کیا ضمانت کے دوران بیرونِ ملک جانے پر پابندی ہے؟ ،ایف آئی اے سمیت سب کو عدالتی حکم کا علم تھا لیکن عمل نہیں کیا گیا،جسٹس اعجاز الاحسن
شہباز شریف نے ہائیکورٹ سے درخواست واپس لے لی ، وفاق کی اپیل کیسے سنی جا سکتی ہے،جسٹس سجاد علی شاہ
درخواست واپس لینے کے حکم میں بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کا فیصلہ واپس نہیں لیا گیا،اٹارنی جنرل
شہباز شریف کا بیرونِ ملک جانے کا معاملہ تو ختم ہو گیا، اب دیکھنا یہ ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے حکم کی توہین ہوئی یا نہیں،جسٹس سجاد علی شاہ
اٹارنی جنرل کی نیب کو نوٹس جاری کرنے کی استدعا مسترد ،یہمعاملہ بعد میں دیکھیں گے،عدالت ، فریقین کو نوٹس ، سماعت 2جون تک ملتوی
اسلام آباد (ویب ڈیسک)
سپریم کورٹ نے مسلم لیگ ن کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کے بیرون ملک جانے سے متعلق حکم کیخلاف وفا ق کی اپیل ابتدائی سماعت کیلئے منظور کر لی،عدالت نے شہباز شریف کو نوٹس جاری کرتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ سے مقدمے کا ریکارڈ طلب کر کے سماعت 2جون تک ملتوی کردی،جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ بادی النظر میں حکومت نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی توہین کی۔منگل کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل 2رکنی بینچ نے شہباز شریف کو بیرون ملک جانے دینے سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت کی اپیل پر سماعت کی۔دوران سماعت جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ شہباز شریف کی درخواست پر ہائی کورٹ کی 7 مئی کی مہر لگی ہے، جس پر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ مہر کے حساب سے تو درخواست دائر بھی اسی دن ہوئی جب حکم دیا گیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اتنی جلدی میں سارا کام کیسے ہو سکتا ہے؟ انتہائی ارجنٹ درخواست پر چیف جسٹس کی باقاعدہ تحریر ہوتی ہے۔جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ شہباز شریف نے ہائی کورٹ سے درخواست واپس لے لی ہے، درخواست واپس ہونے پر وفاق کی اپیل کیسے سنی جا سکتی ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ درخواست واپس لینے کے حکم میں بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کا فیصلہ واپس نہیں لیا گیا، شہباز شریف کی توہین عدالت کی درخواست زیرالتوا ہے، توہین عدالت درخواست کے ذریعے بیرون ملک روانگی کے فیصلے پر عمل کرایا جا سکتاہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ حکومتی اداروں نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف اقدام کیا، بادی النظر میں حکومت نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی توہین کی۔ شہباز شریف رکن پارلیمان اور اپوزیشن لیڈر ہیں، تمام اراکین اسمبلی کا احترام ہے ، کیا شہباز شریف کو کوئی میڈیکل ایمرجنسی تھی جو اتنی جلدی سماعت ہوئی؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ شہباز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت مسترد ہوئی تھی، ایسا کوئی ریکارڈ نہیں کہ شہباز شریف کو ایمرجنسی تھی، لاہور ہائی کورٹ نے تو وفاق کا موقف بھی نہیں سنا، بلکہ یکطرفہ حکم دے کر عملدرآمد کے لئے بھی زور دیا گیا،شہباز شریف بطور اپوزیشن لیڈر قابل احترام ہیں لیکن انصاف قانون کے مطابق ملنا چاہئے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا ضمانت کے دوران بیرونِ ملک جانے پر پابندی ہے؟۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر کوئی قانونی پابندی نہ ہو تو جیل سے سیدھا ایئر پورٹ جایا جا سکتا ہے، شہباز شریف کے بقول ان کا نام بلیک لسٹ میں تھا، وفاق کا موقف سنا جاتا تو آگاہ کر دیتے کہ نام بلیک لسٹ میں نہیں ہے، شہباز شریف کا نام اب ای سی ایل میں شامل کیا گیا ۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ حیرت ہے کہ ہائی کورٹ نے فریقین کو سنے بغیر فیصلہ کیسے دے دیا۔جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ شہباز شریف کا بیرونِ ملک جانے کا معاملہ تو ختم ہو گیا، اب دیکھنا یہ ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے حکم کی توہین ہوئی یا نہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ توہینِ عدالت سے متعلق کوئی حتمی عدالتی نظیر موجود نہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ایف آئی اے سمیت سب کو عدالتی حکم کا علم تھا لیکن عمل نہیں کیا گیا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ نیب میں کیسز چل رہے ہیں لیکن اسے فریق نہیں بنایا گیا، عدالت پراسیکیوٹر جنرل نیب کو بھی نوٹس جاری کرے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیس کا ریکارڈ آ جائے پھر نیب کو نوٹس کرنے کا معاملہ دیکھیں گے۔اس کے ساتھ ہی عدالتِ عظمی نے اٹارنی جنرل کی نیب کو نوٹس جاری کرنے کی استدعا مسترد کر دی اور کہا کہ نیب کو نوٹس جاری کرنے یا نہ کرنے کا معاملہ بعد میں دیکھیں گے۔اٹارنی جنرل کا موقف سننے کے بعد سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی اپیل ابتدائی سماعت کے لئے منظور کر لی، سپر یم کورٹ نے شہباز شریف کی بیرون ملک روانگی کیس میں ہائیکورٹ سے ریکارڈ طلب اور مقدمے کے فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 2جون تک ملتوی کردی۔