اسلام آباد (صباح نیوز)
وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد چینی اسکینڈل کے بارے میں ،، چینی انکوائری کمیشن ،، کی رپورٹ جاری کردی گئی حکومت اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کی شوگرملزکی بھی سنگین اور وسیع بے قاعدگیاں منظر عام پر آگئیں حیران کن انکشافات ہوئے ہیں کہ شوگر ملوں نے 22 ارب روپے کے ٹیکس 12 ارب ریفینڈ کروالئے ، 2019 تک 140 روپے سے کم قیمت میں گنا خریدا گیا قیمت خرید180روپے سے زائد تھیں دوسالوں میں صرف دو ملز کسانوں سے 13کروڑ روپے سے زائد اضافی کما گئیںبے نامی چینی کی سیل بھی شامل ہے کسانوں کے گنے میں 25سے30 کٹوتیاں کی گئیں پانچ سالوں میں قومی خزانہ سے شوگر ملز کو 29ارب روپے کی سبڈیزدی گئیں گنے کے کاشتکاروں کو کروڑوں روپے کی کم ادائیگیاں کی گئیں رپورٹڈ چینی و گن نان رپورٹڈ چینی وگنے کی دوکتابیں بنار کھی تھیں اربوں روپے کا ٹیکس چوری کیا کین کمشنرز بھی ملوث تھے ایف بی آر کے شوگرملز پر تعنیات انسپکٹرز بھی ملوث رہے گنے کے نرخ کے حوالے سے ادائیگیوں کی کچی چٹ دی جاتی رہیں افغانستان جانے والی چینی کی ٹی ٹیز دوبئی اور امریکہ سے آتی رہیں شوگرملز کے گٹھ جوڑ کو توڑنے میں مسابقی کمیشن ناکام رہا ۔کاروائی کے لئے فوجداری مقدمات قائم اورجلد گرفتاریوں کا عندیہ دیا گیا ہے وصول رقوم کاشتکاروں کو واپس کی جائیں گی معاون خصوصی نے کہا ہے کہ جوئے کی طرح چینی کی قیمتوں کا تعین کیا جاتارہا ۔جمعرات کو وفاقی وزیر برائے اطلاعات ونشریات شبلی فراز معاون خصوصی احتساب شہزاد اکبر اور شہباز گل نے مشترکہ پریس کانفرنس میں رپورٹ جاری کی۔حکومتی ٹیم کا کہنا تھا کہ فورانزک رپورٹ کی ساری تفصیلات سے پتا چلے گا کہ ملک کی شوگر ملز میں کیا ہوتا رہا، تاہم یہ ابھی شروعات ہے۔ ہمارا منشور تبدیلی لانا اور مافیا کو بے نقاب کرنا ہے۔شہزاد اکبر نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ کا بہت اہم دن ہے۔ پہلے کسی حکومت کی ہمت نہیں ہوئی کہ اس طرح کے تحقیقاتی کمیشن بنائے۔ کاروباری طبقے نے نظام کو مفلوج کرکے بوجھ عوام پر ڈالا۔ تمام ملیں پندرہ فیصد سے لے کر 30 فیصد وزن کم تولتی ہیں۔ کاروبار ی سیاستدان مفادات میں تصادم کے اصول کو توڑتے ہوئے کاروبار کرتے رہے شوگر ملیں کاشت کاروں کو امدادی قیمت سے بھی کم دام دیتی ہیں۔ بے نامی ایکٹ کی خلاف ورزی اور ٹیکس چوری کا معاملہ ہے۔ جو سیلز چیک کی گئیں، وہ بھی ساری بے نامی ہیں۔مارکیٹ میں مختلف حربوں سے چینی کی قیمتیں بڑھتی رہیں،کمیشن نے لکھ دیا ہے کہ وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نے صرف اومنی گروپ کو فائدہ پہنچانے کے لیے سبسڈی دی۔ چینی افغانستان کو ایکسپورٹ ہوتی ہے۔ چینی کی ایکسپورٹ کا جب ڈیٹا چیک کیا گیا تو میچ ہی نہیں ہوا، اس میں اربوں کا فرق آیا۔چینی کے 6 بڑے گروپس کا آڈٹ کیا گیا۔ الائنس مل کی اونرشپ میں مونس الہی اور عمر شہریار کے شیئر ہیں۔ پچھلے پانچ سالوں میں شوگر ملوں کو 29 ارب کی سبسڈی دی گئی۔ پانچ سالوں میں شوگر ملوں نے 22 ارب روپے کا ٹیکس دیا، جس میں 12 ارب ریفینڈ کے تھے۔ اس طرح پچھلے 5 سال میں کل ٹیکس 10 ارب روپے دیا گیا۔چینی کی قیمت میں ایک روپے اضافہ کر کے اربوں روپے منافع کمایا جاتا ہے۔ برآمدات کی مد میں 58 فیصد چینی افغانستان کو جاتی ہے۔ حمزہ مل کی اونرشپ طیب گروپ آف انڈسٹریز کی ہے۔ کچی پرچی کا رواج العربیہ مل نے ڈالا۔ العربیہ نے 78 کروڑ روپے شوگر کین کم شو کیا۔ العربیہ کے 75 فیصد شہباز شریف فیملی کے شیئر ہیں۔ ریگولیٹرز کی غفلت کے باعث چینی بحران پیدا ہوا اور قیمت بڑھی۔ جو براہ راست ملوث ہوگا، اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ 2018 دسمبر سے لے کر اگست 2019 تک چینی کی قیمتوں میں 33 فیصد اضافہ ہوا ۔2019 کے بعد بھی چینی کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوا ۔ مسلسل اضافے کو سامنے رکھتے ہوئے وزیراعظم نے پہلے ایف آئی اے کے ڈی جی کی سربراہی میں 3 رکنی کمیٹی قائم کی ۔ اس کمیٹی نے وزیراعظم کے سامنے ایک مفصل رپورٹ پیش کی اور تجویز دی کہ یہ معاملہ بڑا پیچیدہ ہے اس کی فرانزک آڈٹ ہونا چاہیے۔ اس کیلئے ایک باقاعدہ انکوائری ایکٹ 2017 کے تحت کمیشن تشکیل دیا جائے ان سفارشات کو وفاقی کابینہ کے سامنے رکھا گیا۔ کابینہ نے ایکٹ 2017 کے تحت انکوائری کمیشن تشکیل دیا جس کی انکوائری ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیاء کررہے تھے۔ اس کمیشن نے مختصر مدت میں فائنل رپورٹ تیار کی جسے کابینہ کے سامنے پیش کیا گیا ۔اس کیلئے کابینہ کا اسپیشل اجلاس بلایا گیا۔ واجد ضیاء نے کابینہ کے سامنے رپورٹ پیش کی کابینہ کو رپورٹ کے بنیادی نکات پر بریف کیا گیا ۔میڈیا بریفنگ میں شہزاد اکبر نے کہا کہ وزیراعظم بار بار کہہ چکے ہیں کہ کاروبار کرنے والا جب سیاست میں آئے گا تو وہ سیاست میں بھی کاروبار ہی کرے گا۔ اس رپورٹ میں صاف طور پر عام ہوا ہے کہ ایک کاروباری طبقہ کس طرح انڈسٹری پر مسلط ہے۔ اس رپورٹ میں بڑے حیران کن انکشافات ہیں۔ رپورٹ سے ظاہر ہے کہ کس طرح کسان کو تسلسل کے ساتھ نقصان پہنچایا گیا اور اسے لوٹا گیا ۔رپورٹ کی فائنڈنگ میں لکھا گیا ہے کہ کس طرح شوگر ملز تواتر کے ساتھ گنا دینے والے کسانوں کو انتہائی کم قیمت ادا کرتی ہیں۔ شوگر ملز کے اپنے ریکارڈ کے مطابق 2019 تک 140 روپے سے کم قیمت میں گنا خریدا گیا۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ کسان سے کٹوتی کے نام پر زیادتی کی گئی ہے۔ تمام ملیں 15 سے 30 فیصد تک گنے کے وزن میں کٹوتی کرتی ہیں جس کا براہ راست نقصان کسان کو ہوتا ہے اورفائدہ مل مالکان کو ہوتا ہے۔ کسانوں کو کچی پرچیوں پر ادائیگیاں کی جاتی ہیں جو 140 روپے فی من سے بھی کم ہے۔ کمیشن ایجنٹ کو استعمال کیا جاتا ہے جن کے ذریعے کسانوں سے مزید کم داموں میں گنا خریدا جاتا ہے۔ جب ملز مالکان چینی کی پیداواری لاگت دکھاتے ہیں تو وہ گنے کی وہ قیمت دکھاتے ہیں جو چینی کی سپورٹ پرائس سے بھی زیادہ ہے ۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ مختلف ملز مالکان کسان کو ان آفیشل پیکنگ بھی کرتے ہیں ملز مالکان یا تو کسانوں کو کھاد دیتے ہیں اس مد میں بھی 35 فیصد منافع کی صورت میں کسان سے وصولی کرلی جاتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2017-18 کی پیداواری لاگت جو شوگر ملوںنے دی وہ 51 روپے فی کلو ہے جبکہ فرانزک آڈٹ کمیشن نے اس کی قیمت 38 روپے دی ہے جو 13 روپے کا فرق ہے۔ اسی طرح 2018-19 میں جو شوگر ملزم ایسوسی ایشن نے پیداواری قیمت دی وہ 52 روپے 6 پیسے ہے جبکہ اسی عرصے کی کمیشن کی مقررہ کردہ قیمت 40 روپے 6 پیسے ہے۔ شوگر ملز ایسوسی ایشن نے 2019-20 کی پیداواری لاگت 62 روپے فی کلو ہے۔ جبکہ کمیشن نے 46 روپے 4 پیسے مقرر کی ہے مل مالکان گنا کم قیمت پر خریدتے ہیں اور پیداواری لاگت زیادہ بتاتے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ملز مالکان اپنے نقصانات کو بھی پیداواری لاگت میں شامل کرلیتے ہیں۔ مارکیٹس میں بڑی ٹیکنیک کے ساتھ کمیٹی پڑھائی جاتی ہے جس کا فائدہ بروکر اور ملز مالکان کو ہوتا ہے اور نقصان عوام کو ہوتا ہے جودگنی قیمت اداکرتے ہیں اکائونٹنگ کی مد میں کہا گیا ہے کہ کمیشن کو شواہد ملے ہیں کے ملز مالکان ڈبل بکس رکھے ہوئے ہیں ایک وہ کھاتا ہے جو سرکار کودکھایا جاتا ہے اور دوسرا کھاتہ مالک کو دکھایا جاتا ہے کہ کتنا منافع کمایا جارہا ہے ۔ بے نامی کسٹمر کی مد میں بھی سیل دکھائی گئی ہے تاکہ ٹیکس چوری کیا جاسکے ۔ ملز مالکان نے ایکسپورٹ سبسڈی کی مد میں بھی پیسے کمائے ہیں۔پچھلے 5 سالوں میں 29 ارب روپے کی ایکسپورٹ سبسڈی دی گئی ہے۔2015 میں برآمد کیلئے 6.5 ارپ روپے کی سبڈی دی گئی ۔ 2016 میں 6.5 ارب روپے سبسڈی دی گئی ۔ 2017-18 میں وفاق اور پنجاب نے 15.5 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی ۔9.3 ارب روپے کی اضافی سبسڈی سندھ حکومت نے دی ۔ کمیشن نے رپورٹ میں لکھا ہے کہ اومنی گروپ کو فائدہ دینے کیلئے سبسڈی دی گئی۔ 2019-20 میں اس وفاقی حکومت نے کوئی سبسڈی نہیں دی بکلہ 1.1 ملین میٹرک ٹن کی ایکسپورٹ کی اجازت دی گئی جبکہ پنجاب نے 3 ارب کی سبسڈی دی جس میں 2.4 ارب روپے کی سبسڈی ود ڈرا ہوئی ۔ کل 88 شوگر ملیں ٹوٹل 10 روپے انکم ٹیکس دیتے ہیں۔ 29 ارب روپے کی سبسڈی دی جاتی ہے ۔ 22 ارب روپے کا انکم ٹیکس ہے اس میں سے 12 ارب کا ریفنڈ ہے اس طرح ٹوٹل انکم ٹیکس 10 روپے بنتا ہے۔ یہ وہ کاروبار ہے جو عوام کے دئیے ہوئے ٹیکس سے چل رہا ہے۔ افغانستان کو بھیجی جانے والی چینی کا جو پاکستان کے پاس ڈیٹا ہے اور جو ڈیٹا افغانستان کے پاس ہے کہ پاکستان سے ہمارے ہاں کتنی چینی آئی اس میں اربوں روپے کافرق ہے ۔ کچھ مضحکہ خیز انکشافات بھی سامنے آئے ہیں کہ افغانستان چینی لے جانے والے ٹرکوں پر زیادہ چینی بھیجی جاتی رہی جبکہ ٹرکوں کے پاس پرچی پر کم وزن لکھا ہوا تھا۔ شہزاد اکبر نے کہاکہ افغانستان کی ایکسپورٹ انتہائی مشکوک ہے ۔ انہوں نے کہاکہ کمیشن نے یہ بھی متعین کیا ہے کہ اس وقت شوگر ملیں کارٹل کے طورپر آپریٹ کررہی ہیں ۔ کمپیٹیشن پاکستان کارٹلائزیشن روکنے میں ناکام ہے جب فرانزک آڈٹ کیا گیا جو پتہ چلا کہ 6 بڑے گروپس پاکستان کی 51فیصد چینی کی پیداوار کو کنٹرول کرتے ہیں ان چھ گروپوں میں سب سے بڑا شیئر جیری ڈبلیو کا ہے اس کا چینی کی پیداوار میں 20 فیصد شیئر ہے۔ آروائی کے کا 12فیصد المعز گروپ 6.8 فیصد، تاندلیانوالہ گروپ کا 5فیصد، شریف گروپ کا 4.5 فیصد ہے، اور اومنی کا 1.6فیصد ہے۔ فرانزک آرڈر میں جو مل شارٹ لسٹ کی گئیں ان میں سب سے پہلی مل الائنس جو آروائی کے کی ایک مل ہے۔ مونس الہی کے مختلف کمپنیوں میں 34 فیصد شیئر ہیں اور عمر شہریار کے 20 فیصد شیئر ہیں۔ رپورٹ میں اسد نامی ایک شخص کو کو بروکر دکھایا گیا ہے جس کو 6 ارب روپے رقم مل دے رہی ہے جس کا مل بھی کوئی جواب نہیں دے سکی کہ یہ رقم اس کو کس مد میں دی جارہی ہے۔ اس مل کیخلاف بے نامی سیل کے شواہد ملے ہیں ۔ جیری بڈلیو گروپ میں جہانگیر خان ترین 21فیصد ، علی خان ترین 13فیصد ، احمد محمود 26فیصد شئر ہیں یہ واحد کمٹی ہے جس میں 24فیصد پبلک کا بھی شیئر ہے اس کی بھی ڈبل بک ہے ۔ جیری ڈبلیو نے اپنی کرشنگ کی صلاحیت 64500 ٹی سی ڈی بڑھائی ہے اس کے نقصاء بھی سامنے آئے ہیں ۔ سلیمان شہباز کی العریبیہ شوگر مل کا بھی فرانزک آڈٹ کیا گیا اس میں سلیمان شہباز کے 25 فیصد ،حمزہ شہباز 25 فیصد شیئر ہیں ۔ رمضان شوگر مل میں شہباز شریف کی پوری فیملی کی 100 فیصد شیئر ہولڈنگ ہے اس میں بھی ڈبل اکائونٹنگ اور ڈبل بکنگ بھی رپورٹ کی گئی ہے۔ انہوں نے 2017-18 میں 47 فیصد گنا ظاہر کیا ہے اور 2019-20 میں ان کا اقتدار جاچکا تھا اس کے 78 کروڑ روپے کا گنا کم ظاہر کیا ہے۔پیداوار کی مد میں 93 کروڑ 2019-20 اور1.7 ارب روپے 2017-18 میں ظاہر کیا ہے کسانوں کو 40 کروڑ روپے کم دیا گیا ۔