وزیر خزانہ کا بجٹ میں کمزور طبقے کیلئے اقدامات کرنے کا اعلان

درست سمت میں جارہے ہیں، مہنگائی پر کامیابی سے قابو پایا ہے، وزیر خزانہ نے اقتصادی سروے پیش کردیا

جی ڈی پی گروتھ 2.7 فیصد رہی، جی ڈی پی میں اضافہ معاشی ترقی کی علامت ہے محمد اورنگزیب

ہم نے معیشت کے ڈی این اے کو بدلنا ہے جس کے لیے اسٹرکچرل ریفارمز ضروری ہیں، پریس کانفرنس

اسلام آباد(  ویب نیوز)

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب  نے کہا ہے کہ ہم درست سمت میں اور استحکام کی طرف گامزن ہیں اور مہنگائی پر کامیابی سے قابو پایا ہے،جی ڈی پی گروتھ 2.7 فیصد رہی، جی ڈی پی میں اضافہ معاشی ترقی کی علامت ہے۔اسلام آباد میں قومی اقتصادی سروے 25-2024 پیش کرتے ہوئے محمد اورنگزیب نے کہا کہ عالمی مجموعی پیداوار کی شرح میں کمی آئی ہے اور گلوبل جی ڈی پی نمو 2.8 فیصد ہے، تاہم ملکی مجموعی پیداوار میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور جی ڈی پی میں اضافہ معاشی ترقی کی علامت ہے۔انہوں نے کہا کہ ملکی معاشی ریکوری کو عالمی منظرنامے میں دیکھا جائے گا، 2023 میں ہماری جی ڈی پی گروتھ منفی، 2024 میں 2.5 فیصد، 2025 میں 2.7 فیصد تھی اور مہنگائی کی شرح 29 فیصد سے زائد ہوچکی تھی، 2023 میں دو ہفتے کے ذخائر موجود تھے، اس کے بعد معیشت میں بتدریج بہتری آرہی ہے اور افراط زر میں ریکارڈ کمی واقع ہوئی، عالمی مہنگائی دو سال پہلے 6.8 تھی جو اب 0.3 فیصد ہے، پاکستان میں اس وقت مہنگائی بڑھنے کی شرح 4.6 فیصد پر آگئی ہے، مہنگائی پر قابو پانے کے لیے حکومت نے مفصل حکمت عملی اپنائی، پالیسی ریٹ میں بتدریج کمی گئی اور پالیسی ریٹ ایک سال میں 22 فیصد سے کم ہو کر 11 فیصد پر آگیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ معاشی سیکیورٹی قومی سلامتی کا بہت اہم جزو ہے، ہم درست سمت میں اور استحکام کی طرف گامزن ہیں، موڈیز اور فنچ نے پاکستان سے متعلق اقتصادی آٹ لک میں بہتری کی، پائیدار ترقی کے لیے حکومت نے پالیسی اور ڈھانچہ جاتی اصلاحات کا آغاز کیا، ہم نے معیشت کے ڈی این اے کو بدلنا ہے جس کے لیے اسٹرکچرل ریفارمز ضروری ہیں، رواں مالی سال زرمبادلہ کے ذخائر میں شاندار اضافہ ہوا، دوست ممالک کے اعتماد میں مضبوطی سے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے میں مدد ملی، جون 2024 تک زرمبادلہ کے ذخائر میں 5 ارب ڈالر تک اضافہ ہوا، بیرونی شعبے میں استحکام سے زرمبادلہ کے ذخائر کو 16 ارب ڈالر تک لے جانے میں مدد ملی، جی ڈی پی کے تناسب سے قرضوں کی شرح 68 سے 65 فیصد پر آگئی۔محمد اورنگزیب نے کہا کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پروگرام کا مقصد پائیدار معاشی استحکام کا حصول ہے، آئی ایم ایف پروگرام سے ہمیں ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے لیے وسائل دستیاب ہوئے، ٹیکس ٹو جی ڈی پی 5 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا، ٹیکنالوجی کے استعمال سے ٹیکس محصولات میں اضافہ ہوا، شعبہ توانائی میں شاندار اصلاحات ہوئیں اور ایک سال میں تاریخی ریکوری ہوئی ہے، ڈسکوز میں پیشہ ور بورڈز لگائے جس سے ڈسٹری بیوشن لاسز میں کمی آئے گی۔انہوں نے کہا کہ قرضوں کی ادائیگی میں 800 ارب بچائے، پنشن اصلاحات میں خاطر خواہ پیش رفت ہوئی، آنے والے وقت میں 43 وزارتوں اور 400 ملحقہ اداروں کی رائٹ سائزنگ کریں گے، بجٹ میں بتاں گا کہ اسے آگے کیسے لے کر جائیں گے، اسے مرحلہ وار آگے لے کر جارہے ہیں، ہم وزارتوں اور محکموں کو ضم کر رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ مشینری اور ٹرانسپورٹ کی نمو بڑھی ہے، بیرونی شعبے میں دہرے بحرانوں کا المیہ رہا، بھارت نے آئی ایم ایف پروگرام رکوانے کے لیے پورا زور لگایا تھا، بھارتی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے کوشش کی آئی ایم ایف کی دوسری قسط نہ ملے، ترسیلات زر میں اضافہ ہوا ہے، رواں سال ترسیلات زر 37 سے 38 ارب ڈالر رہنے کا امکان ہے، ترسیلات زر میں اضافے میں روشن ڈیجیٹل اکانٹس