کراچی:ڈیڑھ کروڑ افراد کا ڈیٹا حاصل کرلیا ،ٹیکس نیٹ میںلائیں گے۔آڈٹ براہ راست نہیں بلکہ تھرڈ پارٹی کے ذریعہ کرایا جائے گاوفاقی وزیر خزانہ
ان افراد کے پاس کتنا پیسہ اور کہاں سے آیا سب پتہ چل گیا ہے ،برآمدات میں اضافہ حکومت کی اولین ترجیح ہے۔تاجروں کے ساتھ ملکر ملک کوآگے بڑھائیں گے
افغانستان کے حالات بہت بہتر نہیں تاہم پاکستان کیلئے بہتر مواقع ہیں۔ابھی کچھ نہیں پتہ کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ۔ تاہمطالبان سرپرائز دے رہے ہیں ۔ شوکت ترین
وفاقی وزیر خزانہ کا ایف پی سی سی آئی اوراوورسیز چیمبر آف کامرس کے ممبران سے علیحدہ علیحدہ پروگرام میں خطاب اور صحافیوں سے گفتگو
کراچی(ویب نیوز)وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ ٹیکس کی ادائیگی کے بغیر ملک نہیں چل سکتا،ٹیکس آڈٹ براہ راست نہیں بلکہ تھرڈ پارٹی کے ذریعہ کرایا جائے گا،ڈیڑھ کروڑ افراد کا ڈیٹا حاصل کرلیا گیا،انہیں ٹیکس نیٹ میںلائیں گے،ان ڈیڑھ کروڑ افراد کے پاس کتنا پیسہ ہے اور کہاں سے آیا سب پتہ چل گیا ہے ،برآمدات میں اضافہ حکومت کی اولین ترجیح ہے،تاجروں کے ساتھ ملکر ملک کوآگے بڑھائیں گے،افغانستان کی صورتحال کے بعد ابھی واضح نہیں ہے حالات بہت بہتر نہیں ہیں تاہم افغانستان میں تجارت کیلئے پاکستان کیلئے بہتر مواقع ہیں۔ابھی کچھ نہیں پتہ کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ۔ تاہم افغانستان میں طالبان سرپرائز دے رہے ہیں ۔انہوں نے ان خیالات کا اظہار جمعہ کو ایف پی سی سی آئی اوراوورسیز چیمبر آف کامرس کے ممبران سے علیحدہ علیحدہ پروگرام میں خطاب اور صحافیوں سے گفتگو کے دوران کیا۔ایف پی سی سی آئی میں سینئرنائب صدر خواجہ شاہ زیب،سابق صدور انجم نثار،حاجی غلام علی،زکریا عثمان نے بھی خطاب کیا جبکہ نائب صدورحنیف لاکھانی اورعدیل صدیقی،عبدالرحیم جانو،خرم اعجاز،شبیرمنشا چھرا،شوکت احمد،کراچی چیمبر کے سابق صدرہارون فاروقی،حاجی غنی عثمان بھی موجود تھے۔وزیرخزانہ شوکت ترین نے ایف پی سی سی آئی میں تاجروں اورصنعت کاروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم ابھی آئی ایم ایف کے پروگرام میں ہیں ، آئی ایم ایف نے تو کہا تھا تمام مراعات ختم کردو، 500 ارب روپے کی مراعات ختم کرنے کا کہا گیا تھا لیکن میں نے ان سب معاملات پر نہیں مانا اور بہت کچھ پر رضا مند بھی کرایا۔انکا کہنا تھا کہ میںودھ ہولڈنگ ٹیکس پر یقین نہیں رکھتا، تاجروں کے ساتھ عدالتوں میں کئی سالوں سے مالی مقدمات چل رہے ہیں ان کو عدالت سے باہر مک مکا کر لیں گے،اسمگلنگ کو ہر صورت روکنا ہے اس سے ملکی معیشتکو نقصان ہورہاہے ،تاجر بھی اسمگلنگ کی اشیا نہ خریدیں اور نہ فروخت کریں ،معمولی فائدے کے لیے یہ عمل کرناغلط ہے۔