اپوازیشن حکومت کو نہیں گراسکتی،عمران خان
بھارت سے معمول کے تعلقات کی بحالی غداری ہوگی،کشمیریوں کے خون پر بھارت سے تجارت نہیں ہوسکتی
رنگ روڈ راولپنڈی معاملے میں بے قاعدگیوں کی تحقیقات جاری ہیں،10نئے ڈیم بنانے کی حکمت عملی وضع کی جارہی ہے
اپوزیشن نے شروع دن سے ہمیں نااہل کہا ، اب شرح نمو 4.5 فیصد ہو نے پر وہ پھنس گئی اس لیے اعداد و شمار کو ہی غلط کہہ رہی ہے
وزیراعظم کے ”آپ کا وزیراعظم آپ کے ساتھ”کے عنوان سے عوام کے ٹیلی فون پر سوالات کے جوابات
اسلام آباد(صباح نیوز) وزیراعظم عمران خان نے واضح کیا ہے کہ بھارت سے معمول کے تعلقات کی بحالی غداری ہوگی،کشمیریوں کے خون پر بھارت سے تجارت نہیں ہوسکتی،بھارت اور اسرائیل ظلم سے کشمیریوں اور فلسطینیوں کو نہیں دبا سکتے،اپوازیشن حکومت کو نہیں گراسکتی، این آراو نہ دینے پر پی ڈی ایم نے حکومت گرانے کی دھمکیاں دیں، پی ڈی ایم اپنے مقاصد میں ناکام ہوچکی ہے، رنگ روڈ راولپنڈی کی اشد ضرورت ہے اس معاملے میں بے قاعدگیوں کی تحقیقات جاری ہیں،10نئے ڈیم بنانے کی حکمت عملی وضع کی جارہی ہے۔وزیراعظم عمران خان نے ان خیالات کا اظہار اتوارکو ”آپ کا وزیراعظم آپ کے ساتھ”کے عنوان سے عوام کے ٹیلی فون پر سوالات کے جوابات کے دوران کیا ۔عمران خان نے کہا کہ اپوزیشن نے شروع دن سے ہمیں نااہل کہا اور اب شرح نمو 4.5 فیصد ہوگئی ہے تو وہ پھنس گئی ہے اس لیے اعداد و شمار کو ہی غلط کہہ رہی ہے۔ میں اپنی قوم کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ اللہ کا وعدہ ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانیاں پیدا کرتا ہے اور مشکل وقت میں اللہ چاہتا ہے کہ ہم صبر کریں۔ زندگی اونچ نیچ کا نام ہے، اصل زندگی وہ ہوتی ہے کہ جدوجہد کرکے اوپر جاتے ہیں اورمشکل وقت میں پیچھے چلے جاتے ہیں پھر سیکھتے ہیں، جو مشکل وقت سے ہار مانتا ہے وہ ہار جاتا ہے، جو مشکل وقت سے سیکھتا اور محنت ہے وہ مضبوط ہوتا ہے، یہ زندگی کا سائیکل ہے۔ان کا کہنا تھا کہ مشکل وقت میں حکومت ملی، کبھی کسی حکومت کو اتنے مسئلے مسائل نہیں ملے جتنے ہماری حکومت کو 2018 میں ملے۔ جب تک آمدنی نہیں بڑھتے مشکل حالات سے گزرنا پڑتا ہے اسی لیے پہلے دن اپنی قوم سے کہا تھا کہ ہمیں ایک مشکل وقت سے گزرنا پڑے گا۔ جب ایک ملک دیوالیہ ہوجائے تو اس کو اپنے آپ کو اٹھانے کے لیے وقت چاہیے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت جو کامیابی ملی ہے اس پر مجھے خوشی ہے کیونکہ کوئی یہ امید لگا کر نہیں بیٹھا تھا کہ تقریبا 4 فیصد گروتھ ہوگی بلکہ کئی ماہر سمجھتے ہیں کہ ساڑھے 4 فیصد یا اس سے بھی اوپر جاسکتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب ہے کہ جو ہم سوچ رہے تھے اور خاص کر ہمارے مخالف جو سوچ رہے تھے اس سے زیادہ تیزی سے ہم اوپر گئے، اس کی کئی وجوہات ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ لوگوں کی سب سے زیادہ دو مشکلیں مہنگائی اور بے روزگاری ہے، جیسے گروتھ ریٹ بڑھتی ہے، معیشت کا پہیہ چلنا شروع ہوتا ہے، گاڑیاں بنی شروع ہوتی ہیں جو 55 فیصد گاڑیوں کی فروخت ہوئی۔ان کا کہنا تھا کہ ٹریکٹروں اور موٹرسائیکلوں کی فروخت مزید 60بڑھ گئی ہے، جب یہ بننے شروع ہوتے ہیں تو روزگار ملتا ہے اور غربت کم ہوتی ہے، یہ پہلا ایک خوش آئند قدم ہے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت ہماری اپوزیشن جس نے پہلے دن کہا کہ یہ نااہل ہیں انہیں نکال دینا چاہیے حالانکہ ہم شروع ہوئے تھے اور انہیں مشکلات کا پتہ تھا۔