحامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کتنی درخواستوں میں پیش ہورہے ہیں۔ اس پر حامد خان کہنا تھا کہ میں لاہورہائی کورٹ بارایسوسی ایشن کی جانب سے پیش ہورہا ہوں۔ حامد خان ایڈووکیٹ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے مئوقف اپنایا کہ سینیٹ میں 20اکتوبر2024کی شام 26ویںآئینی ترمیم جلد بازی میں پیش کی گئی جبکہ 20اور21اکتوبر کی رات کے وقت قومی اسمبلی میں پیش کی گئی، ایک گھنٹے یاکچھ زائد وقت میں ساراکچھ کرلیا گیا جس میں واک آئوٹ اور اعتراضات بھی شامل ہیں۔جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ پہلے بینچ کی تشکیل پر معاونت کریں،یہ دلائل اس درخواست سے متعلق نہیں، 26ویں آئینی ترمیم میں ان دلائل کوسنیں گے۔حامد خان  نے کہا کہ یہ بہت اہم معاملہ ہے، ترامیم منظور ہونے کا طریقہ کار پر بات کرہا ہوں۔ اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ چلیں ہم ماں لیتے ہیں کہ یہ انتہائی اہمیت کا معاملہ ہے، آپ بینچ کی تشکیل پر دلائل دیجئے۔حامد خان کاکہنا تھا کہ 26ویں ترمیم سے قبل چیف جسٹس سمیت سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 17تھی جو 25اکتوبر2024کو سابق چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ  کے یہ تعداد 16رہ گئی، ان 16ججز میں اس بینچ میں 8ججز شامل ہیں اور دیگر موجود 8ججز کو بھی شامل کرکے فل کورٹ بنائی جائے، 26ویں ترمیم سے قبل موجود تمام16ججز پر مشتمل فل کورٹ بنائی جائے۔حامد خان کاکہنا تھا کہ 26ویں ترمیم میں ججز کی تعیناتی کاطریقہ کارتبدیل کیا گیاہے۔ جسٹس جمال مندوخیل کاحامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیاآپ اتفاق کرتے ہیں کہ 26ویں آئینی ترمیم آئین کاحصہ ہے، اچھے ،برے، قانونی، غیر قانونی ، آئینی اورغیر آئینی پر بعد میں بات کریں گے کہ یہ ترمیم آئینی ہے کہ نہیں۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ ہم آئین پرعمل کرنے کے پابند ہیں،ہمارے نقطہ نظر کے مطابق درخواست گزار بھی آئین کے پابند ہیں تاوقت کہ ہم آپ کی استدعا منظور کرکے اسے کالعدم قراردے دیں، آپ 26ویں ترمیم کو نہیں مانتے لیکن ہم نے اُس کے مطابق چلنا ہے یہاں تک کہ اس کوکالعدم قرارنہ دیاجائے، اس وقت ترمیم کاآئین کاحصہ مان کر ہی دلائل دینا پڑیں گے ۔جسٹس مسرت ہلالی کا حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ26ویں آئینی ترمیم کو آئین کا حصہ سمجھتے ہیں اس لئے اسے چیلنج کیاہے۔جسٹس محمدعلی مظہر نے حامدخان کو ہدایت دی کہ مرکزی کیس کو فی الحال نہیں سن رہے، فی الحال فل کورٹ کہ درخواست پر دلائل دیں۔وکیل حامدخان کاکہنا تھا کہ عدلیہ کی آزادی آئین کاخاصہ ہے، فی الحال بات نہیں کررہا کہ26ویں آئینی ترمیم کے نکات کیسے آئین کے خلاف ہیں،26ویں آئینی ترمیم سے اختیارات پر پڑے اثرات سے آگاہ کرنا چاہتاہوں، 26ویں آینی ترمیم کے بعد بینچز بنانے کا اختیار چیف جسٹس سے پہلی بار واپس لے لیاگیاہے، 26ویں آئینی ترمیم میں بینچز بنانے کے طریقے کار کے حوالے سے بتایاگیاہے، ججز کی تعیناتی اور بینچز کی تشکیل کے حوالہ سے تاریخ میں پہلی مرتبہ 191-Aمیں میکنزم مرتب کیا گیا ہے۔وکیل حامدخان کا کہنا تھا کہ 26ویں آئینی ترمیم سے قبل بھی جوڈیشل کمیشن موجود تھا،ترمیم سے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل پر اثر پڑا، 26ویں آئینی ترمیم میں جوڈیشل کمیشن میں ججز اقلیت میں آگئے۔جسٹس امین الدین خان کاحامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ پھر کیس کے میرٹس پر جارہے ہیں، آئین سے بتادیں کہ کیسے ہم کیس 16رکنی فل کورٹ کے سامنے لگائیں، 26ویں آئینی ترمیم کے تحت خود بخود کیسز ریگولر اور آئینی کمیٹیوں کوکیسز منتقل کردیئے گئے ہیں، ہم زیادہ سے زیادہ ان کمیٹیوں کوہی واپس بھجواسکتے ہیں، جوڈیشل کمیشن آئینی بینچ کے ججز کی تعیناتی کی ہے اورکمیٹی کیسز لگانے کافیصلہ کرے گی۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ آئینی کیسز کے لئے بھی پریکٹس اینڈ پروسیجر کی کمیٹی بنائی ہے۔وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ 18ویں ترمیم کے تحت قائم جوڈیشل کمیشن میں ججز کی اکثریت تھی، 26ویں ترمیم کے بعد ججز اقلیت میں ہیں، جب میرٹس پر جائیں گے توپھر تفصیل سے بات کروںگا، جوڈیشل کمیشن میں اکثریت ایگزیکٹو برانچ کی ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کاکہنا تھا کہ بینچ بنانا کس قانون کے تحت ہمارااختیار ہے، آئین اورقانون کے تحت بینچ بنانے کااختیار بتائیں، متعلقہ شق بتائیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ 26ویںآئینی ترمیم میں پارلیمانی کمیٹی کو جوڈیشل کمیشن میں ضم کردیا گیا ہے۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ ہم نے آئین کے تحت حلف لیا ہے، آئین سے بتادیں کہ کیسے 16رکنی بینچ بنادیں، آپ کہتے ہیں کہ ایگزیکٹو کی تعدا دجوڈیشل کمیشن میں بڑھ گئی ہے توپھر آپ بار کے ارکان کوکس پلڑے میں ڈالتے ہیں، پارلیمانی کمیٹی جوڈیشل کمیشن میں ضم ہوگئی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ 18ویں ترمیم سے قبل کیانظام تھاوہ بھی بتادیں۔ حامد خان کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے ہمیشہ عدلیہ کی آزادی کاتحفظ کیا ہے، 26ویں ترمیم کے بعد یہ توازن ختم ہوگیا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ 18ویں ترمیم میں مزید ترامیم کی گئی تھیں، اگر ہم قائل ہوں گے تو دوبارہ ہدایات دے دیں گے۔ حامد خان کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے عدلیہ کی آزادی کاتحفظ کرنا ہے۔جسٹس عائشہ اے ملک نے ریمارکس دیئے کہ جوڈیشل آرڈر سے فل کورٹ کی تشکیل پر کوئی قدغن نہیں،  26ویں ترمیم میں کہاں لکھا ہے جوڈیشل آرڈر نہیں ہوسکتا؟ عام مقدمات میں ایسا کیا جا رہا ہے تو اس کیس میں کیوں نہیں؟ آئین فل کورٹ بنانے سے نہیں روکتا، چیف جسٹس کافل کورٹ بنانے کااختیارہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آپ ہمیں آئین کے متن سے بتائیں ہم فل کورٹ کا آرڈر کیسے کریں؟ کیا ہم یہ آرڈر آرٹیکل 187 استعمال کر کے دیں؟جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیاچیف جسٹس فل کورٹ بناسکتے ہیں، کیاآئین کے آرٹیکل 191-3کے تحت آئینی بینچ میں نامزداور غیر نامزد ججز سب کیس سن سکتے ہیں۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ کیافل کورٹ کامطالبہ اس بینچ سے کریں گے یا چیف جسٹس سے کریں گے، ہمیں آئین سے بتادیں کس طرح فل کورٹ بنادیں۔ جسٹس سید حسن اظہررضوی کاکہنا تھا کہ کیا چیف جسٹس کوفل کورٹ بنانے کے لئے درخواست دی تھی۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے قراردیا ہے کہ چیف جسٹس ماسٹر آف روسٹر نہیں، آج بھی اکیلا چیف جسٹس فل کورٹ نہیں بناسکتا، تین رکنی کمیٹی فیصلہ کرے گی۔ حامد خان کاکہنا تھا جی بالکل آرٹیکل 187 کے تحت عدالت اختیار استعمال کر سکتی ہے۔جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ 26ویں ترمیم میں ایک اورترمیم کردی گئی ہے اوردوکمیٹیاں قائم کردی گئی ہیں، آئین کے آرٹیکل 191-Aکے تحت کمیٹی کوتحفظ دیا گیا ہے، 26ویں ترمیم سے قبل قائم کمیٹی کیا آئینی کیسز کے حوالہ سے بینچ تشکیل دے سکتی ہے؟ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ ابھی ہم اس مرحلہ پرنہیں پہنچے کہ کس بینچ نے سننا ہے، ہوسکتا ہے ہم ایک ماہ اسی نقطہ پر کیس سنتے رہیں۔ جسٹس امین الدین خان کاکہنا تھا کہ کس آئینی شق پر عمل کرتے ہوئے فل کورٹ تشکیل دے دیں، یہ ہمارے بس میں نہیں کہ 26ویں ترمیم سے پہلے کی پوزیشن پر چلے جائیں۔ جسٹس عائشہ ملک کاکہنا تھا کہ کوئی چیز بینچ کونہیں روک رہی کہ جوڈیشل آرڈر نہ کریں کہ فل کورٹ نہیں سن سکتی، 26ویں ترمیم میں کہاں پابندی لگائی ہے کہ فل کورٹ نہیں بن سکتی۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاحامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ خود بھی کلیئر نہیں ، اپنی استدعا پڑھیں آپ نے یہ نہیں کہا کہ یہ بینچ فل کورٹ کی تشکیل کاحکم دے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ چیف جسٹس ماسٹر آف روسٹر نہیں بلکہ تین رکنی کمیٹی ہے اور آئینی کیسز کے لئے الگ تین رکنی کمیٹی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ کس کمیٹی کے پاس جائیں ایک ایکٹ اورایک آئین کے تحت بنی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ 58-2-bآئین کا حصہ تھا اس کو بہت سے لوگ نہیں مانتے تھے، اس پر عمل ہوتا رہا جب تک اس کوختم نہیں کردیا گیا۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ کیا ہم کسی شق کوکالعدم قراردے سکتے ہیں۔ حامد خان کاکہنا تھا کہ ہم آئین کے آرٹیکل 191-Aکے تحت دیئے گئے اختیارات کونہیں مانتے، عدلیہ کی آزادی کوتباہ کیا گیا ہے،ا ور اختیارات کی تقسیم کے اصول کے خلاف ہے، فل کورٹ بیٹھے اور فیصلہ کرے۔ جسٹس جمال مندوخیل کاحامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اگر ہم سپریم کورٹ کے سارے ججز کوآئینی بینچ کاحصہ بنادیں توکیاآپ مطمئن ہوں گے۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ ترمیم ہم نے نہیں پارلیمنٹ نے کی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 191-Aکو بھول جائیں توپھر کوئی آئینی بینچ وجودنہیں رکھتا۔ جسٹس امین الدین خان کااگرآئینی بینچ کاوجود نہیں توپھر آج ملک میں سپریم کورٹ کاوجود بھی نہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ اگر 191-Aکونکال دیں تو آئینی بینچ ختم ہوجائے گا۔ جسٹس مسرت ہلالی کاکہنا تھا کہ اگر 191-Aکونکال دیں توپھر پارلیمنٹ سے فل کورٹ کی تشکیل لئے رجوع کرنا پڑے گا۔ حامد خان کاکہنا تھا کہ عدلیہ کی آزادی کاتحفظ سپریم کورٹ نے کرنا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھا کہ اگرہمارے وجود کونہیں مانتے توپھر ہم کوئی آرڈر جاری نہیں کرسکتے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ پھر آئین کاآرٹیکل 191-Aغیر مئوثرہوگیا، کیا وکیل جوکہہ رہے ہیں کیاوہ ہم آئین کے مطابق کرسکتے ہیں۔ جسٹس نعیم اخترافغان کاکہنا تھا کہ حامد خان نے جن کیسز میں فل کورٹ بنانے کے حوالے دیئے وہ اُس وقت کے ہیں جب 26ویں ترمیم اور پریکسٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ نہیں تھا،اُس وقت چیف جسٹس کوانتظامی سطح پر فل کورٹ بنانے کااختیارتھا اور سب ججز نے عدالتی سطح پر بیٹھ کرکیسز سنے، کیاہم آئین اورقانون کے پابند ہیں کہ نہیں، وکیل ہمیں کسی طرف نہیں لے جارہے، کیاآئینی بینچ کی کمیٹی کے سامنے کوئی درخواست دائر کی کہ کیس لارجر بینچ یا آئینی ججز پر مشتمل فل کورٹ کے سامنے سماعت کے لئے مقررکیاجائے۔جسٹس مسرت ہلالی کاحامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میں اب تک جوسمجھ سکی ہوں آپ کے خیال میں فل کورٹ اس لئے بھی ضروری ہے کہ آئین کی بہت سی نمایاں چیزیں اپنی جگہ پرنہیں رہیںاس لئے فل کورٹ تشکیل دی جائے تاکہ اس معاملہ کاہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایک ہی مرتبہ فیصلہ ہوجائے اورایسا آئینی ترمیم اور پریکٹس اینڈپروسیجر ایکٹ کوبائی پاس کرکے کیا جائے کیونکہ نئی چیز متعارف کروائی گئی ہے اور26ویںآئینی ترمیم کے تحت عدلیہ کے چہرے کوتبدیل کردیا ہے۔حامد خان کاکہنا تھا کہ 26ویں ترمیم کے زریعہ عدلیہ حملے کی زد میں ہے اور مناسب یہ ہوگاکہ فل کورٹ بیٹھ کر ان درخواستوں پر فیصلہ کرے، عدالت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی آزادی کاتحفظ کرے۔ حامد خان نے 16ججز پر مشتمل فل کورٹ کی تشکیل کے لئے دائر درخواست پردلائل مکمل کرلیئے۔ مزید وکلاء آج (جمعرات)کو اپنے دلائل دیں گے۔ کیس کی سماعت دن ساڑھے بجے منعقد ہوگی۔ ZS

#/S