اپوزیشن جماعتوں نے بجٹ میں نظرانداز کرنے پر حکومت کے خلاف تحریک چلانے کااعلان کردیا
اپوزیشن رکن اسمبلی ہونا جرم نہیں ہے بلکہ ضمیر کی آواز ہے لیکن جام سرکار میں ضمیر کی آواز دبایا جا رہا ہے،اپوزیشن لیڈر
اپوزیشن جماعتیں آدھے بلوچستان کی نمائندگی کررہی ہے ،پچھلے دوبجٹ میں آدھا بلوچستان نظرانداز رہا،ملک سکندرخان
عوام کے منتخب قانونی نمائندوں کی بجائے جام کمال کی حکومت غیر منتخب لوگوں کو نواز رہی ہے ،نواب محمد اسلم رئیسانی
پشین کو دو اضلاع میں تقسیم اور قلعہ عبداللہ وپشین پرمشتمل نئے ڈویژن کااعلان نہ کیا گیا تو احتجاج کرینگے ،عبدالواحد صدیقی
کوئٹہ(ویب نیوز)بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن ارکان نے آئندہ مال سال کے بجٹ میں نظرانداز کرنے پر حکومت کے خلاف تحریک چلانے کااعلان کرتے ہوئے کہاہے کہ اپوزیشن آدھے بلوچستان کی نمائندگی کررہی ہے ،پچھلے دوبجٹ میں آدھا بلوچستان نظرانداز رہا،عوام کے منتخب قانونی نمائندوں کی بجائے جام کمال کی حکومت غیر منتخب لوگوں کو نواز کر انہیں بلدیاتی انتخابات وآئندہ عام انتخابات میں لانے کی تیاری کررہی ہے ،پشین کو دو اضلاع میں تقسیم اور قلعہ عبداللہ وپشین پرمشتمل نئے ڈویژن کااعلان نہ کیا گیا تو احتجاج کرنے کیلئے حق بجانب ہیں،اپوزیشن رکن اسمبلی ہونا جرم نہیں ہے بلکہ ضمیر کی آواز ہے لیکن جام سرکار میں ضمیر کی آواز دبایا جا رہا ہے۔ان خیالات کا اظہار اپوزیشن ارکان اسمبلی ملک سکندر خان ایڈووکیٹ، نواب محمد اسلم رئیسانی ،ملک نصیر احمد شاہوانی، نصر اللہ زیرے نے دیگر ارکان حاجی نواز کاکڑ،عبدالواحد صدیقی، میر ذابد ریکی، اختر حسین لانگو، بابو رحیم مینگل،احمد نواز بلوچ،میر اکبر مینگل،ٹائٹس جانسن کے ہمراہ اسمبلی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ملک سکندر خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ تین بجٹ گزر چکے ہیں 18 تاریخ کیلئے شیڈول کردہ چوتھا بجٹ ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اپوزیشن کو ایک بار پھر دیوار سے لگا کر ان کے حلقوں کو نظر انداز کیا گیا ہے، اپوزیشن کے ساتھ غیر انسانی رویہ اختیار کیا گیا ہے ، اپوزیشن رکن اسمبلی ہونا جرم نہیں ہے بلکہ ضمیر کی آواز ہے لیکن جام سرکار میں ضمیر کی آواز دبایا جا رہا ہے، بجٹ میں سالانہ اخراجات اور ضروریات کی تخمینہ لگایا جاتا ہے اس طرح ملکی سطح پر بجٹ کا مقصد عوام کو سہولیات اور ضروریات، وسائل کی فراہمی ہوتی ہے اور سالانہ بنیادوں پر اس پر آنے والے اخراجات وغیرہ کا تعین شامل ہیں، انہوں نے کہاکہ بجلی کی صورتحال کا یہ عالم ہے کہ صوبائی دارالحکومت میں لوڈشیڈنگ نے عوام کاجینا محال کردیاہے اورگیس کا یہی صورت حال ہے بلوچستان میں جہاں گیس ہے اس کا مقصد لوگوں کی زندگی بچانا ہوتا ہے اگر گیس کا پریشر اتنا کم ہو کہ لوگ کھانا نا بنا سکیں یا سردی سے خود کو نہ بچا سکیں تو افسوس کا مقام