کنٹونمنٹ بورڈ انتخابات نتائج: ‘راولپنڈی ہار کر پی ٹی آئی نے ثابت کیا فوج اس کی پشت پر نہیں’، انتخا بی نتائج سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بن گئے
غیر ملکی نشریاتی ادارے کی سینئر صحافیوں و سوشل میڈیا صارفین کے دلچسپ تبصروں پر خصوصی رپورٹ
کنٹونمنٹ بورڈ  کے  انتخابات بلدیاتی درجے کے تھے تاہم قومی سطح پر ان کے نتائج میں دلچسپی سامنے آئی

۔ملک بھر کی تقریبا 39 چھاونیوں میں کل 206 نشستوں پر اتوار کے روز انتخابات منعقد ہوئے تھے

اسلام آباد(ویب  نیوز) پاکستا ن کے کنٹونمنٹ بور ڈ انتخابات کے نتائج سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بن گئے ،سینئر صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین ان انتخابات کے نتائج پر دلچسپ تبصرے کررہے ہیں، ۔ صارفین ان نتائج کو خاص طور پر حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف(پی ٹی آئی) اور پاکستان مسلم لیگ ن کی کارکردگی کا موازنہ کر رہے ہیںکسی نے تبصرہ کیا ہے کہ نتائج نے ثابت کردیا کہ فوج اب حکمران جماعت پی ٹی آئی کی پشت پر نہیں ہے ، جبکہ کئی نے ان انتخابات کے نتائج کو حکمران جماعت کی ناقص کارکردگی سے جوڑا ہے، برطانوی نشریاتی ادارے کی خصوصی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے چاروں صوبوں میں اتوار کے روز فوجی چھاونیوں( کنٹونمنٹ) کے بورڈ کے انتخابات ہوئے۔ یوں تو یہ انتخابات بلدیاتی درجے کے تھے تاہم قومی سطح پر ان کے نتائج میں دلچسپی سامنے آئی۔تمام سیاسی جماعتیں گذشتہ کئی روز سے ان انتخابات میں کامیابی کے لیے زور لگا رہی تھیں۔ کنٹونمنٹ پاکستانی فوج کی مستقل چھاونیاں ہیں جن کا نظام وزارتِ دفاع کے ماتحت قائم کنٹو نمنٹ بورڈ چلاتے ہیں

۔موجودہ دور میں کئی فوجی چھاونیوں کی ہیئت تبدیل ہوئی اور ان کے علاقوں میں گیریژن کے علاوہ سویلین آبادی اور نجی کاروبار وغیرہ بھی قائم ہوئے ہیں۔سویلین آبادی کے اعتبار سے کنٹونمنٹ کو تین انتظامی کلاسوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ملک بھر کی تقریبا 39 چھاونیوں میں کل 206 نشستوں پر اتوار کے روز انتخابات منعقد ہوئے تھے جبکہ باقی تین چھاونیوں کی 13 نشستوں پر یا تو امیدوار بلا مقابلہ کامیاب ہو چکے تھے یا انتخابات ملتوی کر دیے گئے تھے۔یہ انتخابات بھی بلدیاتی انتخابات کی طرز پر ہوتے ہیں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان ان کا انعقاد کروانے کا ذمہ دار ہے۔ ایک بیان میں الیکشن کمیشن نے اتوار کے روز ہونے والے انتخابات کو پر امن اور تسلی بخش قرار دیا ہے۔پاکستان میں سوشل میڈیا پر بھی کینٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات ٹرینڈ کر رہے ہیں۔ صارفین خاص طور پر حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف(پی ٹی آئی) اور پاکستان مسلم لیگ ن کی کارکردگی کا موازنہ کر رہے ہیں۔مقامی ذرائع ابلاغ پر سامنے آنے والے غیر حتمی نتائج کے مطابق پی ٹی آئی نے مجموعی طور انتخابات میں برتری حاصل کر رکھی ہے تاہم وہ صوبہ پنجاب سے کامیاب نہیں ہو پائی جہاں ن لیگ نے سب سے زیادہ نشستیں جیتیں۔خیال رہے کہ زیادہ تر کنٹونمنٹ بورڈ صوبہ پنجاب میں تھے اس لیے ان انتخابات میں زیادہ نشستیں بھی پنجاب ہی کی تھیں۔ن لیگ کی جیتی نشستوں میں لاہورکنٹونمنٹ نمایاں نظر آ رہا ہے تاہم پاکستان تحریکِ انصاف راولپنڈی کنٹونمنٹ، چکلالہ   کنٹونمنٹ اور واہ کنٹونمنٹ میں بھی ہارتی نظر آئی۔سیاسی مبصرین اور سوشل میڈیا پر صارفین کے لیے یہ ایک حیران کن بات ہے۔

عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ حکمراں جماعت کو عمومی طور پر کنٹونمنٹ کے علاقوں میں اچھی خاصی حمایت حاصل ہے۔پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعتیں یہ الزامات بھی عائد کرتی رہی ہیں کہ گذشتہ عام انتخابات میں پی ٹی آئی فوج کی حمایت سے کامیاب ہوئی۔ تاہم پاکستانی فوج کے تعلقاتِ عامہ کے ادارے نے ہر مرتبہ اس کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی فوج سیاست میں دخل اندازی نہیں کرتی۔سوشل میڈیا پر کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات پر تبصروں کے دوران پاکستانی سیاست کا یہ پہلو بھی صارفین کی دلچسپی کا مرکز رہا۔سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک صارف منیب باسط نے لکھا کہ راولپنڈی کینٹونمنٹ سے ہار کر پی ٹی آئی نے ثابت کیا ہے کہ آرمی اس کی پشت پر نہیں ہے۔راولپنڈی، چکلالہ، واہ اور ٹیکسلا کنٹونمنٹ بورڈز کے نتائج کو لے کر ٹوئٹر پر صارفین نے حیرت اور پی ٹی آئی کے حامی صارفین نے غم و غصے کا اظہار کیا۔شایان نامی ایک صارف نے لکھا کہ راولپنڈی، چکلالہ، واہ اور ٹیکسلا کنٹونمنٹ میں ہماری برتری نہیں ہے۔ خوفناک۔احمد شاہ خان نامی ایک صارف نے وزیرِاعظم عمران خان کو ٹیگ کر کے لکھا کہ آپ کی توجہ کی ضرورت ہے۔ چکلالہ اور راولپنڈی کنٹونمنٹ میں کمزور انتخابی مہم، خوفناک ٹکٹنگ اور ہر وارڈ میں دو سے تین امیدوار، ن لیگ 14، جماعتِ اسلامی دو، آزاد امیدوار دو اور پی ٹی آئی ایک نشست۔’ایک اور صارف واصف نے گزشہ انتخابات سے موازنہ کرتے ہوئے لکھا کہ سنہ 2015 کے انتخابات میں واہ کینٹ اور ٹیکسلا سے پی ٹی آئی نے 10 میں سے چھ نشتیں جیتی تھیں۔بعض صارفین کے مطابق ن لیگ نے ان انتخابات میں کچھ حلقوں کو حیران کر کے رکھ دیا ہے جبکہ کچھ کے خیال میں ن لیگ خود بھی حیران ہوئی ہے۔ صحافی نوشین یوسف نے ایسے ہی ایک ٹویٹ کے جواب میں لکھا کہ ‘ن لیگ نے اپنے آپ کو شاکڈ کیا ہے۔’مگر کیا ان انتخابات کے نتائج حیران کن تھے۔ صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے لیے کینٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات کے نتائج زیادہ تر گذشتہ عام انتخابات کے نتائج کی عکاسی دکھائی دیے تاہم راولپنڈی کی چھاونیوں سے پی ٹی آئی کی شکست پر انھیں بھی حیرت ہوئی۔سہیل وڑائچ کے مطابق ‘پی ٹی آئی کے لیے ان علاقوں سے ہارنے کی وجوہات پر غور کرنا ہو گا کیونکہ حکمراں جماعت ہوتے ہوئے توقع یہ تھی کہ وہ ان علاقوں سے جیتے گی۔ دیکھنا یہ ہو گا کہ ان علاقوں میں اس کی حمایت کم ہوئی ہے تو اس کی وجہ ان کی کارکردگی ہے یا کچھ اور۔’ان کے خیال میں صوبہ پنجاب میں ن لیگ ہمیشہ سے مضبوط رہی اور ایک پرانی جماعت ہونے کے ناتے ان کی تنظیم سازی بہت بہتر ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ کینٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ‘گذشتہ تین برس سے پنجاب میں حکمراں جماعت ہوتے ہوئے پی ٹی آئی زیادہ تبدیلی نہیں لا پائی ہے۔’سوشل میڈیا پر حکمراں جماعت کے کارکنان اور حمایت میں بولنے والوں کے علاوہ کئی دیگر صارفین کے لیے پی ٹی آئی کی ان انتخابات میں کارکردگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ اس کی شہرت میں کمی ہوئی ہے۔ایک صارف سہیل خان سومرو نے لکھا کہ ‘آپ پشاور میں گذشتہ آٹھ سال اور وفاق و پنجاب میں گذشتہ تین سال سے سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ حکومتِ وقت ہو کر 211 میں سے 63 نہیں جیتے بلکہ 211 میں سے 148 سیٹیں ہارے ہیں۔صحافی دردانہ نجم نے بھی ایک موازنہ پیش کیا۔ ان کے مطابق ‘ن لیگ پنجاب میں 51 نشستیں جیتی جبکہ پی ٹی آئی کے حصے میں صرف 28 آئیں۔ بہت بڑا فرق ہے۔ صوبہ خیبر پختونخواہ میں جیتنا مشکل نہیں تھا، اسی طرح بلوچستان میں بھی۔ سندھ 14 نشستوں کے ساتھ تقسیم رہا۔’انھوں نے پی ٹی آئی حکومت کو مخاطب کر کے لکھا کہ ‘یہ بالکل بھی حوصلہ افزا نہیں تھا’۔ صحافی مبشر زیدی نے لکھا کہ ‘ن میں سے ش نکالتے نکالتے،