وہاں کچی پرچی کا رواج بھی ہے۔ دیگر شواہد بھی ملے ہیں۔ المعز ون اور ٹو ملز میں شمیم خان اور نعمان خان کے 96 فیصد شیئر ہیں۔ 2018-19 میں کسانوں کو 610 ملین کا خسارہ دیا گیا۔ اس طرح 2017-19 کو تقریباً 430 ملین کا نقصان دیا گیا ہے۔ غریب کسانوں سے 13 کروڑ روپے اضافی کمائے گئے شواہد ملے ہیں۔ حمزہ مل کی اونر شپ میاں محمد طیب گروپ آف انڈسٹری ہے۔ انہوں نے بھی 2017-18 میں کسانوں کو 820 ملین ادا کرنے ہیں ۔ بے نامی سیل آف دی ایک سیل ہیں 2017-18 میں ایک ارب روپے کی چینی آف دا ایک پیدا کی گئی اور بیچی گئی ، ہنزا گروپ نے بھی اپنی صلاحیت بڑھا رکھی ہے۔ انہوں نے بھی 140 روپے فی مائونٹ ادا کرتے ہیں بے نامی سیل آف دا کپ سیل ہولڈنگ پاور سیل اور سٹہ میں بھی ملوث ہونے کے کمیشن کو شواہد ملے ہیں۔ رپورٹ میں ایف بی آر،اسٹیٹ بینک ، ایس سی سی پی ، سی سی پی ، ایف ایم یو کے کردار کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان کو درست سمت میں ڈالنے کی ضرورت ہے۔ اس قسم کی سفارشات ہیں جب تک اداروں کی رضا مندی نہ ہو کسی صورت ممکن ہی نہیں ہے ایک سوال کے جواب میںخسرو بختیارکے بھائی کے پاس کوئی سیاسی عہدہ نہیں، خسرو بختیار کو عہدہ چھوڑنے کا نہیں کہہ سکتے۔معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ کمیشن نے کیسز نیب، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن کو بھجوانے کی سفارش کی ہے۔ کابینہ نے نظام کو فعال اور اداروں کو متحرک کرنے کی منظوری جبکہ دیگر ملز کا بھی فورنزک آڈٹ کرنے کی ہدایت دی۔انہوں نے کہا کہ کابینہ نے ریکوری کرکے پیسے عوام کو دینے کی سفارش کی۔ کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں آنے والے دنوں میں ایکشن ہوگا۔ وزیراعظم نے ہدایت دی ہیں کہ مفادات کے ٹکرا سے متعلق فوری قانون سازی کی جائے۔ خیال رہے کہا اس سے قبل فیڈرل انوسٹی گیشن کے ڈائریکٹر جنرل واجد ضیا نے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے دوران وزیراعظم کو شوگر انکوائری کمیشن کی فرانزک رپورٹ پیش کرتے ہوئے انھیں اس معاملے پر بریفنگ بھی دی۔انکوائری کمیشن کی رپورٹ کے لیے 25 اپریل کی پہلی ڈیڈ لائن دی گئی تھی تاہم کمیشن کی استدعا پر کابینہ نے مدت میں توسیع کی۔ توسیع کے بعد رپورٹ مئی کے تیسرے ہفتے میں آنی تھی لیکن ایک بار پھر مزید مہلت مانگی گئی جس کے بعد انکوائری کمیشن کو جمعرات تک کی مہلت دی گئی تھی۔یہ بھی خیال رہے کہ انکوائری کمیشن چینی سبسڈی کے معاملے وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار، وفاقی وزیر اسد عمر اور مشیر تجارت عبدالرزاق داد اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی پیش ہو چکے ہیں۔ ۔