دہلی پولیس کا ٹویٹر کے دفتر پر چھاپہ
سچ کو شکست نہیں دی جا سکتی ، یہ  بی جے پی کی کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کی یہ ایک ناکام کوشش ہے،اپوزیشن جماعت کانگریس

نئی دہلی (ویب  نیوز)بھارتی دارالحکومت دہلی کی پولیس ایک بڑی ٹیم کے ساتھ معروف سوشل میڈیا ٹویٹر کے دفتر پر پہنچی جہاں اسے اس بات پر بڑی مایوسی ہوئی کہ اس کے ہاتھ کچھ بھی نہیں لگا۔ کورونا کی وبا کی وجہ سے بیشتر ملازمین اپنے گھروں سے کام کر رہے ہیں اور دفتر میں ایک دو افراد کے علاوہ کوئی بھی موجود نہیں تھا۔بھارتی میڈیا کے مطابق اس سے متعلق فوٹیج میں دہلی پولیس کی ایک ٹیم کو بڑے ڈرامائی انداز میں دفتر کے اندر گھومتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ میڈیا کے استفسار پر پولیس نے کہا کہ یہ ایک معمول کی کارروائی ہے اور وہ ٹویٹر کے کسی مناسب افسر کو نوٹس دینے کے لیے یہاں آئی تھی۔ تاہم ایک حلقے کو حیرانی اس بات پر ہے کہ کیا اتنی بڑی پولیس کی ٹیم نوٹس سرو کرنے جاتی ہے۔بھارت کی مودی حکومت کے فیس بک اور ٹویٹر جیسے سوشل میڈیا اداروں کے ساتھ معاملات کچھ دنوں سے تناو کا شکار ہیں اور کئی امور کے حوالے سے دونوں میں شدید اختلاف ہیں تاہم ان کے دفاتر پر پولیس کی جانب سے اس طرح کی کارروائی کا یہ پہلا واقعہ ہے۔  حزب اختلاف کی جماعت کانگریس پارٹی نے پولیس کے اس اقدام کو "بزدلانہ چھاپے کی کارروائی” بتاتے ہوئے کہا کہ یہ حکمران جماعت بی جے پی کی کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کی یہ ایک ناکام کوشش ہے اور، "سچ کو شکست نہیں دی جا سکتی۔”کانگریس پارٹی کی ریسرچ ٹیم کے سربراہ راجیو گاڑا نے منگل کے روز ایک بیان میں کہا، "بی جے پی نے جعلی دستاویز تیار کرنے کی سازش کی اور وہ پکڑے گئے۔ اب وہ ٹویٹر پر رعب جمانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے پاس ایسا کرنے کا کوئی قانونی اختیار بھی نہیں ہے۔”اس تنازعے کی ابتدا اس وقت شروع ہوئی جب بی جے پی کے ایک ترجمان سمبت پاترا نے 18 مئی کو اپنے ٹویٹر اکاونٹ پر یہ دعوی کرتے ہوئے ایک ‘ٹول کٹ’ شیئر کی کہ کورونا وائرس سے نمٹنے کے حوالے سے کانگریس پارٹی نے وزیر اعظم نریندر مودی اور اور ان کی حکومت کو بدنام کرنے کے لیے ہے یہ ٹول کٹ تیار کی ہے۔ اس مبینہ ٹول کٹ میں کووڈ سے نمٹنے میں حکومت کی ناکامیوں کو اجاگر کرنے کے لیے بہت سی ایسی باتوں کا ذکر ہے جو شدید سیاسی تنازعے کا سبب بن سکتی ہیں۔ سمبت پاترا کی پوسٹ کے فوری بعد اس متنازعہ ٹویٹ کو بی جے پی کے بہت سے دیگر رہنماوں نے بھی شیئر کیا۔کانگریس نے فوری طور پر اس سے انکار کیا اور الزام عائد کیا کہ بی جے پی نے کانگریس کو بدنام کرنے کے لیے خود اس نے یہ ٹول کٹ تیار کی ہے۔ اس نے ٹویٹر کو بھی آگاہ کیا  گیا اور کہا کہ اس کا ایک جعلی لیٹر پیڈ تیار کر کے یہ ٹول کٹ تیار کی گئی ہے۔ کانگریس پارٹی نے اس کے لیے بی جے پی کے ان تمام رہنماوں کے خلاف پولیس میں شکایت بھی درج کی ہے۔ٹویٹر نے اس واقعے کے دو دن بعد سمبت پاترا کی ٹویٹ کو "مینیوپلیٹیڈ میڈیا” یعنی ساز باز کرنے والے میڈیا کا ٹیگ لگا دیا۔ اس کے بعد مودی حکومت نے ردعمل میں ٹویٹر کو سخت الفاظ پر مبنی ایک خط لکھ کر یہ مطالبہ کیا کہ جب تک اس ٹول کٹ کی تفتیش مکمل نہ ہو جائے اس وقت تک ٹیگ کو ہٹا دیا جائے۔دہلی پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے اس ٹول کٹ کے بارے میں تفتیش شروع کی ہے اور اسی لیے ٹویٹر کو بھی نوٹس جاری کیا گیا تھا تاہم جب اس کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملا تو پولیس نے خود دفتر کا دورہ کیا۔ پولیس کا  کہنا ہے کہ چونکہ ٹویٹر نے بی جے پی کے ترجمان سمبت پاترا  کی ٹویٹ کو ساز باز میڈیا  کا ٹیگ دیا ہے اس لیے یہ وضاحت ضروری ہے کہ آخر اس نے ایسا کیوں کیا ہے۔ان کا کہنا ہے، "ایسا لگتا ہے کہ ٹویٹر کے پاس کچھ ایسی معلومات ہیں جن تک ہمیں رسائی نہیں ہے اور اسی کی بنیاد پر اس ٹویٹ کو ساز باز میڈیا کے زمرے میں کیا گیا ہے۔ تفتیش کے لیے یہ معلومات ضروری ہے۔ پولیس سچائی جاننا چاہتی ہے اور ٹویٹر کو اس کی وضاحت کرنی چاہیے۔” تاہم پولیس یہ بتانے کے لیے تیار نہیں ہے کہ اس کو اس بارے میں شکایت کس نے کی ہے اور اس سے متعلق شکایات کی تفصیلات کیا ہیں۔25 مئی منگل کے روز پولیس نے اس سلسلے میں کانگریس کی سوشل میڈیا ونگ کو بھی ایک نوٹس جاری کیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس کی تفتیش کے لیے کانکریس رہنماں سے پوچھ گچھ ضروری ہے۔ اس دوران کانگریس رہنما راہول گاندھی نے بھی پولیس کی ان تمام کارروائیوں کو پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اپنی پارٹی کی کرتوتوں کو چھپانے کے لیے پولیس کا سہارا لے رہی ہے۔ اپنی ایک ٹویٹ میں انہوں نے کہا، "سچ بغیر کسی خوف کے اپنی جگہ قائم ہے