 

کینٹ میں سے ن نکل آئی۔’صحافی شمع جونیجو نے سوالیہ نشان کے ساتھ لکھا کہ ‘پی ٹی آئی پشاور سے ہار گئی ہے؟ تبدیلی کے مرکز سے بڑا اپ سیٹ۔’صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے مطابق اگر راولپنڈی کی چھاونیوں کو چھوڑ کر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو انتخابات کے نتائج زیادہ تر ویسے ہی تھے جیسا کہ توقع کی جا رہی تھی۔لاہور کینٹونمنٹ کی مثال دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہاں چھانیوں سے ملحقہ ایسے علاقے بھی ہیں جو روایتی طور پر ن لیگ کا گڑھ رہے ہیں جن میں قومی اسمبلی کے ممبران خواجہ سعد رفیق اور ایاز صادق کے حلقے شامل ہیں۔’پنجاب میں ن لیگ زیادہ منظم اور پرانی جماعت ہے اس لیے اس کی جیت متوقع تھی۔ خیبر پختونخواہ اور سندھ میں اسے زیادہ نشستیں نہیں ملیں۔ ایسا ہی کچھ گذشتہ انتخابات میں بھی تھا۔ اگر دیکھا جائے تو کچھ زیادہ نہیں بدلا۔’سہیل وڑائچ کے خیال میں کیونکہ انتخابات قومی سطح پر بیک وقت ہو رہے تھے اس لیے یہ بلدیاتی سطح کے انتخابات قومی توجہ کا مرکز بن گئے۔پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ ان کی جماعت ان انتخابات سے ملنے والی تحریک کو آئندہ عام انتخابات تک لے کر جائے گی۔ انھوں نے پنجاب میں اپنی جماعت کی کامیابی کی طرف خاص طور پر توجہ مبذول کروائی۔تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے مطابق اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ کینٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات کا اثر آنے والے عام انتخابات پر ہو گا۔ ‘دو سال میں لوگ سب کچھ بھول جاتے ہیں۔’تاہم ان کا کہنا تھا کہ حکمراں جماعت پی ٹی آئی کو یہ ضرور دیکھنا ہو گا کہ جن علاقوں سے وہ ہاری ہے، اس کی وجوہات کیا ہیں۔ کیا اس کی حمایت میں کمی واقع ہوئی ہے اور اگر ایسا ہے تو اس کی وجہ کیا ہے۔
#/S