جماعت اسلامی پنجاب کا26 اکتوبر کو لاہور سے کسان بچاو، پاکستان بچاو روڑ کارواں شروع کرنے کا اعلان

موجودہ حکمرانوں نے شعبہ زراعت کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا ہے۔ رہی سہی کسر سیلاب نے پوری کر دی ہے۔جاوید قصوری

لاہور( ویب  نیوز)

امیر جماعت اسلامی پنجاب محمد جاوید قصوری کی لاہورپریس کلب میں ڈاکڑ بابر رشید،ذکر اللہ مجاہد، نصر اللہ گورائیہ، رشید مہنالہ، چوہدری منظورحسین،محمدفاروق چوہان اور عمران الحق کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ووٹ کو عزت دو کے خوش کن اور دل فریب نعروں سے ووٹ کی عزت و آبرو کی پامالی کا سفر فارم 47 سے لے کر آج تک جاری ہے۔ موجودہ حکومتی اتحاد جو پی ڈی ایم کی شکل میں معرض وجود میں آیا تھا اس نے ہر شعبہ ہائے زندگی کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ خاص طور پر زراعت اور کسان کا جس بے دردی سے استحصال کیا گیا،اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ سیلاب،موسمیاتی تبدیلیاں اور ظالمانہ حکومتی پالیسیوں نے پنجاب کے کاشتکاروں کو خودکشیوں پر مجبور کر دیا ہے۔جماعت اسلامی پنجاب کسانوں کے معاشی قتل عام اور حکومت کی کسان دشمن پالیسی کے خلاف 26تا28اکتوبر کو لاہور سے کسان بچاو، پاکستان بچاو روڑ کارواں کا آغاز کرے گی۔کارواں پہلے دن لاہور سے اوکاڑہ کے لئے روانہ ہو گا،جگہ جگہ استقبال اور قائدین خطاب کریں گے۔ دوسرے دن 27اکتوبر کو بروز پیر روڑ کارواں لاہور سے (نوشہرہ ورکاں) گوجرانوالہ جائے گا۔ تیسرے دن روڑ کارواں ننکانہ سے ٹوبہ ٹیک سنگھ جائے گا،27 اکتوبر کو نوشہرہ ورکاں گوجرانوالہ اور 28اکتوبر کو ٹوبہ ٹیک سنگھ میں امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان کسان بچاو،پاکستان بچاوروڑ کارواں سے خطاب کریں گے۔انہوں نے کہا ہے موجودہ حکمرانوں نے شعبہ زراعت جو کہ پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حثییت رکھتا ہے اس کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا ہے۔ رہی سہی کسر سیلاب نے پوری کر دی ہے۔اس سیلاب نے کسانوں کو نڈھال کرکے رکھ دیا ہے پہلے ہی گندم کی صحیح قیمت نہ ملنے سے کسانوں کی کمر ٹوٹ گئی چکی ہے۔ وزارت غذائی تحفظ کی رپورٹ کے مطابق پنجاب میں سیلاب سے 24 لاکھ ایکٹر پر فصلیں تباہ ہوئیں جبکہ مجموعی طور پر کپاس کو 5.2 فیصد، گنے کی فصل کو 13 چاول کی فصل کا 15.5 فیصد نقصان ہوا۔ملک کی معیشت کو سیلاب سے 744 ارب روپے کا نقصان پہنچا، ایک ہزار 37 افراد جاں بحق، ایک ہزار 68 زخمی ہوئے، زرعی شعبہ سب سے زیادہ متاثر، 439 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ 70 اضلاع میں زندگی مفلوج، 65 لاکھ افراد متاثر ہوئے۔ فصلیں تباہ اورکسان عملاً بدحال ہو گئے ہیں۔سیلاب نے کئی فٹ مٹی چھوڑ دی ہے جس کو ہموار کرنا کاشتکاروں کے بس کی بات نہیں۔