میں کلیدی کردار ادا کیا اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا ملکی معیشت پر اعتماد مضبوط ہوا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ جولائی سے مئی کے دوران ٹیکس وصولی میں 26 فیصد اضافہ ہوا ہے، فائلرز کی تعداد دگنی ہوگئی، آئی ٹی برآمدات بڑھیں، فری لانسرز نے 40 کروڑ ڈالر کمائے، 74 فیصد ریٹیلرز رجسٹریشن مزید ہوئی ہے، ہم اب قرضے مزید نہیں لینا چاہتے، اگر لیں گے تو اپنی شرائط پر لیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں قرضوں کی ادائیگیوں میں جتنا بھی بچے گا اس کو دیگر شعبوں میں لے جائیں گے، صنعتوں کی نمو میں 6 فیصد تک اضافہ ہوا ہے، خدمات کے شعبے میں 2 فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا، رئیل اسٹیٹ اور تعمیرات کے شعبے میں 3 فیصد تک اضافہ ہوا ہے، زرعی شعبہ محض 0.6 فیصد تک بڑھا ہے۔انہوں نے کہا کہ جاری کھاتوں کا خسارہ اب سرپلس میں ہے، اکانٹس 10 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے ہیں، گزشتہ 20 سال میں پہلی بار پرائمری بیلنس سرپلس ہوا۔ان کا کہنا تھا کہ بی آئی ایس پی کے لیے بجٹ میں مختص رقم میں اضافہ کیا گیا، 2024 میں بی آئی ایس پی بجٹ ایلوکیشن 593 ارب روپے تک پہنچ گئی، بی آئی ایس پی کفالت پروگرام کے ذریعے 99 لاکھ خاندانوں کی معاونت جاری ہے، اسکل ڈیولپمنٹ پروگرام میں 16 ہزار افراد کو آئی ٹی تربیت دی جاری ہے، معیشت کا حجم 372 ارب ڈالر کے مقابلے میں 411 ارب ڈالر  ہوگیا، فی کس آمدنی 162 ڈالر کے اضافے سے 1824 ڈالر تک پہنچ گئی۔محمد اورنگزیب نے کہا کہ برآمدات 6.8 فیصد اضافے سے 27 ارب 30 کروڑ ڈالر پر پہنچ گئیں، ایف بی آر ٹیکس وصولی 25.9 فیصد بڑھ کر 10 ہزار 234 ارب روپے تک پہنچ گئی، سرمایہ کاروں کے اعتماد کی بحالی سے اسٹاک مارکیٹ میں 52.6 فیصد اضافہ ہوا۔انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں بجلی کی مجموعی پیداواری صلاحیت 46 ہزار 604 میگاواٹ ہے، 56 ہزار نوجوانوں کو آئی ٹی اور دیگر شعبوں میں تربیت دی جارہی ہے اور نوجوانوں کو مقامی اور بین الاقوامی جاب مارکیٹ کے لیے تیار کیا جارہا ہے، صنعتی ترقی 4.8 فیصد، گاڑیوں کی صنعت میں 48 فیصد اضافہ ہوا ہے۔سرکاری دستاویزات کے مطابق رواں مالی سال معاشی شرح نمو کا ہدف 3.6 فیصد تھا جو 2.7 فیصد رہی، زرعی شعبے کی ترقی 2 فیصد ہدف کے مقابلے میں 0.6 فیصد اور خدمات کے شعبے کی ترقی 4.1 فیصد ہدف کے مقابلے میں 2.9 فیصد ہے۔صنعتی شعبے کی ترقی 4.8 فیصد رہی، رواں مالی سال بڑی فصلوں کی پیداوار میں 13.5 فیصد کی کمی ہوئی، کپاس کی پیداوار میں 30.7 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ دیگر فصلوں کی پیداوار میں 4.8 فیصد کا اضافہ ہوا، سبزیوں کی پیداوار میں 7.8 اور پھلوں کی پیداوارمیں 4.1 فیصدکا اضافہ ہوا۔سرکاری دستاویزات کے مطابق رواں مالی سال لائیو اسٹاک کی پیداوار 4.4 فیصد سے بڑھ کر 4.7 فیصد ہوگئی، مویشیوں کی آبادی میں3.77 فیصد تک کا اضافہ ہوا۔رواں مالی سال مجموعی سرمایہ کاری 14.2 فیصد ہدف کے مقابلے میں 13.8 فیصد رہی، فکسڈ سرمایہ کاری 12.5 فیصد ہدف کے مقابلے میں 12 اور نجی سرمایہ کاری 9.7 فیصد کے مقابلے میں 9.1 فیصد رہی۔اس دورانیے میں اسٹیٹ بینک کے ذخائر 9.2 ارب ڈالر سے بڑھ کر 11.4 ارب ڈالر ہوگئے، ایف بی آر کے محصولات میں جولائی تا اپریل 26.3 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا جبکہ نان ٹیکس آمدنی میں 69.9 فیصد اضافہ ہوا تاہم ایف بی آر محصولات میں اضافے کے باوجود رواں مالی سال کا مقررہ اصل اور نظرثانی شدہ ہدف حاصل نہ ہونے کا خدشہ ہے،رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ عالمی گرین ہاس گیسز کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے، سیلاب نے 3.3 کروڑ افراد کو متاثر کیا اور 15 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، پاکستان میں سال 2024 کا اوسط درجہ حرارت 23.52 ڈگری رہا، پاکستان میں سال 2024 میں 31 فیصد زائد بارشیں ہوئیں۔

