اسلام آباد(ویب ڈیسک)
وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی اسد عمر نے خبردار کیا ہے کہ ابھی یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں کہ کورونا ختم ہوگیا،کورونا کا پھیلا روکنے کیلئے اب پہلے سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے اور اب ہم اسمارٹ لاک ڈاون کے بعد مائیکرو اسمارٹ لاک ڈاون کی طرف جارہے ہیں۔اسلام آباد میں میڈیا بریفنگ دیتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ ہم کورونا سے متاثرہ افراد کے پاس جلدی پہنچے، ایک بیمار آدمی سے ہم 10.8 کنٹیکٹ پرسن تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے اس لیے وبا زیادہ نہیں پھیلی لیکن ابھی یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں کورونا وبا ختم ہوگئی ہے۔وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ بجائے پورا ملک بند کرنے کے اسمارٹ لاک ڈاون کی پالیسی اپنائی، 2350 سے زائد مقاما ت پر اسمارٹ لاک ڈاون کیا گیا اور اس وقت 20 اضلاع میں اسمارٹ لاک ڈاون جاری ہے۔انہوں نے کہا کہ کورونا کا معاملہ صرف صحت کا مسئلہ نہیں، ملک کے بڑے حصے کو بند کرنے سے ایکسپورٹ میں 40 فیصد کمی ہوئی، ریونیو کے محصولات میں بھی 40 فیصد کمی نظر آئی جس کا مطلب 40 فیصد روزگار کم ہونا ہے۔آئندہ کے لائحہ عمل پر روشنی ڈالتے ہوئے اسد عمر نے بتایا کہ اسمارٹ لاک ڈاون کے بعد اب ہم مائیکرو اسمارٹ لاک ڈاون کی طرف جارہے ہیں، کوشش ہے کہ متاثرہ افراد کو عمارت اور گھروں میں آئسولیٹ کیا جائے۔وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ہمارے مشرق اور مغرب میں کورونا کی صورتحال خراب ہے، بھارت میں پاکستان کے مقابلے میں کورونا سے 10گنا زیادہ اموات ہوئیں، بنگلا دیش میں پاکستان کے مقابلے میں کورونا سے 3 گنا زیادہ اموات ہوئیں اس لیے ہمیں بھی احتیاط کی ضرورت ہے۔اسد عمر نے مزید کہا کہ یو این جنرل اسمبلی کے صدر بھی کہہ رہے ہیں دنیا کو پاکستان سیکھنا چاہیے اور بل گیٹس بھی کہہ رہے ہیں کہ کورونا میں پاکستان نے بہتر کام کیا۔ان کا کہنا تھا کہ کورونا کے خلاف سب سے طاقتور چیز عوام کو رویہ ہے، عوام کی بڑی تعداد نے کورونا پر قابو پانے میں حکومت کی مدد کی،وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ جون کے وسط میں لندن کے امپیریئل کالج کی تحقیق بہت مشہور ہوئی جس میں بہت خوفناک اور دل کو دہلا دینے والی پیش گوئیاں تھیں، اس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں سب سے زیادہ اموات 10 اگست کو ہوں گی اور اس ایک دن میں 78 ہزار سے زائد پاکستانی کورونا کی وجہ سے جاں بحق ہو جائیں گے اور میں نے اس وقت بھی کہا تھا کہ اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہو گا۔ان کا کہنا تھا کہ امپیریئل کالج کی تحقیق کے برعکس 10 اگست کو پاکستان میں 15 افراد کورونا کی وجہ سے جاں بحق ہوئے اور یہ اموات بھی افسوسناک ہیں، ایسا نہیں کہ اب ہم فتح کا اعلان کر کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں۔انہوں نے وبا پر قابو پانے میں کامیابی کی وجوہات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ماہ اپریل میں ایک جامع منصوبہ بنایا گیا اور ہم ان لوگوں تک پہنچنے میں کامیاب رہے جن کے وائرس سے ہلاک ہونے کا زیادہ خطرہ تھا اور کانٹیکٹ ٹریسنگ کی بنیاد پر ہم 11 لاکھ کانٹیکٹس کا پتا لگانے میں کامیاب رہے۔وزیر منصوبہ بندی کا کہنا تھا کہ ان میں سے 10 لاکھ سے زائد کے ٹیسٹ کیے گئے، ساڑھے 10فیصد اس میں ٹیسٹ مثبت آنے کی شرح تھی، یعنی اب تک پاکستان میں جو 2 لاکھ 85 ہزار کیسز مثبت آئے ہیں ان میں سے ایک لاکھ اس کانٹیکٹ ٹریسنگ کی بدولت سامنے آئے۔