منی بجٹ کا عام آدمی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا: وزیراعظم عمران خان

  مہنگائی عالمی مسئلہ ہے، ابھی بھی پاکستان دیگر ممالک کے مقابلے میں سستا ملک ہے

گزشتہ 3 سالوں میں بہت سے مسائل سامنے آئے لیکن ہم مایوس نہیں ہوئے

وزیراعظم بننا کوئی بڑی بات نہیں بلکہ عظیم معاشرہ بنانا اہم ہے

وزیراعظم کاچودہویں انٹرنیشنل چیمبرز کے افتتاحی اجلاس سے خطاب

اسلام آباد( ویب  نیوز) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ  مہنگائی عالمی مسئلہ ہے، ابھی بھی پاکستان دیگر ممالک کے مقابلے میں سستا ملک ہے، منی بجٹ کا عام آدمی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔گزشتہ 3 سالوں میں بہت سے مسائل سامنے آئے لیکن ہم مایوس نہیں ہوئے،قانون کی بالادستی کی جنگ کو جہاد سمجھتا ہوں قانون کی بالادستی کی جنگ صرف عمران خان نے نہیں بلکہ سب نے لڑنی ہے کچھ لوگ طاقت کی حکمرانی چاہتے ہیں لیکن وزیراعظم بننا کوئی بڑی بات نہیں بلکہ عظیم معاشرہ بنانا اہم ہے،14 ویں انٹرنیشنل چیمبرز کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ انڈسٹری لگانے کے لیے زمین بہت مہنگی ہوتی ہے، ہم انڈسٹری لگانے کے لیے زمین لیزپرفراہم کریں گے، صنعتیں لگانے کے لیے سرکاری اراضی لیزپردینے کا فیصلہ کیا ہے، کوشش کر رہا ہوں مدینہ کی ریاست لوگوں کی زندگیوں میں آجائے، مدینہ کی ریاست دنیا کا سب سے بڑا انقلاب آیا تھا، مدینہ کی ریاست دنیا کی تاریخ سب سے کامیاب ماڈل تھا، جب معاشرے میں قانون کی بالادستی نہ ہو تو کرپشن بڑھتی ہے، ہماری جنگ پاکستان میں قانون کی بالادستی قائم کرنا ہے، یہ پاکستان کی مستقبل کی جنگ ہے، بنانا ری پبلک میں انصاف نہیں ہوتا۔ کرپشن کی وجہ سے رنگ روڈ منصوبہ تاخیرکا شکارہوا۔مہنگائی سے متعلق بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ملک میں مہنگائی کی وجہ سے لوگ تکلیف میں ہیں، اس وقت پوری دنیا کا یہ مسئلہ ہے، برطانوی پارلیمنٹ میں بورس جانسن پر گیس کی قیمتیں بڑھنے پر تنقید ہو رہی ہے، ملک میں آئل، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھی، لوگ تکلیف میں ہیں، پاکستان میں ابھی پٹرول کی قیمتیں بھارت،بنگلادیش سے سستی ہیں، کسی بھی حکومت کو اتنا بڑا خسارہ نہیں ملا تھا، سعودی عرب، چین مدد نہ کرتے تو پاکستان دیوالیہ ہو چکا ہوتا، معاشی حالات بہتر ہوئے تو صدی کا بڑا کرائسز کورونا آ گیا تھا، پاکستان نے کورونا کے دوران بہترین پالیسی اپنائی اور مشکل فیصلے کئے، جو ہم نے مشکل فیصلے کیے آج وہی برطانیہ میں بورس جانسن کر رہا ہے، کورونا کے دوران مجھ پربڑی تنقید کی گئی تھی۔ کورونا کے بعد پھرافغانستان کا کرائسزآگیا، پاکستان سے ڈالرافغانستان جانا شروع ہوگیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم پیاز، ٹماٹر بیچ کر خوشحال نہیں ہوسکتے، کورونا کے باوجود لارج سکیل مینو فیکچرنگ میں 15 فیصد اضافہ ہوا، ہماری حکومت کو نااہل کہا جاتا ہے، حکومت نے ملک کو کورونا،بے روزگاری سے بچایا، کنسٹرکشن سیکٹراس وقت بوم کررہا ہے، ایگری کلچر میں 1100 ارب کسانوں نے کمائے، موٹرسایئکل کی ریکارڈ فروخت ہورہی ہے۔ اس بارریکارڈ ٹیکس اکٹھا ہوا ہے، ایک سال میں1300ارب اضافی ٹیکس اکٹھا کیا ہے، کورونا کے باوجود پاکستان کی گروتھ ،ٹیکس ریونیوبڑھا ہے۔کرپشن کے بارے میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یہ جنگ صرف میں نے نہیں پورے معاشرے نے جنگ لڑنی ہے، میں تواسے جہاد سمجھتا ہوں، میں ہر روز یہ جنگ لڑتا ہوں، مافیازنے افراتفری پھیلائی ہوئی ہے یہ ہو گیا، وہ ہو گیا۔عمران خان کا کہنا تھا کہ ایکسپورٹ بڑھانے والوں کو ہرقسم کی سہولت اور انہیں ایوارڈ دینے کی ضرورت ہے۔ ایکسپورٹ، ٹیکس ریونیو اکٹھا کرنا پاکستان کے لیے بہت اہم چیزہے، پاکستان میں کبھی ایکسپورٹ بڑھانے پر توجہ نہیں دی گئی، ایشین ٹائیگربننے والے ملک ایکسپورٹ بڑھانے کی وجہ سے بنے، ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے ہرممکن مدد کریں گے۔ اگرایکسپورٹ نہیں بڑھے گی تو پھرآئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا، پاکستان دنیا میں تقریبا سب سے کم ٹیکس دیا جاتا ہے، پاکستان میں ٹیکس کلچرپروان نہ چڑھانے پر ایف بی آر سمیت سب شامل ہیں، برطانیہ کے حکمران ٹیکس کا پیسہ دیکھ بھال کر استعمال کرتے ہیں، برطانوی لوگ اس لیے ٹیکس دیتے ہیں، بدقسمتی سے پاکستان میں ٹیکس دینے کا کلچرپروان نہیں چڑھا، ہمارے حکمرانوں کا شاہانہ اندازتھا، ٹیکس کلچر کو پروان چڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امیرملکوں نے بھی کبھی یونیورسل ہیلتھ کی کوشش نہیں کی، سندھ کے علاوہ ہر خاندان کو10لاکھ کی انشورنس دے رہے ہیں،ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم بننا میرا خواب نہیں تھا، وزیراعظم بن کر پاکستان کو عظیم ملک بنانا میرا خواب ہے۔انہوں نے کہا کہ کمپنیوں کو 930ارب روپے کا منافع ہوا، 10 سال میں سب سے زیادہ نجی شعبے کی اپ ٹیک 1100 ارب روپے ہوئی،  ایکسپورٹ اور ٹیکس کلیکشن ملک کے مستقبل کیلئے ضروری ہے۔وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ برآمدات نہیں بڑھائیں گے تو آئی ایم ایف میں پھنس جائیں گے، ٹیکس وصولی پاکستان میں دنیا کے مقابلے میں سب سے کم ہے، ہمارے ہاں ٹیکس کلچر نہیں ہے، ٹیکس کلچر بنانے کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔عمران خان نے کہا کہ فی خاندان 10 لاکھ روپے کی ہیلتھ انشورنس دے رہے ہیں، ہیلتھ کارڈ سے کسی بھی اسپتال میں علاج کرایا جاسکتا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ ترسیلات زر پاکستان کی تاریخ کی سب سے زیادہ 32ارب ڈالر رہیں، میں نے کہا تھا کہ 8ہزار ارب روپے ٹیکس اکھٹا کروں گا، ہم نے 6 ہزار ارب ٹیکس اکھٹا کیا۔ قانون کی حکمرانی کی جنگ سب نے لڑنی ہے، مافیاز نہیں چاہتے کہ ملک میں قانون کی بالادستی ہو۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ رنگ روڈ منصوبے میں کرپشن کی وجہ سے دیر ہوئی، کچھ لوگوں کو فائدہ دینے کے لیے منصوبے کی الائنمنٹ بدلی گئی، ۔ رنگ روڈ کے منصوبے میں جو تبدیلی کی گئی تھی اسے ہم نے ٹھیک کر دیا ہے۔ ماضی میں انڈسٹریل زون ڈکلیئر کیے گئے لیکن بجلی، پانی وغیرہ کی منصوبہ بندی نہیں تھی۔عمران خان نے کہا کہ ہماری حکومت بزنس کمیونٹی کو ہر طرح کی سہولت دے رہی ہے جبکہ ماضی میں سیاحت پر کبھی کسی نے توجہ ہی نہیں دی