سینیٹ انتخابات میں منڈیاں لگتی ہیں۔ شاہ محمود قریشی
میثاق جمہوریت میں اوپن بیلٹ سے سینیٹ انتخابات کرانے پر اتفاق کیا گیا تھا
ن لیگ اور پیپلزپارٹی میثاق جمہوریت سے کیوں راہ فرار اختیار کررہی ہیں
اوپن بیلٹ سے انتخاب کے لئے عدالتی فیصلے کے منتظر ہیں، ملتان میں میڈیا سے گفتگو
ملتان(ویب نیوز) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ سینیٹ کے انتخابات میں خریدوفروخت کی منڈیاں روکنے کی کوشش کررہے ہیں، اوپن بیلٹ سے انتخاب کے لئے عدالتی فیصلے کے منتظر ہیں، جوبھی فیصلہ آیا کھلے دل سے تسلیم کیا جائے گا،اپوزیشن میثاق جمہوریت میں اوپن بیلٹ سے سینیٹ انتخابات کرانے کے اتفاق سے منحرف نہ ہو ، ن لیگ اور پیپلزپارٹی میثاق جمہوریت سے کیوں راہ فرار اختیار کررہی ہیں ۔ گزشتہ روز ملتان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہاکہ پورا پاکستان جانتا ہے کہ سینیٹ کے انتخابات میں خریدوفروخت ہوتی ہے۔ پچھلے انتخاب میں منڈیاں لگائی گئیں ضمیروں کے خریدار میدان میں اتر آئے اور انہوں نے ایم پی ایز کو خریدنے کی منڈی لگائی ۔ وزیراعظم عمران خان اور تحریک انصاف نے اس کا نوٹس لیا کہ یہ روایت درست نہیں ہے۔ اگر منتخب نمائندگان اپنا ووٹ بیچیں گے تو یہ عوام کے اعتماد کے سودے کے مترادف ہے۔ یہ ان کے شایان شان نہیں ہے لوگ ان پر اعتماد کرکے ایک نظریے کے تحت ایک پارٹی کے پلیٹ فارم پر انہیں منتخب کرکے لائے ہیں ۔ پی ٹی آئی کے لوگ بلے کے نشان پر منتخب ہوکر آئے ہیں تو ہمارا اخلاقی فرض بنتا ہے کہ ہم بلے کے نامزد امیدواروں کوووٹ دیں۔ اس کے علاوہ ووٹ دینا مناسب نہیں ہے۔ ن لیگ والے ن اور پیپلزپارٹی والے پیپلزپارٹی کے نامزد امیدواروں کو بے شک ووٹ دیں مگر جو منڈی لگتی ہے اس منڈی کو بند ہونا چاہیے۔ تحریک انصاف کا یہی موقف ہے بلکہ یہ صرف تحریک انصاف کا ہی موقف نہیں ہے چارٹر آف ڈیمو کریسی میں پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے متفقہ طورپر شق 24 میں کہہ رکھا ہے کہ اوپن بیلٹ ہونا چاہیے۔ آج پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی قیادت سے میرا سوال ہے کہ جب آپ نے ایک لکھا ہوا معاہدہ کیا ہوا ہے آپ کے دستخط موجود ہیں اور آپ نے اوپن بیلٹ کی حامی بھری پھر آج آپ اس سے راہ فرار کیوں اختیار کررہے ہیں ۔ یہ قوم جاننا چاہتی ہے ۔ یہ بحث بھی چلی کہ اس کیلئے آئینی ترمیم درکار ہے۔ کچھ ماہرین نے کہاکہ آئینی ترمیم درکار نہیں ہے ۔ وزیراعظم اور ہم نے کہاکہ آئین کی تشریح کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس ہے ۔آئیے ہم سپریم کورٹ کے پاس چلے جاتے ہیں اور اس کی خدمت میں گزارش کرتے ہیں کہ آپ آئین کی تشریح کرکے ہماری رہنمائی فرمائیں کہ کیا آپ کی رائے میں آرٹیکل 226 کا اس پر نفاذ ہوتا ہے یا نہیں۔ اب سپریم کورٹ کیس سن رہی ہے سپریم کورٹ کا جو بھی فیصلہ ہوگا ہم اس کو کھلے دل سے تسلیم کریں گے۔ میرا سوال یہ ہے کہ جب پیپلزپارٹی اور ن لیگ چارٹر آف ڈیمو کریسی میں قوم سے وعدہ کرتی ہے ۔جب سینیٹ کے اجلاس میں بحث ہوتی ہے اور قوم سے وعدہ کرتے ہیں اب اپنے وعدے سے منحرف کیوں ہورہے ہیں۔ وہ منڈی کیوں لگانا چاہتے ہیں ۔وہ لوگوں کے ضمیر کو کیوں خریدنا چاہتے ہیں۔ وہ پارٹی کی طاقت کے مطابق ووٹوں کا استعمال کیوں نہیں ہونے دیتے یہ ہمارا موقف ہے ۔ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ آئینی ترمیم کے لئے ہمارے پاس دو تہائی اکثریت نہیں ہے۔ ہم نے ان کی بات کو سامنے رکھتے ہوئے آئینی ترمیم اسمبلی میں لے کر گئے ہیں ۔ان سے درخواست کی ہے کہ یہ آپ کا موقف ہے آپ اپنے موقف کے مطابق ہمیں دو تہائی اکثریت دیں ۔اگر آئینی ترمیم درکار ہے تو ہم وہ بھی کرنے کو تیار ہیں۔ہم سپریم کورٹ کے فیصلے کے انتظار کیلئے بھی تیارہیں۔ آپ ایسا کرنے دیجئے بدقسمتی سے انہوں نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ پوری قوم دیکھ لے کہ کون ہے جو کرپٹ پریکٹسز کوختم کرنا چاہتے ہیں اور کون ہے جو خریدوفروخت کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ ہمارے پاس دو تہائی اکثریت نہیں ہے لیکن ہم نے درخواست سپریم کورٹ اورعوام کی کچہری میں پیش کردی ہے ۔جو فیصلہ آئے گا ہم اس کو سرخم تسلیم کریں گے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ مہنگائی کوکم کرنے کے بہت سے فورم ہیں سینیٹ ایک ایسا ادارہ ہے جو وفاق کی علامت ہے اور سینیٹ میں ہر اس مسئلے کو اٹھایا جاتا ہے یا اٹھایا جانا چاہیے جو وفاق کی ضروریات ہیں ۔میں توقع کرتا ہوں کہ ہمارے جو سینیٹرز منتخب ہوکر آئیں گے وہ وفاق کو مضبوط کریں گے ۔کیونکہ ہمارے علم ہے کہ ایسی قوتیں ہیں جن کوکئی دیگر طاقتوں کی پشت پناہی ہے جو پاکستان میں انتشار پھیلانا چاہتی ہیں۔ جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتی ہیں جو پاکستان میں دہشت گردی کی پشت پناہی کررہی ہیں۔ جو پاکستان میں معیشت کو مستحکم نہیںدیکھنا چاہتیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ سینیٹ کا ایوان ان قوتوں کو شکست دینے میںمعاون ثابت ہوگا اور آئین کے تحفظ میں اپناکردارادا کرے گا۔