غیر مستحکم افغانستان کسی کے مفاد میں نہیں ،عمران خان
دنیا نے اقدامات نہ کیے تو افغانستان میں بہت بڑا انسانی بحران پیدا ہو گا.امریکہ طالبان حکومت کو40ملین افغان شہریوں سے الگ کر کے دیکھیں
نائن الیون کے بعد اسلامو فوبیا کی لہر میں شدت آئی ، اسلام کو دہشتگردی سے جوڑنا حقیقت کے منافی ہے
وزیراعظم کا اوآئی سی کونسل آف فارن منسٹرز کے17ویں غیر معمولی اجلاس کے افتتاحی سیشن سے خطاب
اسلام آباد( ویب نیوز)
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ غیر مستحکم افغانستان کسی کے مفاد میں نہیں ،دنیا نے اقدامات نہ کیے تو افغانستان میں بہت بڑا انسانی بحران پیدا ہو گا۔ میں براہ راست امریکہ سے مخاطب ہوں کہ وہ طالبان حکومت کو40ملین افغان شہریوں سے الگ کر کے دیکھیں، اگر ان کا طالبان کے ساتھ 20سال جھگڑا بھی رہا ہے تو یہ اور بات ہے تاہم یہ اب افغانستان کے لوگوں کا سوال ہے اور40ملین انسانوں کا معاملہ ہے اور فوری طور پر ایکشن لینا ہوگا۔
ہم دو تین ماہ سے کہہ رہے ہیں کہ فوری طور پر ایکشن لینا چاہئے اور اگر فوری طور پر ایکشن نہ لیا گیا تو افغانستان غیر یقینی صورتحال کی جانب بڑھ رہاہے ۔ان خیالات کااظہار وزیر اعظم عمران خان نے پارلیمنٹ ہائوس میں اوآئی سی کونسل آف فارن منسٹرز کے17ویں غیر معمولی اجلاس کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ عمران خان نے کہا کہ میں کانفرنس میں شرکت پرتمام مہمانوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ المیہ یہ ہے کہ آج سے 41سال پہلے بھی اوآئی سی کا غیر معمولی اجلاس پاکستان میں ہوا تھا جس میں افغانستان کے حوالے سے بات چیت کی گئی تھی جس کے بعد افغانستان کی تمام مشکلات کاآغاز ہوا۔ افغانستان سے زیادہ دنیا کو کوئی اور ملک اتنا متاثر نہیں ہوا جتنا افغانستان ہوا ہے۔ 40سال لڑائی میں گزر گئے اور حال ہی میں طویل خشک سالی کاسامنا کرنا پڑا ،15اگست سے قبل بھی ملک کی نصف آباد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزاررہی تھی۔ کرپٹ گورننس کے طویل سال ملک کو دیکھنا پڑے، ملک کا75فیصد بجٹ غیر ملکی امداد پر مشتمل تھا، اس صورتحال میں اگر 15اگست کے بعد غیر ملکی امداد رک جاتی ہے تو اورغیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر منجمد ہو جاتے ہیں ، بینکنگ کا نظام منجمد ہو جاتا ہے تو کوئی بھی ملک ہو وہ گر جائے گا، آئین افغانستان کو اون کریں جو گذشتہ40سال کے دوران شدید مشکلات کاشکار رہا ہے۔ مجھ سے پہلے آنے والے تمام مقررین نے افغانستان کی سنگین صورتحال کی جانب توجہ مبذول کروائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر دنیا فوری طور پر افغانستان کے لئے کچھ نہیں کرے گی تو یہ انسان کا اپنا بنایا ہوا سب سے بڑا بحران ہو گا جو کہ ہم سب کے سامنے آرہا ہے۔ اوآئی سی پر بہت بڑی ذمہ داری ہے، یہ صرف افغانستان کی بگڑتی صورتحال کی وجہ سے ہی نہیں یہ ہماری مذہبی ذمہ داری بھی ہے کہ ہم افغانستان کی مدد کریں ۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ میں براہ راست امریکہ سے مخاطب ہوں کہ وہ طالبان حکومت کو40ملین افغان شہریوں سے الگ کر کے دیکھیں اگر ان کا طالبان کے ساتھ 20سال جھگڑا بھی رہا ہے تو یہ اور بات ہے تاہم یہ اب افغانستان کے لوگوں کا سوال ہے اور40ملین انسانوں کا معاملہ ہے اور فوری طور پر ایکشن لینا ہوگا۔
ہم پہلے ہی تاخیر کا شکار ہو چکے ہیں، ہمیں معلوم ہے کہ افغانستان میں سردی بہت شدید ہوتی ہے، پہلے ہی شرائط لگانا کہ جب تک طالبان تمام افغانوں کو ملا کر حکومت نہیں بناتے،انسانی حقوق کا تحفظ یقینی نہیں بناتے، خواتین کے حقوق کا تحفظ یقینی نہیں بناتے اور اپنی سرزمین پر کسی قسم کی دہشت گردی کی اجازت نہیں دیں گے ،توکیا جب تک یہ شرائط پوری نہیںہوتیں توانسانی امداد نہیں دی جائے گی اوران کے بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر انہیں واپس نہیں کئے جائیں گے اوربینکنگ نظام کو کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ میری افغان وزیر خارجہ سے ملاقات ہوئی انہوں نے کہا ہم ان تینوں شرائط پر عملدرآمد کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جب ہم انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں تو ہر معاشرہ مختلف ہے،ہر معاشرے میں انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کا نظریہ مختلف ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان کی اکثریت پشتونوں پر مشتمل ہے اورصوبہ خیبرپختونخوا جس کی سرحد افغانستان کے ساتھ لگتی ہے اس کے شہروں اور دیہات کا کلچر بالکل مختلف ہے۔ کابل کا کلچر اور دیہی علاقوں کا کلچر میں ہمیشہ مختلف رہا ہے، اسی طرح پشاور اور افغانستان کے ساتھ لگنے والے اضلاع کے کلچر میں بڑا فرق ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ جب ہم انسانی حقوق اورخواتین کے حقوق کی بات کرتے ہیں تو ہمیں اس بارے میں حساس ہونا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ قیاس کا مطلب ہے کہ اگر افغان حکومت میں یہ صلاحیت ہی نہیں ہو گی کہ وہ دہشت گردی کا مقابلہ کرے اورہم جانتے ہیں کہ آئی ایس آئی ایل اس وقت ایک خطر ہ ہے اوریہ خطرہ رہی ہے، یہ لوگ افغانستان سے پاکستان کے اندر حملے کرتے رہے ہیں ، آئی ایس آئی ایس بین الاقوامی سطح پر بھی دہشت گردی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے تاہم اس پر صرف مستحکم افغان حکومت کے ذریعے ہی قابوپایا جاسکتاہے۔ یہ ہمارا بھی مسئلہ ہے، پاکستان نے 80ہزار جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے، افغان جنگ کا ہمیں سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے، ہماری معیشت تباہ ہو گئی، ہمیں 100ارب ڈالرز سے زائد کا نقصان ہوا، 35لاکھ لوگ اندرونی طور پر بے گھر ہو گئے۔ افغانستان میں غیر یقینی صورتحال ہے، مزید مہاجرین آئیں گے جبکہ پہلے ہی ہمارے ہاں30لاکھ سے زائد افغان مہاجرین موجود ہیں۔ آج کی تاریخ تک دو لاکھ34ہزار سے زائدافغان شہری پاکستان میں موجود ہیں جن کا ویزہ ختم ہو گیا ہے اور افغانستان کی صورتحال کی وجہ سے وہ واپس نہیں جاسکتے۔ ا نہوں نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک بھی کوروناوائرس کے نقصانات سے متاثر ہوئے ہیں ، کوروناوائرس کے عالمی معیشت کے اوپر ہونے والے اثرات سے ہم سب متاثر ہو رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ مہاجرین کا ایک اورسیلاب آجائے اوراس کے ساتھ ہمیں دہشت گردی کا بھی سامنا ہو۔میری عالمی برادری اور خاص طور پر امریکہ سے درخواست ہے اور میں جانتاہوںکہ یورپین ممالک صورتحال کو سمجھتے ہیں کیونکہ مہاجرین کا مسئلہ صرف یورپ میں ہی نہیںبلکہ پوری دنیا میں ہے، غیر یقینی کی صورتحال میں نہ صرف پاکستان اور ایران بلکہ دیگر ممالک کو بھی مہاجرین کے مسئلہ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ امیر ممالک میں اگر دو، تین ہزار مہاجرین آجائیں تو مسئلہ بن جاتاہے اور وہاں کی جماعتیں اس مسئلہ کو اٹھاتی ہیں تاہم ہمارے جیسے غریب ممالک جن کی معیشت اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی کوشش کررہی ہے ہم کیسے لاکھوں مہاجرین سے نمٹ سکیں گے۔ یہ کسی کے بھی مفاد میں نہیںہے کہ افغانستان میں غیر یقینی کی صورتحال ہو۔ میں توقع کرتا ہوں کہ آج شام تک اسلامی ممالک کے وزراء خارجہ ایک لائحہ عمل پر متفق ہو جائیں گے اور اس لائحہ عمل کی حمایت نہ صرف اوآئی سی کرے گی بلکہ اقوام متحدہ، یورپین یونین اور امریکہ بھی کرے گا، میں دوبارہ دہراتا ہوں کہ افغانستان میں غیر یقینی کی صورتحال کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پلیٹ فارم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں دو مزید موضوعات پر بات کرنا چاہتا ہوں۔فلسطین اور کشمیر کے لوگ ہماری طرف دیکھ رہے ہیں،وہ ہم سے انسانی حقوق، جمہوری حقوق،جو حقوق انہیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں نے انہیں دیئے ہیں جن پر بدقسمتی سے عملدآمد نہیں کیا گیا وہ ان کے حوالہ سے وہ ہم متفقہ ردعمل چاہتے ہیںاورہمیں چاہئے کہ ہر فورم پر اس حوالے سے آواز بلند کریں اور متفقہ لائحہ عمل اپنائیں۔
انہوں نے کہا کہ میں توقع کرتا ہوں کہ ہم کانفرنس کے اختتام پر متفقہ حکمت عملی سامنے لائیں گے کہ کس طرح ہم افغانستان کو موجودہ بحران سے فوری، درمیانے اور طویل المدتی اقدامات کے ذریعے باہر نکال سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلاموفوبیا بہت اہم مسئلہ ہے، نائن الیون کے بعد اسلامو فوبیا کی لہر میں شدت آئی ہے، اسلام کو دہشتگردی سے جوڑنا حقیقت کے منافی ہے، کوئی بھی مذہب دہشتگردی کی اجازت نہیں دیتا، اسلام ایک ہی ہے اور وہ اسلام ہمارے پیارے نبی کریمۖ کا ہے، ہمیں اسلام کے حقیقی تشخص کو اجاگر کرنا ہو گا، اوآئی سی کی ذمہ داری ہے اسلام کا مثبت تشخص دکھایا جائے، ہمیں اسلام مخالف پروپیگنڈے کے تدارک کیلئے ہمیں ایک موثر آواز بننا ہے۔ پاکستان میں رحمت للعالمین اتھارٹی کے قیام کا مقصد ہی نبی کریمۖکی تعلیمات سے دنیا کو روشناس کرانا ہے۔