اسلام آباد (این این آئی)
وزیر اعظم عمران خان نے ملک میں اشیائے خورونوش کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے گڈز ٹرانسپورٹ پر پابندی (آج) جمعہ سے ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ کورونا وائرس کے باعث ملک میں کھانے پینے کی اشیا کی قلت نہیں ہونی چاہیے، کھانے پینے کی اشیا کی قلت ہوئی تو افراتفری ہوسکتی ہے۔
رابطہ کمیٹی کے فیصلے کے مطابق کسی مال بردار گاڑی کو نہیں روکا جائے گا اور سامان کی نقل و حرکت کے لیے ٹرانسپورٹ چلانے کی اجازت ہوگی۔
پاکستان کی ٹیکس سے حاصل ہونے والی کْل آمدنی 45 ارب ڈالر ہے اور امریکا نے صرف ریلیف پیکج 2 ہزار ارب ڈالر کا دیا ہے، اس کے باوجود وہاں وفاق کچھ کر رہا ہے اور ریاستیں کچھ کر رہی ہیں۔ مجھے خدشہ تھا اگر ہم لاک ڈاؤن کے سیدھے پانچویں گیئر میں چلے گئے تو غریب طبقے اور دیہاڑی دار مزدور کے لیے بہت مشکلات پیدا ہوں گی، جب تک اس طبقے کے لیے کوئی اسٹرکچر نہیں بنتا۔ ہمیں آہستہ آہستہ اقدامات اٹھانے چاہیے،ملک میں کورونا وائرس اب تک ویسے نہیں پھیلا جیسے دوسرے ممالک میں پھیلا ہے،، کوئی گارنٹی نہیں اور ہوسکتا ہے دو ہفتے بعد کیسز ایک دم زیادہ ہوجائیں۔ قوم کو تیار رہنا چاہیے اور ہمیں انتہائی بْرے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے تیاری کرنی چاہیے۔ ہمیں کورونا سے زیادہ گھبراکر غلط فیصلے کرنے سے خطرہ ہے۔ یہاں کسی چیز کی کمی نہیں ہے، عوام کو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔
جمہوریت آزاد میڈیا کے بغیر نہیں چل سکتی، میرا کوئی وزیر پیسے بنارہا ہو تو میڈیا نشاندہی کرکے مدد کرے۔ وہ جمعہ کو یہاں اسلام آباد میں سینئر صحافیوں سے بات چیت کررہے تھے۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ کورونا وائرس کے باعث ملک میں کھانے پینے کی اشیا کی قلت نہیں ہونی چاہیے، کھانے پینے کی اشیا کی قلت ہوئی تو افراتفری ہوسکتی ہے اس لیے رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ کسی مال بردار گاڑی کو نہیں روکا جائے گا اور سامان کی نقل و حرکت کے لیے ٹرانسپورٹ چلانے کی اجازت ہوگی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ٹیکس سے حاصل ہونے والی کْل آمدنی 45 ارب ڈالر ہے اور امریکا نے صرف ریلیف پیکج 2 ہزار ارب ڈالر کا دیا ہے، اس کے باوجود وہاں وفاق کچھ کر رہا ہے اور ریاستیں کچھ کر رہی ہیں۔ کیونکہ موجودہ صوتحال اتنی آسان نہیں ہے، کورونا وائرس کی وبا سب کے لیے نئی ہے۔ وزیر اعظم نے کہاکہ ہمارے ملک میں بھی کورونا وائرس آیا جو مختلف ردعمل آنا شروع ہوئے، صوبوں پر دباؤ بڑھا اور انہوں نے اس کے مطابق اقدامات اٹھائے لیکن بظاہر ایسا تاثر ملا کہ حکومت کو سمجھ نہیں آرہی کہ کیا ہورہا ہے، درحقیقت ایسا نہیں تھا، پاکستان کو ایسی صورتحال کا تجربہ نہیں تھا۔عمران خان نے کہا کہ میں لوگوں کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ دو ہفتے قبل قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد ہم نے لاک ڈاؤن شروع کردیا، پی ایس ایل سمیت کھیلوں کے تمام مقابلے ختم کر دئیے لیکن اس کے بعد جس بات کا مجھے خدشہ تھا کہ جب ہم لاک ڈاؤن کی بات کرتے ہیں تو ہمیں بہت سوچ سمجھ کر قدم اٹھانے چاہیے کیونکہ ہم جو بھی قدم اٹھاتے ہیں اس کا ردعمل اور اثرات آتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مجھے خدشہ تھا کہ اگر ہم لاک ڈاؤن کے سیدھے پانچویں گیئر میں چلے گئے تو غریب طبقے اور دیہاڑی دار مزدور کے لیے بہت مشکلات پیدا ہوں گی اس لیے میرا خیال تھا کہ جب تک اس طبقے کے لیے کوئی اسٹرکچر نہیں بنتا ہمیں آہستہ آہستہ اقدامات اٹھانے چاہیے۔