امریکہ کی افغانستان میں فوجی بیس کے لیے پاکستان کے بعد وسط ایشیا ریاستوں پر پر توجہ مرکوز ہے،نیویارک ٹائمز

کھربوں ڈالر خرچ  اور 2ہزار،400 سے زیادہ فوجیوں کی قربانی دینے کے باوجود امریکہ  افغانستان  بارے مایوسی کا شکار

پاکستان کے کسی بھی بیس کو طالبان کے خلاف امریکی حملوں کے لیے امریکہ کو دینے  سے انکار کیا جارہا ہے،ایشیا ریاستوں میں بھی مشکلات

اسلام آباد (ویب  نیوز) افغانستان میں تقریبا دو دہائیوں میں کھربوں ڈالر خرچ  اور 2ہزار،400 سے زیادہ فوجیوں کی قربانی دینے کے باوجود امریکہ   افغانستان  بارے مایوسی کا شکارہے،امریکا نے خطے میں فوجی بیس کے لیے پاکستان کے بعد وسط ایشیا ریاستوں پر پر توجہ مرکوز کر رکھی ہوئی ہے تاہم پاکستان کے کسی بھی بیس کو طالبان کے خلاف امریکی حملوں کے لیے امریکہ کو دینے  سے انکار کیا جارہا ہے جبکہ روسی صدر  پوٹن وسط ایشیا ریاستوں  کے فوجی اڈے امریکہ کو دینے کی مخالفت کریں گے  ۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق  امریکہ اور پاکستان کے  چند امریکی عہدیداروں کا خیال ہے کہ   اس بارے مین   امریکہ اور پاکستان کے   مذاکرات فی الوقت تعطل کا شکار ہو گئے ہیں۔ نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ میں کہا گیا کہ امریکی انٹیلی جنس ایجنسی ‘سی آئی اے’ نے اس سے قبل بھی عسکریت  پسندوں خلاف ڈرون حملے شروع کرنے کے لیے پاکستان میں ایک بیس کا استعمال کیا تھا، تاہم ‘2011 میں انہیں اس سہولت سے نکال دیا گیا تھا’ جب پاکستان کے ساتھ امریکا کے تعلقات خراب ہوئے تھے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ ‘چند امریکی عہدیداروں نے اخبار کو بتایا کہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات ابھی تعطل کا شکار ہوچکے ہیں، دیگر نے کہا ہے کہ یہ آپشن اب بھی ٹیبل پر ہے اور معاہدہ ممکن ہے’۔نیو یارک ٹائمز کے مطابق سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم جے برنز نے حال ہی میں پاکستانی فوج کے سربراہ اور انٹر سروسز انٹلی جنس کے ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ سے ملاقات کے لیے اسلام آباد کا غیر اعلانیہ دورہ کیا تھا۔امریکی وزیر دفاع لائیڈ جے آسٹن کی بھی پاکستانی فوج کے سربراہ سے افغانستان میں مستقبل میں امریکی آپریشنز کے لیے ان کی مدد حاصل کرنے کے بارے میں متعدد بار ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں۔اس رپورٹ میں کہا گیا ولیم جے برنز نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران بیس کا مسئلہ نہیں اٹھایا کیونکہ اس دورے میں انسداد دہشت گردی کے وسیع تعاون پر توجہ دی گئی تھی، تاہم ‘امریکی وزیر دفاع کے کچھ مباحثے زیادہ براہ راست رہے ہیں’۔امریکا کو اڈہ دینے میں پاکستان کی ہچکچاہٹ کا تجزیہ کرتے ہوئے رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ ‘اسلام آباد حکومت کی جانب سے پاکستان کے کسی بھی بیس کو طالبان کے خلاف امریکی حملوں کے لیے استعمال کرنے کے لیے دستخط کیے جانے کا امکان نہیں ہے’۔