اپوزیشن کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ساتھ ساتھ انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں این آر او دے دو گے تو آپ نااہل نہیں ہوگے، این آر او نہیں دو گے تو حکومت نہیں چلنے دیں گے، پاکستانی فوج کو کہتے ہیں منتخب حکومت کو گرادو۔ان کا کہنا تھا کہ کہتے ہیں الیکشن ٹھیک نہیں ہوئے، کوئی ثبوت بھی نہیں دیا، ہم نے پچھلے الیکشن میں کہا تھا کہ ہم نے 4 حلقوں کا بتایا تھا لیکن اب وہ پھنس گئے ہیں کہ اتنی نااہل حکومت تھی تو اتنی 4 فیصد شرح نمو کیسے آگئی کیونکہ انہوں نے خود کہا کہ نااہل ہو پھر پھنس گئے ہیں تو کہتے ہیں آپ کے اعداد و شمار غلط ہیں۔وزیراعظم نے کہا کہ اللہ ہمیں بڑے مشکل وقت اور امتحان سے گزارا ہے اور اب ان شااللہ اس ملک کو مزید آگے بڑھتے دیکھیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ایک بورڈ بنایا ہے کہ ملک میں اتنی زیادہ ہاسنگ سوسائیٹیز بنی ہیں ان کا پتہ لگائے کہ کون سی قانونی اور کون سی غیرقانونی ہیں اور یہ سب ویب سائٹ پر آئے گا تاکہ لوگوں کے ساتھ دھوکا نہ ہو۔انہوں نے کہا کہ اگر ہاسنگ سوسائیٹز شرائط پوری نہیں کریں گی تو انہیں منظوری نہیں دی جائے گی، پھر مختلف غیرقانونی سوسائیٹیز کو بند کردیں گے اور ایسی غیرقانونی سوسائیٹیاں جہاں لوگ اب رہنے لگے ہیں تو اس کے لیے الگ نظام لے کر آرہے ہیں۔عمران خان نے کہا کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس عظمت کی زیر سرپرستی ایک کمیٹی بنائی ہے جو باقاعدہ کیٹگرائز کررہی ہے تاکہ ایسا نہ ہو کہ لوگوں کی زمینیں بیچ دیں اور ان کے پاس پلاٹس نہ ہو پھر وہ پیسے لے کر باہر بھاگ جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اسے بچنے کے لیے پورا کریک ڈان کر رہے ہیں۔خارجہ امور کے حوالے سے سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پر بات کروں گا، اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر بھارت سے ہمارے تعلقات اچھے ہوں، ایک طرف ہمارے پاس دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے، دوسری طرف بھارت ایک ارب سے زائد آبادی کے ساتھ بڑی مارکیٹ ہے، تو ہمارے رابطے ہوں اور تجارت شروع ہوجائے تو سب کو فائدہ ہوتا ہے، جب یورپی یونین بنی تھی تو سب کو فائدہ ہوا تھا۔انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت سے ہمارے تعلقات اچھے ہوں، اسی لیے میں نے حکومت میں آنے کے بعد پوری کوشش کی کہ بھارت سے تعلقات اچھے ہوں، ایک ہی مسئلہ کشمیر ہے جس کو بات چیت سے حل کریں۔ اگر ہم اس وقت بھارت سے تعلقات معمول پر لاتے ہیں تو اس کا مطلب ہے ہم کشمیر کے لوگوں سے بہت بڑی غداری کریں گے، ان کی ساری جدوجہد اور تقریبا ایک لاکھ شہدا کو نظر انداز کریں گے، اس میں کوئی شک نہیں ہماری تجارت بہتر ہوگی لیکن کشمیر کا خون ضائع ہوجائے گا، لہذا یہ نہیں ہوسکتا۔انہوں نے کہا کہ ہم کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں، ہمیں پتہ ہے کہ انہوں نے کس قسم کی قربانیاں دی ہیں اور دے رہے ہیں، اس لیے ان کے خون پر پاکستان کی تجارت بہتر ہوگی تو یہ نہیں ہوسکتا۔ان کا کہنا تھا کہ اگر بھارت 5 اگست کے اقدامات سے واپس جائیں تو پھر بات ہوسکتی ہے، پھر ہم مسئلہ کشمیر پر ایک روڈ میپ لاسکتے ہیں اور بات بھی کرسکتے ہیں ۔ وزیراعظم نے کہاکہ آئندہ 10 سالوں کے دوران 10نئے ڈیم بنائے جائیں گے۔ پاکستان میں پانی کی کمی بڑھتی جارہی ہے۔ سندھ میں طاقتور کے بل بوتے پر پانی کا رخ موڑ لیتا ہے۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ رنگ روڈ راولپنڈی کی ضرورت ہے جلد مکمل کریں گے اس میں فراڈ اور الائنمنٹ کے مسائل ہیں جن کی تحقیقات ہورہی ہیں۔ پی ڈی ایم حکومت کو اپنے ذاتی مقاصدکیلئے کامیاب نہیں ہونے دے رہی ۔ بادشاہت جمہوریت سے ہار گئی۔ آج ساڑھے چارفیصد معیشت غیر معمولی کامیابی ہے اس پر تو اپوزیشن کو ہمیں مبارکباد دینی چاہیے تھی۔ عمران خان نے کہاکہ فوجی ادوار میں اداروں کو کمزور کیا گیا کیونکہ اداروں کو کمزورکرکے ہی فوجی حکومتیں برسر اقتدار آتی رہیں، عدلیہ اور دیگر کو کمزور کیا گیا اور اپنے جواز کیلئے مصنوعی جمہوریت قائم کی۔1988 کے بعد سیاسی حکومتوں نے بھی اداروں کو کمزور کیا ، پیسہ بنایا جسے باہر منتقل کیا اور اب اس پیسے کو بچانے کیلئے حکومت کو بلیک میل کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ 2016 میں قرضے ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر تھے انہوں نے اس بارے میں چارٹ دکھایا اور کہاکہ کم ترین سطح پر قرضے آنے پر اپوزیشن گھبرا گئی ہے۔ حکومت کو گرانا چاہتے ہیں مگر وہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ عمران خان نے کہاکہ زراعت کیلئے حکومتی اقدامات کی ضرورت ہے اس پر توجہ دے رہے ہیں شوگر کارٹیل کو توڑا گیا انہیں قانون کے دائرے میں لایا گیا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ پاکستان 900نئی سٹوریج بنائی جارہی ہیں۔ سال کے آخر تک سارے پنجاب کو ہیلتھ کارڈ پر لے آئیں گے۔ وقف املاک کو نیلام کرکے صحت کے شعبے میں سرمایہ کاری کی جائے گی۔ محصولات بڑھ رہے ہیں اور اس وقت تک 4143 ارب روپے کے محاصل جمع ہوچکے ہیں ۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہاکہ پنجاب میں پولیس کو ذاتی مفاد کیلئے استعمال کیا گیا۔ تھانہ کلچر ختم کرنے کیلئے پرعزم ہیں اور پولیس میں اصلاحات کی جارہی ہیں۔ خیبرپختونخوا، اسلام آباد اور پنجاب میں لینڈ ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ کیا جائے گا جو مشکل میں ہار نہیں مانتا وہی سیکھتا ہے۔ بلوچستان سے ایک خاتون کی قبضہ مافیا کیخلاف دہائی کے حوالے سے وزیراعظم نے کہاکہ پاکستان میں انصاف کا نظام آہستہ آہستہ کمزور ہوتا گیا ، کمزور طبقے کے اثاثوں پر قبضے ہوتے گئے خاتون نے دوران سوال روتے ہوئے کہاکہ اب تو میری والدہ کینسر کے مرض میں مبتلا ہوگئی ہے ہمارے پاس کفن کیلئے بھی پیسے نہیںہیں۔ ایک سال سے لاہور میں اپنے مکان کو واگزار کروانے کیلئے ذلیل و خوار ہورہی ہوں۔ وزیراعظم نے کہاکہ ذاتی مفاد کیلئے آنے والی حکومتوں نے انصاف کے نظام کو کمزور کیا ظلم بڑھتا گیا۔ اصل انصاف تو مظلوم عوام کی ضرورت ہے۔ میں حکومت میں رہوں نہ رہوں انصاف کے نظام کیلئے لڑتا رہوں گا، اداروں کو ٹھیک کرنا ہے۔ ہم سے پہلے جو نیب کام کررہی تھی جائزہ لیں ہمارے دور میں کتنی ریکوری ہوئی۔ عدلیہ میں مداخلت نہیں کرتے اور چیف جسٹس کو ڈنڈے سے نہیں نکالتے تو عدلیہ بھی پورے اعتماد کے ساتھ کام کرتی ہے۔ نیب نے 18سالوں میں290 ارب روپے جبکہ ہمارے دور میں 484 ارب روپے جمع کیے۔ اینٹی کرپشن پنجاب نے 10سالوں میں 2.6ارب وصول کیے۔ ڈھائی سالوں میں غیر معمولی ریکوری ہوئی۔ سب کو قانون کے تابع لائیں گے یہی لڑائی ہورہی ہے۔ طاقتورلوگوں سے پیسے نکلوائیں گے چینی مافیا نے ایف آئی اے کو خط لکھا ہے کہ کارروائی کی تو چینی کی قیمتیں بڑھا دیں گے۔ شوگرمافیا ایف آئی اے کو کہتی ہے کہ وہ کون ہوتی ہے کارروائی کرنے والی۔ پنجاب میں ان چھوٹے چھوٹے قبضہ گروپوں کو بھی ختم کردیں گے۔ اب کوئی ان کی ایم این اے سرپرستی نہیں کرے گا۔ کوئی سفارش نہیں چلے گی۔ انصاف کو فروغ ملے گا۔