چیئرمین نیب کا رنگ روڈ راولپنڈی منصوبے میں مبینہ بد عنوانی کی تحقیقات کا حکم
چیئرمین نیب نے ہدایت کی کہ منصوبے کے تمام پہلوئوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ذمہ داران کا تعین کیا جائے، ترجمان
اسلام آباد(ویب نیوز) قومی احتساب بیورو (نیب)کے چیئرمین جسٹس (ر)جاوید اقبال نے رنگ روڈ راولپنڈی منصوبے میں مبینہ طور پر اربوں روپے کی بد عنوانی، بے ضابطگیوں اور غیر قانونی لینڈ ایکوزیشن کا نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دے دیا۔لے لیا۔ترجمان کے مطابق چئیرمین نیب نے ہدایت کی کہ رنگ روڈ راولپنڈی منصوبے کی بلاامتیاز، میرٹ اور شفاف تحقیقات کی جائیں۔چیئرمین نیب نے ہدایت کی کہ منصوبے کے تمام پہلوئوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ذمہ داران کا تعین کیا جائے۔چئیرمین نیب نے کہا کہ نیب کا ایمان کرپشن فری پاکستان ہے۔ نیب احتساب سب کے لئے کی پالیسی پر سختی سے قائم ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیب کے پاس بد عنوان عناصر کے خلاف اربوں روپے کی منی لانڈرنگ،فیک بینک اکائونٹس، آمد ن سے زائد اثاثے، اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے قومی خزانہ کو نقصان پہنچانے اور غیر قانونی ہاسنگ سوسائٹیوں کے ذریعے قوم کے اربوں روپے لوٹنے والوں کے خلاف ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ نیب نے گزشتہ تین سال میں بد عنوان عناصر سے 490 ارب روپے جبکہ اپنے قیام سے اب تک 790 ارب روپے بلاواسطہ اور بالواسطہ برآمد کیے جو کہ ایک ریکارڈ کامیابی ہے۔جسٹس(ر)جاوید اقبال نے کہا کہ نیب کا تعلق کسی پارٹی، گروپ اور فرد سے نہیں بلکہ صرف اور صرف ریاست پاکستان سے ہے۔ نیب ملک اور قوم کی دولت لوٹنے والے بد عنوان عناصر کو قانون کے مطابق منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے پر عزم ہے۔خیال رہے کہ راولپنڈی رنگ روڈ اسکینڈل انکوائری مکمل کرنے کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ رنگ روڈ کے اصل نقشے کو تبدیل کر دیا گیا اور اس میں مزید نئے راستے شامل کردیے گئے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ان نئے راستوں کا انتخاب ان چند اہم شخصیات کو فائدہ پہنچانے کیلئے کیا گیا، جن کی زمینیں اس راستے پر آتی تھیں جبکہ نئے راستے شامل کرنے پرلاگت میں مزید 25 ارب روپے اضافہ ہو رہا تھا۔ذرائع کے مطابق اطلاعات ملی تھیں کہ منصوبے کی لاگت میں 25 ارب روپے اضافہ کیا گیا،کچھ بااثر سیاستدانوں اور مفادپرست گروہوں کے کہنے پر نجی ہاسنگ سوسائٹیز کو فائدہ دینے کیلئے حدبندی تبدیل کی گئی۔85 کلومیٹر طویل راولپنڈی رنگ روڈ کی تعمیر پر ابتدائی تخمینہ 40 ارب روپے تھا۔راولپنڈی رنگ روڈ اسکینڈل سامنے آنے پر کمشنر کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی قائم کی گئی جس کے سربراہ کمشنر گلزار شاہ کے دستخط کے ساتھ رپورٹ حکومت کو بھیج دی گئی ہے۔رپورٹ میں سابق کمشنر راولپنڈی محمد محمود اور لینڈ ایکوزیشن کلیکٹر وسیم علی تابش کو ذمہ دار قرار دیا گیا ہے اور دونوں کا کیس نیب بھجوانے کی سفارشات پیش کی گئی ہیں، دونوں افسران پر الزام ہے کہ انہوں نے غیر قانونی لینڈ ایکوزیشن پر 2 ارب 30 کروڑ روپے تقسیم کیے، اتنی بڑی رقم کی ادائیگی اٹک لوپ کے رینٹ سینڈیکیٹ کو فائدہ پہنچانے کیلئے کی گئی۔