رپورٹ میں کہا گیا کہ ‘اس کے باوجود چند امریکی عہدیداروں کا خیال ہے کہ اگر پاکستان کسی بیس تک امریکی رسائی کی اجازت دینا چاہتا ہے تو وہ اس پر کنٹرول رکھے گا کہ اس کا استعمال کیسے ہوگا’۔اس رپورٹ میں گزشتہ ماہ پارلیمنٹ میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی تقریر کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ‘وزیر اعظم عمران خان کے اقتدار میں رہنے تک کوئی امریکی بیس کی اجازت نہیں دی جائے گی’۔رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ سی آئی اے نے بلوچستان میں شمسی ایئربیس کا استعمال 2008 میں سیکڑوں ڈرون حملے کرنے کے لیے کیا تھا، ان حملوں کا مرکز بنیادی طور پر صرف پاکستان کے پہاڑی قبائلی علاقوں میں القاعدہ کے مشتبہ کارکن تھے لیکن انہوں نے افغانستان میں سرحد عبور بھی کی تھی۔رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان کی حکومت نے ‘عوامی طور پر یہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے کہ وہ سی آئی اے کو آپریشنز کی اجازت دے رہی ہے اور وہ ایک نئے تعلقات کے ساتھ محتاط انداز میں آگے بڑھنا چاہے گی’۔رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ امریکی عہدیداروں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے ‘پاکستانیوں نے ملک میں بیس کے استعمال کے بدلے میں متعدد پابندیوں کا مطالبہ کیا ہے اور مطالبہ کیا گیا ہے کہ سی آئی اے یا فوج کے افغانستان میں کسی بھی اہداف پر حملے ان کی اجازت سے ہوں گے’۔ امریکی سفارت کار وسط ایشیائی ریاستوں کے اڈوں تک دوبارہ رسائی کے آپشن پر بھی غور کر ہے ہیںحالانکہ انہیں توقع ہے کہ روس کے صدر ولادی میر پوتن اس کی سخت مخالفت کریں گے۔ اخبار کے مطابق  افغانستان میں امریکی فوجی انٹلیجنس تیزی سے مایوسی کا شکار ہو رہی  ہے ۔مریکی فوجی انٹلیجنس کو خطرہ ہے کہ کابل چند سالوں میں ہی طالبان کے ہاتھوں میں آسکتا ہے  اس طرح افغانستان عسکریت پسندوں کا محفوظ ٹھکانہ بن سکتا ہے۔  امریکہ نے   افغانستان میںتقریبا دو دہائیوں میں کھربوں ڈالر خرچ کیے ہیںر 2ہزار،400 سے زیادہ فوجیوں کو بھی کھو دیا ہے۔امریکہ میں سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی جو اب ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کے ساتھ وبستہ ہیں نے کہا کہ امریکی اور پاکستانی ایک نئے تعلقات کے ساتھ "احتیاط سے آگے بڑھنا چاہیں گے۔ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے اعلان پر سی آئی ائے اور محکمہ دفاع کے ساتھ ساتھ پاکستانی بھی خوف  کا شکار ہے ۔امریکی سفارتکار وسطی ایشیا کے اڈوں تک رسائی  کے لئے  موقع تلاش کر رہے ہیں ،  کرغزستان اور ازبکستان میں ایسی  جگہیں موجود ہیں جن میں جنگ کے دوران امریکی فوجیوں اور انٹیلیجنس افسران کو رکھا گیا تھا۔گذشتہ ماہ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک اسکول کے قریب دھماکے کے بعد سی آئی اے امریکی فوج کو انٹلیجنس اکٹھا کرنے میں چیلنجوں کا سامنا ہے۔ امریکی وزیر  خارجہ انٹونی جے بلنکن نے رواں ماہ تاجکستان میں اپنے ہم منصب کے ساتھ بات کی۔ایک سینئر امریکی عہدیدار کے مطابق ، روس نے وسطی ایشیا میں اڈے استعمال کرنے کے لئے امریکہ کی مخالفت کی ہے ۔