اسلام آباد (صباح نیوز)
سپریم کورٹ آف پاکستان نے کورواناوائرس کے پھیلاؤ کے خدشہ کے پیش نظر اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے اڈیالہ جیل راولپنڈی سے 408قیدیوں کی رہائی کا فیصلہ معطل کر دیا۔ جبکہ عدالت نے دیگر ہائی کورٹس کی جانب سے انڈرٹرائل قیدیوں کی رہائی کے حوالہ سے فیصلوں کو بھی معطل کر دیا ۔ عدالت نے صوبائی حکومتوں کو بھی مزید قیدیوں کی رہائی کے حوالہ سے فیصلے کرنے سے روک دیا ہے۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ کسی مقدمہ کے مکمل ٹرائل تک کسی قیدی کو رہا نہیں کیا جائے گا۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل (بدھ) تک ملتوی کرتے ہوئے چاروں صو بوں، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر کے متعلقہ حکام،ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب اور پراسیکیوٹر جنرل اے این ایف اور دیگر متعلقہ حکام کو طلب کر لیا ہے۔
سوموار کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل، جسٹس سجاد علی شاہ، اور جسٹس قاضی محمد امین احمدپر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے راجا محمد ندیم نامی شہری کی جانب سے کورونا وائرس کے خطرے پیش نظر اڈیالہ جیل میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کو رکھنے کے حوالہ سے کیس سماعت کی۔درخواست گزار نے سیکرٹری داخلہ کے زریعہ حکومت پاکستان اور دیگر کو فریق بنایا ہے۔ دوران سماعت وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل عابد ساقی ایڈووکیٹ اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر سید قلب حسن سمیت ملک بھر سے ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشنز اور ڈسٹرکٹ بار ا یسوسی ایشنز کے نمائندے عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت سے استدعا کی کہ موجودہ حالات میں ہائی کورٹس کی جانب سے قیدیوں کی رہائی کے حولہ احکامات ناگزیر تھے اس لئے اس فیصلہ کو برقراررکھا جائے۔ جبکہ دوران سماعت اٹانی جنرل آف پاکستان بیرسٹر خالد جاوید خان نے عدالت کو بتایا کہ مختلف ہائی کورٹس قیدیوں کی رہائی کے حوالہ سے فیصلے دے رہی ہیں، درخواست گزار کے حق دعویٰ پر کوئی اعتراض نہیں اٹھا رہا۔ ان کا کہنا تھا کورونا وائرس کے پھیلاؤکے خدشہ کے پیش نظر سپریم کورٹ کوئی گائیڈ لائن طے کرے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان اس حوالہ سے واضح گائیڈلائن دے گی جس پر تمام ہائی کورٹس عملدرآمد کرنے کی پابند ہوں گی اور جو طریقہ کار سپریم کورٹ وضع کرے گی اسی کو اختیار کرنا ہو گا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کہنا تھا کہ بے شک حالات اس وقت سنگین ہیں تاہم ہماری ان پر نگاہ ہے، جو بھی حالات ہوں کوئی طریقہ کاروضع کرنا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ امریکہ اور بھارت میں بھی اعلیٰ عدالتوں نے کمیشن مقرر کئے ہیں جس کے نتیجہ میں جو لوگ سنگین جرائم میں ملوث نہیں ہیں انہیں کو ہی ضمانتیں دی ہیں، تاہم ہمارے ہاں ہائی کورٹ نے سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کو بھی ضمانتیں دے دی ہیں جو کہ درست نہیں تھا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کوروناوائرس سنگین مسئلہ ہے تاہم اس کے پیش نظر اجازت نہیں دے سکتے کہ سنگین جرائم میں ملوث قیدی رہا کر دیئے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کو کوروناوائرس کی وجہ سے کن حالات کا سامنا ہے ہمیں سب پتہ ہے، دیکھنا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کس اختیار کے تحت قیدیوں کی رہائی کا حکم دیا، ہائی کورٹس کیسے ازخود نوٹس کا اختیار استعمال کر سکتی ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ نے منشیات اور نیب مقدمات میں گرفتار ملزمان کو ضمانت دی ہے۔عدالت نے وفاق، تمام ایڈووکیٹ جنرلز، پراسیکیوٹر جنرل نیب، پراسیکوٹر جنرل اے این ایف، تمام ہوم سیکرٹریز، تما م انسپیکٹر جنرلز آف پولیس، تمام آئی جی جیل خانہ جات، چیف کمشنر اسلام آباد، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے متعلقہ ذمہ داران اور، سیکرٹری محکمہ صحت کو کل (بدھ) کو طلب کر لیا جبکہ عدالت نے شیخ امیر حسین کو عدالتی معاون مقرر کیا ہے۔ ZS