ان کا کہنا تھا کہ اس کی بدولت ہم ان تک جلدی پہنچے، انہیں علاج کرانے کا فائدہ ہوا، اموات بھی ہوئیں اور جب انہیں پتا چلا کہ وہ بیمار ہیں تو انہوں نے بھی احتیاط کی جس سے بیماری نہیں پھیلی۔اسد عمر نے کہا کہ مجموعی طور پر پاکستان میں جو 48 فیصد ٹیسٹ کیے گئے ہیں اور 38 فیصد جو مجموعی طور پر مثبت کیسز سامنے آئے ہیں وہ سب اس کانٹیکٹ ٹرینسنگ کی بدولت ممکن ہو سکا۔انہوں نے انکشاف کیا کہ ہم ایک بیمار آدمی سے 10.8 بیمار آدمیوں تک پہنچنے میں کامیاب رہے ہیں اور جنوبی کوریا جسے کانٹیکٹ ٹریسنگ کے نظام کا رول ماڈل تصور کیا جاتا ہے، ہمارے ہاں بھی وہی شرح ہے۔انہوں نے کہا کہ دنیا کا امیر ترین ملک بھی مکمل طور پر لاک ڈان کا متحمل نہیں ہو سکتا، اس لیے ہم اسمارٹ لاک ڈاون کا نظام لے کر آئے،ان کا کہنا تھا کہ ہمارا اگلا ہدف مائیکرو اسمارٹ لاک ڈاون ہے جس میں ہم بڑے علاقے بند کرنے کے بجائے ٹارگیٹڈ ایریاز میں قریب قریب گھروں، سہ منزلہ عمارتوں یا محلے کو بند کر کے لاک ڈاون پر جائیں گے اور 7 ہزار سے زائد فعال کیسز کی وجہ سے ہماری کوشش ہو گی کہ ان کی ہوم آئسولیشن پر کام کیا جائے۔وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ اس کامیابی کا اہم عنصر پاکستان کے عوام تھے، ہم نے جتنے بھی اقدامات اٹھائے وہ کسی بھی طور پر کامیابی نہ ہوتے اگر عوام ہم سے تعاون نہ کرتے اور میں میڈیا کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جس نے تاریخی طریقے سے عوام تک پیغام پہنچایا۔ان کا کہنا تھا کہ یہ جو بہتری نظر آ رہی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت اور عوام نے درست فیصلے کیے اور اس پر درست انداز میں عمل کیا اور اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو اس کے لیے خطے پر نظر دوڑا کر دیکھتے ہیں۔اسد عمر نے پاکستان کے پڑوسی ممالک سے کورونا کا تقابلہ جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں 3 فیصد لوگوں میں کورونا مثبت آ رہا ہے، ایران میں یہ شرح 9.4 اور بھارت میں 9.8 فیصد ہے، یعنی یہ شرح تین گنا سے زیادہ ہے جبکہ بنگلہ دیش میں 23 سے 24 فیصد شرح چل رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس طرح اگر ہم اموات پر نظر ڈالیں تو پچھلے 10-12 دنوں میں پاکستان کے مقابلے میں ایران میں 20 گنا زیادہ اموات ہو رہی ہیں، بھارت میں پاکستان کے مقابلے میں چار سے پانچ گنا زیادہ اموات ہوئی ہیں اور اگر ہم کل کے اعدادوشمار دیکھیں تو آبادی کے تناسب کے لحاظ سے بھارت میں 10گنا زیادہ اموات ہوئی ہیں۔انہوں نے کہا کہ اسی طرح بنگلہ دیش میں 2 گنا زیادہ اموات ہوئی ہیں اور اگر کل کے اعدادوشمار نکال کر دیکھیں تو تین گنا زیادہ اموات ہوئی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ عوام کو یہ اعدادوشمار بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اگر آپ کے مشرق اور مغرب میں یہ ہو رہا ہے، تو یہ نہ سمجھیں کہ پاکستان کورونا سے مکمل طور پر محفوظ ہے اور ہم جو بھی کریں گے تو ہمیں بیماری سے اثر نہیں ہو گا۔اس موقع پر انہوں نے سیاحتی مقامات پر عوام کے رویے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کورونا جو اتنی مشکل سے پھیلنا کم ہوا تھا، یہ بداحتیاطی کی صورت میں دوبارہ بڑھ بھی سکتا ہے۔اسد عمر نے کہا کہ احتیاط اس لیے ضروری ہے کہ یہ صرف صحت کا مسئلہ نہیں ہے، جب یہ کورونا آیا تو ہماری برآمدات میں 40 فیصد سے زائد کمی آئی، ریونیو کے محصولات میں بھی 40 فیصد کی کمی نظر آئی، یہ 40 فیصد ملک کا روزگار ہے، یہ کروڑوں لوگوں کی زندگی کی آمدنی ہے۔انہوں نے لوگوں سے اپیل کی کہ احتیاط کریں، ماسک پہنیں، دوسروں سے فاصلہ رکھیں اور اگر کسی مذہبی تقریب میں بھی جا رہے ہیں تو احتیاط کے ساتھ اپنے فرائض ادا کریں