کوروناوائرس….. سپریم کورٹ کا وفاقی، صوبائی حکومتوں کی رپورٹس پر اظہار عدم اطمینان

۔۔ یہ کس قسم کی ایمرجنسی ہے کہ تمام اسپتال بند ہیں، پرائیویٹ کلینک بھی بند ہیں، گراونڈ پر کیا ہورہا ہے، کسی کو علم ہی نہیں ہے،چیف جسٹس گلزار احمد

کومت صرف میٹنگز کررہی ہے لیکن زمین پر کچھ کام بھی نہیں ہورہا ہے، کوئی بندہ کام نہیں کررہا، سب فنڈز کی بات کررہے ہیں۔سب کاروبار بند کر د یئے گئے، ہمارا ملک اس کا متحمل نہیں ہوسکتا،دوران سماعت رریمارکس

شوگر اور امراض قلب کے مریض کہاں جائیں؟ عوام کو تو خدا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، لوگوں کو ٹی وی پر بتایا جا رہا ہے گھر سے نہ نکلیں اور ہاتھ 20 بار دھوئیں، ٹی وی صبح سے شام تک لوگوں کو ڈرا رہا ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد

اسلام آباد(صباح نیوز) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کا کہنا ہے کہ حکومت صرف میٹنگز کررہی ہے لیکن زمین پر کچھ کام بھی نہیں ہورہا ہے۔یہ کس قسم کی ایمرجنسی ہے کہ تمام ہسپتا ل بند ہیں، پرائیویٹ کلینک بھی بند ہیں، گراؤنڈ پر کیا ہورہا ہے، کسی کو علم ہی نہیں۔پیر کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے انڈرٹرائل قیدیوں کی ضمانت پررہائی کے معاملے کی سماعت کی، عدالت نے کہا کہ معاملہ صرف قیدیوں کی رہائی کا نہیں بلکہ دیکھنا یہ ہے حکومت کورونا سے کیسے نمٹ رہی ہے، صرف میٹنگ میٹنگ ہورہی ہے، زمین پر کچھ بھی کام نہیں ہورہا۔چیف جسٹس نے کوروناوائرس معاملے پر وفاقی، صوبائی حکومتوں کی رپورٹس پر اظہار عدم اطمینان کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ یہ کس قسم کی ایمرجنسی ہے کہ تمام اسپتال بند ہیں، پرائیویٹ کلینک بھی بند ہیں، گراؤنڈ پر کیا ہورہا ہے، کسی کو علم ہی نہیں ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ شوگر اور امراض قلب کے مریض کہاں جائیں؟ عوام کو تو خدا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، لوگوں کو ٹی وی پر بتایا جا رہا ہے گھر سے نہ نکلیں اور ہاتھ 20 بار دھوئیں، ٹی وی صبح سے شام تک لوگوں کو ڈرا رہا ہے۔جسٹس گلزار نے ریمارکس دیئے کہ کوئی بندہ کام نہیں کررہا، سب فنڈز کی بات کررہے ہیں، صوبائی حکومتیں پیسے بانٹ دو اور راشن بانٹ دو کی باتیں کررہی ہیں، تمام چیف منسٹر گھروں سے آرڈر دے رہے ہیں، گراؤنڈ پر کچھ بھی نہیں ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ صوبوں کے پاس ٹیسٹ کیلئے کٹس ہی موجود نہیں، صوبے کہہ رہے ہیں 10 ارب دے دو، گلوز اور ماسک لینے ہیں۔جسٹس گلزار نے ریمارکس میں کہا کہ سب کاروبار بند کر دیے گئے، ہمارا ملک اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس سے چیمبر میں بریفنگ کی استدعا کی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ چیمبر میں آپ کیا بتائیں گے، ہمیں سب پتہ ہے۔چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ پتہ نہیں ظفر مرزا صاحب کی کیا کوالیفکیشن ہے، وہ صرف ٹی وی پر پروجیکشن کرتے ہیں۔جسٹس گلزار نے کہا کہ ہمیں احساس ہے کہ امریکا جیسا ملک بھی ہلا ہوا ہے، ہم کورونا اسپیشلسٹ نہیں، ہم صرف یہ دیکھ رہے ہیں شہریوں کے آئینی حقوق کادفاع ہو رہا ہے یا نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہر ایک ہسپتا ل اور کلینک لازمی کھلا رہنا چاہئے، یہاں تو وزارت ہیلتھ نے خط لکھا کہ سپریم کورٹ کی ڈسپنسری بند کی جائے کیوں بھائی یہ ڈسپنسری کیوں بند کی جائے؟ کیا اس طرح سے اس وبا سے نمٹا جارہا ہے؟سپریم کورٹ نے کہا کہ وفاق کے پاس تو کچھ ہے ہی نہیں، وفاق تو کچھ کر ہی نہیں رہا، آپ نے جو رپورٹ جمع کرائی ہے یہ اس بات کو واضح کررہی ہے۔اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایک رپورٹ آج بھی جمع کرائی ہے، وفاق بھرپور طریقے سے اقدامات کررہا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ شیریں مزاری نے جواب داخل کرایا کہ پشاورہائیکورٹ نے 32سو قیدیوں کی رہائی کا حکم دیا ہے جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ پشاور ہائی کورٹ نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا، میرے خیال میں وزارت انسانی حقوق کو غلط فہمی ہوئی ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر ظفر مرزا صاحب کی کیا اہلیت، قابلیت ہے، بس روزانہ کی بنیاد پر ڈاکٹر ظفر مرزا کی پروجیکشن ہو رہی ہے، کیا وزارت دفاع سے کوئی عدالت آ یا ہے، وزارت دفاع سے معلوم کرنا تھا کہ وہ کیا کر رہے ہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت نے وزارت دفاع سے کسی کو طلب نہیں کیا تھا۔سپریم کورٹ اسلام آباد میں وزارت قانون نے قیدیوں کی ضمانت پر رہائی کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی رپورٹ عدالت میں جمع کرا دی، رپورٹ میں بتایا گیا کہ سیکشن 401 کے تحت انڈر ٹرائل قیدیوں کو ضمانت نہیں دی جاسکتی۔رپورٹ کے مطابق آئین کے آرٹیکل 45 کے تحت صدر پاکستان کے پاس اختیارہے کہ وہ ضمانت کی اجازت دیں، تاہم آرٹیکل 45 کے تحت صدر پاکستان کو انڈر ٹرائل قیدیوں کو ضمانت پر رہائی کا اختیار نہیں۔بینچ کے رکن جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا عملی طور پر اقدامات این ڈی ایم اے نے کرنا ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا این ڈی ایم کے ذمہ سامان کا حصول اور تقسیم ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے آج منگل تک عملی اقدامات پر مبنی جامع رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہاکہ صوبوں کے وزرائے اعلی گھر بیٹھ کر احکامات جاری کررہے ہیں، اس بات کا احساس ہے کہ کورونا نے سپرپاورز کو بھی ہلا کررکھ دیا،لوگوں کے ٹیسٹ کرنے کیلئے صوبوں کے پاس کٹس ہی نہیں، خیبرپختونخوا میں جاری 500 ملین آپس میں بانٹ دیئے گئے،سب کازور مفت راشن تقسیم کرنے پر ہے عوام کے کاروبار ویسے ہی بند کردیئے گئے،لالو کھیت کراچی میں جس سڑک پر پولیس پر حملہ ہوااس کا حال دیکھیں،سڑکوں پر دھول مٹی اوکچراکسی بیماری سے کم نہیں، ہمارے ارکان اسمبلی پارلیمنٹ میں بیٹھنے سے ڈررہے ہیں،یورپ امریکا نے اس دوران وبا سے نمٹنے کیلئے قانون بنا دیا۔جسٹس قاضی امین نے کہاکہ ہمیں لوگوں کی زندگی اور تحفظ کا احساس ہے قانون میں راستہ موجود ہے،اٹارنی جنرل نے کہاکہ پنجاب جیل میں کورونا وائرس کا مریض سامنے آیا۔ جسٹس قاضی امین نے کہا کہ جیل میں اگر متاثرہ شخص نہیں تو باقی قیدی محفوظ ہیں،جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ ہمیں ان حالات میں تحفظ کے ایس او پیز بناناہوں گے۔اٹارنی جنرل نے کہاکہ جیل کے حالات کا گھرسے موازنہ نہیں کر سکتے، توازن کیساتھ قیدیوں کی رہائی ہونی چاہئے، قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے اپنی تجاویز دے چکا ہوں جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ سنگین جرم کے قیدیوں کو رہا کرنا کس طرح درست ہے؟۔اٹارنی جنرل نے کہ ہمیں معلوم ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس ازخودنوٹس کا اختیار نہیں سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو سننے کے بعد قیدیوں کی رہائی سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا ، کیس میں کورونا کے حوالے سے حکومتی اقدمات پر آج دوبارہ سماعت ہوگی۔ Z