ہے گو کہ یہ وفاقی سبجیکٹ ہے لیکن مشاورت صوبے سے ہوتی ہے، بلوچستان کی عوام شدید مشکلات سے دو چار ہیں، صوبے کی آمدن ریکوڈک، سیندک، گوادر وغیرہ جو بلوچستان کا مستقبل ہے جو خوشحالی پر خرچ کئے جا سکتے ہیں اگر یہ وسائل خرچ نہ کئے گئے تو بلوچستان مزید 70 سال پسماندہ رہے گا لیکن یہاں 23 ارکان اسمبلی کو وہ حیثیت حاصل نہیں جو عوام کے قانونی نمائندے ہیں حالانکہ لوگ اپنے مسائل کے حل کیلئے ان قانونی نمائندوں کے پاس آتے ہیں یہاں غیر منتخب لوگوں کو خوش کیا جا رہا ہے، انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے پچھلے سال بھی اسکیمات تجویز کئے تھے ہم نے اپنا آئینی کردار ادا کرتے ہوئے اس سال بھی اسکیمات تجویز کئے ہیں ہمارا مطالبہ ہے کہ جہاں پانی، بجلی کی ضرورت ہے وہاں ہمارے تجویز کردہ اسکیمات کو پی ایس ڈی پی کا حصہ بنایا جائے۔ صحافیوں کے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے ملک سکندر خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ پیر تک مطالبات پر عمل نہ ہوا تو پیر کو ہم آئندہ کے تحریک کا اعلان کریں گے، سپیرہ راغہ روڈ 2008 سے کھنڈرات کا شکار ہیں اس روڈ پر کام شروع کیا جائے رود ملازئی، خانوزئی کے لوگوں کے 14 جون سے احتجاج کے اعلان کی حمایت کرتے ہوئے ہم ان کے شانہ بشانہ ہوں گے۔ سوالات کے جوابات دیتے ہوئے ملک سکندر خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ حکومت کے سامنے ہم نے مطالبات رکھے ہیں یہ ان پر منحصر ہے کیونکہ اب بال ان کے کوٹ میں ہے، پانی کا مسئلہ حل نہیں ہوسکا ہے جبکہ حکومت روڈوں پر بت بنانے میں مصروف ہیں، ہم نے اپنے اسکیمات میں پانی، تعلیم، صحت کو ترجیح دیا ہے بچیاں وسائل نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم ادھورا چھوڑ جاتی ہے ہم نے جن جن چیزوں کی عوام کو ضرورت ہے وہ تجویز کی ہے ہم نے تجویز دی ہے کہ معاشرے کے کمزور طبقات کو سہولیات دینے کیلئے طریقہ کار وضع کریں وہ لوگ جو مستقل بیمار ہیں ان کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے سہولیات فراہم کی جائیں، نواب اسلم رئیسانی نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ ہم فساد کریں بجٹ میں ہمیں نظر انداز کیا گیا ہے آدھا بلوچستان یہاں بیٹھا ہے پہلے بھی اپوزیشن کو نظرانداز کیا گیا موجودہ بجٹ بھی نظرانداز کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ،وزیراعلیٰ جام کمال کہتاہے کہ 40ارب روپے لیپس ہورہے ہیں حالانکہ نیشنل فنانس کمیشن کے مطابق ایک ٹکہ لیپس نہیں ہو سکتا یہ پیسے چھپائے گئے ہیںجو اپنے ضرورت کیلئے کسی بھی وقت استعمال کرسکتے ہیں،نئے اضلاع کے قیام کا مقصد ریونیو جنریشن ہوتا ہے صوبائی حکومت کے نئے اضلاع کا قیام اتحادیوں کو خوش کرنا اور بجٹ میں مدد حاصل کرناہے ،ملک نصیر احمد شاہوانی نے کہا کہ سابقہ طرز عمل اختیار کرتے ہوئے حکومت ایک بار پھر اپوزیشن