پنشن اصلاحات، مالی بچت اور گورننس میں بہتری کے لیے رائٹ سائزنگ کا فیصلہ کیا ہے، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کمزور طبقے کو خوشخبری سناتے ہوئے کہاہے کہ بجٹ میں کمزور ترین طبقے کیلئے اقدامات کا اعلان کروں گا، ایک یا 2 کروڑ نوکریاں دینے کے نعروں کے حق میں نہیں ، کم از کم اجرت کے قانون پر عمل درآمد کیلئے کام کریں گے۔ وزیر خزانہ نے چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر کی تنخواہوں میں اضافے کے سوال کا جواب دینے سے گریز کیا ۔وزیر خزانہ نے اقتصادی سروے پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ عملدرآمد کا ایشو ہے،ہمارے ہاں قانون سازی بہت ہے، عالمی بینک کی پاکستان میں غربت کی رپورٹ کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے، آئی ایم ایف سے 1.4 ارب ڈالر کی کلائمیٹ فنانسنگ منظور ہو چکی، عالمی بینک بھی سالانہ 2 ارب ڈالر کی فنانسنگ کا اعلان کر چکا ہے، ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے کئی اصلاحات کرنا ہوں گی۔انہوں نے کہا کہ این ایف سی پر اجلاس اگست میں بلایا جائے گا، حکومت کا کام روزگار کیلئے  ایکو سسٹم پیدا کرنا ہے، ملک میں معاشی استحکام آیا ہے، پاکستان کو اصلاحات کیلئے آئی ایم ایف کی مکمل حمایت حاصل ہے، معاشی اصلاحات پر عمل درآمد جاری رکھنے کیلئے پرعزم ہیں، حاصل کردہ معاشی استحکام کو پائیدار ترقی میں تبدیل کرنا ہے، آنے والے برسوں میں فنانسنگ کی ضرورت کم ہوتی جائے گی، اگلے سال 4.2 فیصد ترقی کے ہدف کے حصول کیلئے درست سمت پر ہیں۔

پنشن اصلاحات، مالی بچت اور گورننس میں بہتری کے لیے رائٹ سائزنگ کا فیصلہ کیا ہے، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب

وفاقی وزیر خزانہ و محصولات سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ حکومت نے پنشن نظام میں اصلاحات کا آغاز کر دیا ہے اور اب ملک کو ڈیفائنڈ کنٹری بیوشن پنشن سسٹم کی طرف منتقل کیا جا رہا ہے تاکہ مستقبل میں پنشن کے بڑھتے ہوئے مالی بوجھ کو کم کیا جا سکے۔قومی اقتصادی سروے 2024-25 کے اجرا کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ قومی خزانے میں ہونے والی لیکج (ضیاع) کو روکنا حکومت کی اولین ترجیح ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے رائٹ سائزنگ کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم 43 وفاقی وزارتوں اور 400 سے زائد ماتحت اداروں کی جامع رائٹ سائزنگ کریں گے تاکہ کارکردگی میں بہتری، اخراجات میں کمی اور گورننس کے نظام کو موثر بنایا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ یہ اقدامات حکومت کی طویل مدتی پالیسیوں کا حصہ ہیں جن کا مقصد اقتصادی استحکام، مالی نظم و ضبط اور عوامی خدمات کی بہتری کو یقینی بنانا ہے