راولپنڈی (ویب ڈیسک)
ترجمان پاک فوج میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا ہے کہ فوج میں اعلیٰ سطح کی تقرریوں سے متعلق قیاس آرائی نہ کی جائے۔
آپریشن ردالفساد سے متعلق پریس بریفنگ کے دوران میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ 22 فروری 2017 کو آرمی چیف کی قیادت میں آپریشن ردالفساد کا آغاز کیا گیا، آپریشن ردالفساد کو آج 4 سال مکمل ہوچکے ہیں، آپریشن رد الفساد 2 نکاتی حکمت عملی کے تحت کیا گیا، اس آپریشن کا مقصد عوام کا ریاست پراعتماد بحال کرنا اور دہشت گردوں کو مکمل غیر موثر کرنا تھا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ طاقت کا استعمال صرف ریاست کی صوابدید ہے، آپریشن ردالفساد کا محورعوام تھے، اس کا دائرہ پورے ملک پر محیط تھا، ہر پاکستانی اس آپریشن کا حصہ اور اس کا سپاہی ہے، دہشت گردوں نے پاکستان کے طول و عرض میں پناہ لینے کی کوشش کی، دہشت گردوں نے پاکستان میں زندگی مفلوج کرنے کی ناکام کوشش کی۔
ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں 3لاکھ سے زائد انٹیلی جنس بنیاد پر آپریشن کیے جاچکے، سندھ میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد انٹیلی جنس بنیاد پر آپریشن کیےگئے، پنجاب میں 34 ہزارانٹیلی جنس بنیاد پر آپریشن کیےگئے، گوادر میں ہوٹل پر حملے کے دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا، کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملے کو ناکام بنایا گیا، 750 مربع کلومیٹر سے زائد علاقے پر ریاست کی رٹ بحال کی۔ 4 سال میں 353 دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا جب کہ سیکڑوں کو گرفتارکیا۔
ترجمان پاک فوج نے کہا کہ عوام کی حمایت یا عزم نہ ہوتا تو یہ جنگ نہیں لڑی جا سکتی تھی، خفیہ اداروں نے سخت محنت سے بڑے دہشت گردنیٹ ورک پکڑے، 78 سے زائد دہشت گرد تنظیموں کے خلاف موثر ایکشن کیا گیا، دہشت گردوں کے اثاثوں کو منجمد کیا گیا، پیغام پاکستان نے شدت پسندی کے بیانیے کو بڑی حد تک شکست دی، 4 سال کے دوران 1200سے زائد شدت پسندہتھیار ڈال چکے، شدت پسندی کی جانب مائل 5 ہزار افراد کو معاشرے کا کارآمد حصہ بنایا گیا۔
میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ آپریشن ردالفساد صرف فوجی آپریشن نہیں تھا، مدارس اصلاحات اور سابق فاٹا کا خیبر پختونخوا سے انضمام آپریشن ردالفساد کے ثمرات ہیں، پچھلے ایک سال ہم قدرتی آفات سے بھی نبردآزما تھے، کورونا کا مقابلہ حکمت عملی اور دانشمندی سے کیا، قدرتی آفات کے دورا ن بھی آپریشن ردالفساد نہیں روکا گیا، دہشت گردی کے خاتمے کے بعد معاشی بہتری بھی سامنے آئی آج ملک میں کھیلوں کے میدان آباد ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے کے بعد معاشی بہتری بھی سامنے آئی ہے، وہ علاقے جو دہشت گردی کا شکار تھے اب وہاں اقتصادی سرگرمیاں جاری ہیں، گوادر، شمالی علاقے اور کےٹو دنیا کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ امن کا سفر جاری ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت تمام اہداف حاصل کرلیں گے۔
میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات اور شدت میں کمی آئی ہے، ہرسانحے کو دہشت گردی کے تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے، قبائلی اضلاع کا اپنا کلچر ہے ، وہاں کے مسائل کے حل میں وقت لگے گا۔ وہاں پولیسنگ معمول پر آنے پر دہشت گرد واقعات میں کمی آجائےگی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان کے پچھلے چار سال کے سفر کوہر سطح پر تسلیم کیا جارہا ہے، ایف اے ٹی ایف پر ان کی آبزرویشنز پر بڑا کام کیا گیا، ایف اے ٹی ایف کے معاملے پر بہت پرامید ہیں۔
افغان امن عمل کے حوالے سے ترجمان پاک فوج نے کہا کہ ہمیں اس بات کا ادراک ہے کہ افغانستان کے امن سے پاکستان کا امن جڑا ہے،افغان امن عمل میں پاکستان کی واحد دلچسپی افغانستان میں امن کا قیام ہے، افغان امن عمل میں پاکستان کسی فریق کی حمایت نہیں کررہا۔
پاک فوج میں اعلیٰ سطح پر تقرریوں اور تبادلوں سے متعلق پوچھے گئے سوال پر ترجمان پاک فوج نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری سے متعلق خبریں بےبنیاد ہیں، فوج میں اعلیٰ سطح کی تقرریوں سے متعلق قیاس آرائی نہ کی جائے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ سوشل میڈیا پر پاکستان مخالف پروپیگنڈا روکنے کے لیے قابل ذکر اقدامات کیے ہیں، سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد کے خلاف کام کیا جارہا ہے، ہم مرحلہ وار اور حکمت عملی سے کام کررہے ہیں، عوام کے تعاون سے ہر چیلنج پر قابو پائیں گے۔