کویٹہ (ویب ڈیسک)
بلوچستان کی جیلوں میں اب بھی انگریز دور کے قوانین نافذ العمل ہیں، قیدیوں کو غیرمعیاری کھانے کی فراہمی کی شکایات عام جبکہ جیلوں میں صحت اور دیگر سہولیات کا فقدان ہے، صوبائی حکومت نے جیل مینوئل میں تبدیلی اور اصلاحات کا فیصلہ کرلیا۔
بلوچستان کی 11جیلوں میں 2200 سے زائد قیدی پابند سلال ہیں،صوبے کی کوئٹہ جیل جہاں ساڑھے چار سو قیدیوں کی گنجائش ہے لیکن اس کے برعکس وہاں 800 کے لگ بھگ قیدی رکھے گئے ہیں، جیلوں میں قیدیوں کو ناقص کھانے کی فراہمی،صحت ،رہائش اور قیدیوں سے رقم کی وصولی کی شکایات زبان زد عام تو تھیں ہی،مگر اب تو ان شکایات کے چرچے صوبائی اسمبلی میں بھی ہونے لگے۔
700 قیدی اور 30 کلو گوشت ہو تو قیدیوں تک کتنا گوشت پہنچ پائے گا، پھر وہاں پر ملنے والی روٹی اور ناشتہ بھی غیر معیاری ہوتا ہے۔
بلوچستان کی جیلوں میں اب بھی انگریز دور کے جیل مینوئل پر عمل کیا جارہا ہے جبکہ دیگر صوبے اس میں تبدیلیاں لاچکے ہیں۔
جیل کے عملے کو جو فنڈز دیئے جارہے ہیں کھانے کے حوالے سے وہ پیسہ کہاں جارہا ہے؟
قیدیوں کی حالت زار کے حوالے سے اراکین اسمبلی کی شکایات کے جواب میں صوبائی وزرا کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت جیل مینوئل میں بہتری کے علاوہ جیلوں میں اصلاحات کے پروگرام پر کام کررہی ہے، بلیلی یا دشت میں ایک بڑی جیل کے قیام کی تجویز بھی زیر غور ہے۔
انسانی حقوق کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جیل مینوئل میں تبدیلی، قیدیوں کو سہولیا ت کی فراہمی کے ساتھ جیلوں میں ماہر نفسیات کی تعیناتی ضروری ہے، اس کے ساتھ جیل وارڈنز کی تنخواہوں میں معقول اضافہ اور ان کی تربیت جیلوں کے ماحول کو بہتر کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