انہوں نے کہا کہ کور انفلیشن ابھی سات فیصد ہے جب تک یہ کم نہیں ہوگی تو مشکلات ہوگی،جی ڈی پی میں ٹیکس تناسب 20 فیصد تک بڑھانا ہو گا ،آئی ایم ایف کو ہمسے مسئلہ نہیں ہوناچاہیئے،میں تسلیم کرتا ہوں کہ ہمسے کوتاہی ہوئی ہے لیکن اب ہم تاجر برادری کو ساتھ لے کر چلیں گے، لوگوں کا اعتماد بحال ہورہا ہے ،ہم نے بجٹ فیڈریشن چیمبرکی سفارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیا ،کچھ ایسی چیزیں تھیں جن پرصدارتی آرڈیننس کے تحت عملدرآمدہوا اس کے لئے کچھ نہیں کرسکتا،میں
اگلے دو سال تک وزیرخزانہ کے منصب پررہوں گا اوربزنس کمیونٹی کو ساتھ لے کر چلوں گا،ٹیکس نوٹس سے ہر کوئی پریشان رہتا تھا لیکن اب بزنس کمیونٹی کو ہراساں نہیں کیا جائے گا ۔ وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ ہم دو پوزیشنز کی زد میں ہیںنہ ادھر نہ ادھر، ہم آئی ایم ایف کے پروگرام میں ہیں،ہم تاجرنمائندوں کے ساتھ بیٹھیں گے اور معیشت کی بہتری کے لئے جو ہوا کرینگے۔ انکا کہنا تھا کہ 68 19میں پاکستان دنیا کی چوتھی بڑی معیشت تھا،ہمیں واپس پاکستان کو اسکا وہی مقام دینا ہے جو ماضی میں تھا۔شوکت ترین نے کہا کہ وزیراعظم نے قریبی دوستوں کو احتسابی عمل سے باز نہیں رکھا اوران کے دوستوں کا بھی احتساب ہورہاہے ،میں کہتا ہوں کہ تاجروں کو ہراساں نہیں کیا جائے گا اور نوٹسسز اگر جاری ہوئے ہیں وہ واپس ہونگے ، ہم پیسہ بنانے کو گنا ہ نہیں سمجھتے ، پیسہ بنانا بزنس کمیونیٹی اور تاجروں کا حق ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہر تین ماہ بعد اس معاملات پر کیا ہوا اس کو دیکھا جائے گا ، میں خود نجی شعبے سے تعلق ہے ہم مل کر آگے بڑھیں گے ، ،صنعتکار ہی اس ملک کو آگے کر کر جائیں گے ،ملکی ترقی میںصنعتکاروں کا ایک کلیدی کردار ہے ، نجکاری کے لیے ایک بورڈ بنایا ہے اس میں ایف پی سی سی آئی کا نمائندہ شامل ہوگا ، نقصان میں چلنے والی دس سے پندرہ کمپنیاں پہلے ٹھیک کریں گے ،اس کے بعد ان کمپنیوںکی نجکاری کریں گے ،۔انہوں نے کہا کہ مہنگائی کی اصل وجہ عالمی مارکیٹ میں اجناس کی قیمت بڑھنا ہے، کسی حکومت نے زراعت کے شعبے کو توجہ نہیں دی، ہم ابھی اس وجہ سے اجناس کی درآمد کررہے ہیں ، مڈل مین 400 گنا پیسے بنا رہاہے، مہنگائی کی اصل وجہ مڈل مین ہے ، کسانوں کو کچھ نہیں ملتا لیکن مڈل مین400 گنا کما کر عوام ہر مہنگائی کا بوجھ ڈالتا ہے ۔ شوکت ترین نے مزید کہا کہ شرح سود کو کم کرنا یا نہ کرنا اسٹیٹ بینک کا معاملہ ہے اس پر کچھ نہیں کہوں گا لیکن کور انفلیشن ابھی سات فیصد ہے جب تک یہ کم نہیں ہوگی تو مشکلات ہوگی ، اسمگلنگ کو ہر صورت روکنا ہے اس سے ملکی معشیت کو نقصان ہورہاہے، تاجر بھی اسمگلنگ کی اشیا نہ خریدیں اور نہ فروخت کریں، کچھ لوگ فائدے کے لیے یہ کام کرلیتے ہے جو غلط ہے ۔