کسی بھی قسم کی کاشتکاری کیلئے زمینوں کو ہموار کرنا بڑا چیلنج ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ زرعی ایمرجنسی نافذ کرکے شعبہ زراعت کو وافر فنڈز دئیے جائیں۔صوبہ پنجاب سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہواہے اور شعبہ زراعت و کسان اس کے بڑے متاثرین ہیں۔لائیو سٹاک،حویلیاں گھر تباہ ہوگئے۔سب سے زیادہ چاول کپاس کی فصل متاثر ہوئی۔ ایک جانب وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے سربراہان و ذمہ داران عوام کو ریلیف دینے اور بالخصوص کاشتکاروں کیلئے خصوصی پیکیج لانے کے اعلانات کر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب کام سست روی کا شکار ہے،جس سے کسانوں میں مایوسی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔پاکستان میں کپاس کی پیداوار 2024ـ25کے سیزن میں ہدف سے 41فیصد کم ہوئی ہے جو کہ متوقع 10.87ملین گانٹھوں کے مقابلے میں صرف 6.42ملین گانٹھوں تک محدود رہی ہے۔ کپاس پاکستان کی دوسری سب سے بڑی نقدآور فصل اور اس سے ٹیکسٹائل صنعت کی ریڑھ کی ہڈی ہے جو ملکی برآمدات سے حاصل ہونے والے زرمبادلہ کا تقریباً 60 فیصد فراہم کرتی ہے۔ قوم پوچھتی ہے کہ 2024 میں جب پنجاب کے کسان کی گندم تیار تھی، تو یوکرائن سے 35 لاکھ ٹن گندم کس نے اور کیوں منگوائی او رصرف دوسالوں میں کسانوں کے 2200 ارب روپے کے خسارے کا ذمہ دار کون؟۔مالی سال 2025ئ میں تمام اہم فصلوں کی مجموعی پیداوار میں 13.49 فیصد تک کمی آچکی ہے جوکہ لمحہ فکریہ ہے۔گندم کو ڈی ریگولیٹ کر کے 3000 روپے فی من ریٹ مقرر کر کے مخصوص طبقے کو نوازا گیا۔فوڈ سیکیورٹی قوانین کے مطابق ملک میں 28 لاکھ ٹن گندم کا ذخیرہ ہونا چاہیے لیکن اس وقت صرف 8لاکھ ٹن گندم باقی ہے۔کپاس کی پیداوار میں 5.55 ملین گانٹھوں کی کمی سے ٹیکسٹائل انڈسٹری جبکہ حالیہ سیلاب نے چاول کی کاشت کو بہت بری طرح متاثر کیا ہے۔سونا یوریا 4,500 روپے جبکہ ڈی اے پی 14,500 روپے میں بک رہی ہے، زرعی ادویات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔مالی سال 2025ئمیں شوگر ایکسپورٹ کر کے مصنوعی قلت پیدا کر کے 300 ارب روپے لوٹنے والوں کا حساب ہونا چاہئے۔ بد قسمتی سے آج ہر پاکستانی تین لاکھ 18 ہزار 252 روپے کا مقروض ہے۔ مگر حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب سے متاثرہ اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا جائے۔ سیلاب سے متاثر کسانوں کی اگلی فصل کے لیے بیچ اور کھاد مفت فراہم کی جائے۔سیلاب سے متاثر کسانوں کو فی ایکڑ 40 ہزار روپے کا ریلیف پیکیج دیا جائے۔ کھا دوں اور زرعی ادویات کی قیمتوں میں 50 فیصد کمی کی جائے۔زرعی ٹیوب ویلوں کی بجلی کی قیمت 10 روپے فی یونٹ کی جائے۔سیلاب زدہ علاقوں کے 6 ماہ کے بجلی کے بل معاف کیے جائیں۔کسانوں سے گندم کی قیمت خرید 4500 روپے اور شہریوں کے لیے روٹی کی قیمت 10 روپے مقرر کی جائے۔

#/S