حلقوں کا نظر انداز کررہی ہے، حکومت کی کوشش ہے کہ بلدیاتی انتخابات اور آئندہ انتخابات کیلئے اپنے بندے تیار کر سکیں لیکن اس طرح کے حرکتوں سے عوام کی ضمیر کو نہیں خریدا جا سکتا اگر حکومت کا پرانا رویہ برقرار رکھا تو ہم نہ صرف اسمبلی بلکہ روڈوں پر نکل احتجاج کو صوبے بھر میں پھیلائیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں ملک نصیر احمد شاہوانی نے کہا کہ اپوزیشن حلقوں کو نظر انداز کرنے کی بجائے ان کا حق دیں 3 سے 4 سو ٹیوب ویلز فعال کئے جائیں تو پانی کا مسئلہ حل ہوگا زمینداروں کو بجلی کی بندش کی وجہ سے 40 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے، لوگوں کو پانی، گیس بجلی اور علاج کی ضرورت ہے لیکن حکمرانوں کی نااہلی ہے کہ پیسے لیپس ہو رہے ہیں، نصر اللہ زیرے نے کہا کہ سال 2020-21 بجٹ کا جائزہ لیا جائے تو وزیر اعلی نے خود کہاکہ 40 ارب روپے لیپس ہو رہے ہیں، صحت ، تعلیم کے شعبے تباہ جبکہ بجلی اور گیس کی صورت حال یہ ہے کہ کوئٹہ میں بجلی نہیں ہے وزیراعظم زیارت آئے لیکن کوئی اعلان نہیں کیا بلوچستان دنیا کا وہ خطہ ہے جہاں سب سے زیادہ غربت ہے، بلوچستان اسمبلی کی اپوزیشن صوبے کی آدھی آبادی کی نمائندگی کررہی ہے لیکن حکومت ایک بار پھر اپوزیشن حلقوں کو نظر انداز کررہی ہے، سپیرہ راغہ روڈ سے لوگوں کی مسائل بڑھ گئی ہے۔ اختر حسین لانگو نے کہا کہ بشریٰ رند اور وزیر اعلیٰ تعین کرے کہ جھوٹ کون بول رہا ہے۔بی این پی کا بلوچستان میں 26 ماہ حکومت رہی ہے جو سردارعطاء اللہ مینگل اور سرداراخترجان مینگل کی سربراہی میں تھیں ،انہوں نے مطالبہ کیاکہ ایک ایسا فورم تشکیل دیاجائے جس میں ہم بھی بلوچستان میں حکومت میں رہنے کا حساب دیں اور یہاں حکومت کا حصہ رہنے والے تمام لوگ اپنا حساب دیں یہاں جام کمال ،اس کے والد اور دادا نے بھی حکومت کی ہے وہ بھی اپنا حساب دیں ،انہوں نے کہاکہ 2018 میں ہم تجویز دی تھی کہ تین سو ٹیوب ویلز فعال کئے جائیں لیکن وہ اب تک نہیں ہوسکے انہوں نے کہا کہ کوئٹہ میں سینکڑوں شلٹر لیس سکولز ہیں ہم نے 2018-19 میں یہ مطالبات رکھے تھے کہ سکول کو شلٹر فراہم کیا جائے لیکن پھر بھی لیپس کا الزام اپوزیشن پر عائد کی جا رہی ہے۔ عبدالواحد صدیقی نے کہاکہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے سوا دیگر اضلاع میں ایسے علاقے ہیں جہاں صحت کی سہولیات نہ ہونے سے مریض راستے میں دم توڑ جاتے ہیں کوئٹہ کی جو صورت حال ہے تو دیگر اضلاع کا کیا حال ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ وزیراعلیٰ جام کمال نے اے این پی کو بجٹ میں ساتھ دینے کیلئے صرف چمن ضلع کااعلان کیا اگر پشین کو دو اضلاع میں تقسیم اور پشین وقلعہ عبداللہ پرمشتمل نئے ڈویژن کااعلان نہ کیا گیا تو جمعیت علماء اسلام سخت احتجاج کرنے پرمجبور ہوگی ،محکمہ ریونیو کی مرتب کردہ رپورٹ میں پشین کی عوام کو اس کا حق دیاجائے ۔
#/S