سینئرنائب صدر ایف پی سی سی آئی خواجہ شاہ زیب نے اس موقع پر کہا کہ فیصلہ سازی میں اپیکس باڈی ہونے کیناطے ہمیں نظرانداز کیا جاتا رہا ہے، ہم نے ٹیکس نظام میں بہتری کیلئے ایک ماڈل پیش کیا تھا مگر پذیرائی نہ مل سکی، اسٹیٹ بینک انٹرسٹ ریٹ میں ایک فیصد کمی کرے کیونکہ کووڈکی وباء برقرارہے اور ایک فیصد شرح سود میں کمی سے حکومت کو ہی250 ارب کافائدہ ہوگا،ٹیکس کے شعبوں میں خوف وہراس کی فضاء کو ختم کی جائے، مہنگائی کی رفتار بڑھنے سے ہر طبقہ متاثر ہورہاہے ، چھوٹے تاجر سی این آئی سی کی شرط سے بھی پر یشان ہیں ، اسمگلنگ کیسے ہورہی ہے اس کی روک تھام کے اقدمات کئے جائیں،آسان ریٹرن فارم کو متعارف کرایا جائے ایف پی سی سی آئی میں ایف بی آر کی ایک ہیلپ ڈیسک قائم کی جائے ۔دریں اثناء جمعہ کواوور سیز چیمبر آف کامرس کے ممبران سے خطاب کرتے ہوئے شوکت ترین نے کہا کہ ایف بی آرکو لوگوں کو ہراساں کرنے سے روک دیاگیا ہے،سرمائے کا کوئی مذہب، جغرافیائی حد نہیں ہے،سرمایہ کار کو جہاں منافع نظر آتا ہے وہاں کا رخ کرتا ہے،آئی ایم ایف پروگرام اور مالی مسائل کے سبب ہم مسائل حل نہ کرسکے لیکن ہم سمت کا تعین کریں گے،ہم نے کیا وعدے کئے، کیا حاصل کیا اور کیا نہیں کرسکے، پچھلے ہفتے ہم نے معیشت کا جائزہ لیا اور وزیراعظم کوبھی رپورٹ پیش کی گئی ہے،ہم نے توانائی ، زراعت ، انڈسٹریز اور سی پیک کو فوکس کیا ہے، ماضی میں پاکستان نے کئی ملکوں کی معیشت جی بہتری کے لیے تعاون کیا،حکومتی معاشی پالیسیاں بہتر ہونگی تو تاجر سرمایہ کاری کریں گے۔ انہوں نیکہا کہ بجٹ میں تاجروں کو سہولیات دی گئیں،میں کمیٹیوں پر یقین نہیں رکھتا،حکومت تاجروں کے مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہے۔انکا کہنا تھا کہ صنعتکاروں کے کچھ تحفظات تھے انہیں بھی دور کیا گیا، تاجروں کو مطمئین کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔وزیر خزانہ شوکت ترین نے مزید کہا کہ معاشی صورتحال بہتر بنانے کے لیے حکومت نے طویل ،مختصراور درمیانی مدت کے منصوبے بنائے ہیں،ہم ہر بھروسہ رکھیں صنعتی ترقی کے لیے اہم فیصلے کئے گئے ہیں۔ شوکت ترین نے کہا کہ صنعتکاروں اور سرمایہ کاروں کو فوکس کرنا ترجیحات میں شامل ہیں، اہم ایشو پر ہمیشہ بات کی جاتی رہی ہے، ٹرن اوور ٹیکس اور دیگر مسائل کو بھی فوکس کیا گیا، ریفنڈز کے مسائل کو بھی حل کیا جارہاہے۔وزیر خزانہ نے مزید کہاکہ ایف بی آر اب پوائنٹ ?ف سیلز کے معاملے پر تیزی سے پیش رفت کررہاہے، صنعت کاروں نے جو مسائل اجاگر کئے ان پرمکمل توجہ دی جائے گی۔