وزیر اعظم نے کہاکہ گڈز ٹرانسپورٹ پر پابندی ختم کرنے کے علاوہ یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ کھانے پینے کی اشیا بنانے والی اور اس سے منسلک صنعتوں کو بھی کام کرنے کی اجازت ہوگی اور چاروں صوبے مل کر اس کا طریقہ کار بنائیں گے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ اللہ کا خاص کرم ہے کہ ہمارے ملک میں کورونا وائرس اب تک ویسے نہیں پھیلا جیسے دوسرے ممالک میں پھیلا ہے، لیکن کوئی گارنٹی نہیں اور ہوسکتا ہے کہ دو ہفتے بعد کیسز ایک دم زیادہ ہوجائیں لہٰذا قوم کو تیار رہنا چاہیے اور ہمیں انتہائی بْرے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے تیاری کرنی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اس لیے ہم نوجوانوں کی ایک خصوصی فورس بنا رہے ہیں اور وزیر اعظم ہاؤس کے سٹیزن پورٹل کے ذریعے اس کی ممبرشپ کریں گے، 31 مارچ سے فورس کے لیے رجسٹریشن شروع ہوگی، اس فورس کے اہلکاروں کو ملک بھر میں بھیجا جائیگا اور اگر کسی علاقے سے اچانک کیسز سامنے آتے ہیں تو اس علاقے کے لوگوں کے گھروں میں ان کے ذریعے کھانا پہنچایا جائے گا۔عمران خان نے کہا کہ اگلے ہفتے کورونا فنڈ کا اعلان کیا جائے گا اور جو بھی عطیات دینا چاہے وہ اس فنڈ میں دے گا، غریب طبقے کی ایک طرف احساس پروگرام کے ذریعے مالی مدد کی جائے گی دوسری طرف کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال کی وجہ سے بیروزگار ہونے والوں اور چھابڑی والوں کی اس فنڈ سے مدد کی جائیگی، مالی مدد کرنے والوں کی رجسٹریشن کی جائے گی اور ان کے لیے منظم نظام بنایا جائے گاکیونکہ کورونا کی وجہ سے ہماری تجارت متاثر ہورہی ہے اور برآمدات گر رہی ہیں، ہمیں ڈر ہے کہ اس صورتحال کی وجہ سے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوں گے اور روپے پر دباؤ بڑھے گا، اس لیے میں اس کی بھی تیاری کر رہا ہوں اور اسٹیٹ بینک میں اکاؤنٹ کھولوں گا۔ وزیراعظم نے کہاکہ میں ہمارے اوورسیز پاکستانیوں سے درخواست کروں گا وہ اس اکاؤنٹ میں پیسے جمع کروائیں تاکہ روپے پر دباؤ ختم ہو۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ میرا کوئی وزیر پیسے بنارہا ہو تو میڈیا نشاندہی کرکے مدد کرے، جمہوریت آزاد میڈیا کے بغیر نہیں چل سکتی۔ وزیر اعظم نے بتایاکہ کھانے پینے کی چیزیں بنانے والی فیکٹریاں اور انرجی سیکٹر کام کرتا رہے گا۔انہوں نے کہاکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ لوگ ایک جگہ پر اکٹھے نہ ہوں، ہم چاہتے ہیں لوگوں کو کھانے پینے کی اشیا میں کمی نہ ہو، سامان کی نقل و حرکت کیلئے گڈز ٹرانسپورٹ کی مکمل اجازت ہوگی۔انہوں نے کہا کہ اٹلی میں ایک دن میں 6 سے 700 افراد مررہے ہیں، پاکستان میں صرف 9افراد کورونا وائرس سے انتقال کرچکے ہیں، آج ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ 2 ہفتے بعد پاکستان میں کیا صورتحال ہوگی۔
وزیر اعظم نے بتایاکہ چین نے جب لاک ڈاؤ ن کیا تو لوگوں کو گھر پر کھانا پہنچایا، پاکستان میں لوگوں کو گھروں پر کھانا پہنچانا مشکل ہے، ہمارے پاس ایسا انفرااسٹرکچر نہیں کہ لوگوں کو گھروں پر کھانا پہنچا سکیں۔وزیراعظم نے کہاکہ پاکستان میں لوگ بہت خیرات دیتے ہیں، زلزلے اور سیلاب آنے پر لوگوں نے بڑھ چڑھ کرمدد کی تھی، ماضی میں بہت سے علاقوں میں سامان تھا اور کچھ میں بالکل بھی نہیں پہنچ سکا تھا۔انہوں نے کہا کہ ہمیں کورونا سے زیادہ گھبراکر غلط فیصلے کرنے سے خطرہ ہے، یہاں کسی چیز کی کمی نہیں ہے، عوام کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں عام آدمی کا زیادہ خیال رکھنا ہے، روزانہ کما کر کھانے والا طبقہ انتہائی پریشانی میں ہے، اس وقت عوام کو تقسیم کرنے کی جو بھی کوشش کریگا، اس کو نقصان ہوگا، ملک میں بہت بڑا طبقہ مشکل میں ہے۔