جج کو اللہ تعالیٰ اورآئین کا ڈر ہونا چاہئے،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
ہماری زندگیاں ایک ہی مقصد کے تحت گزرتی ہیں ، قانون کے شعبہ سے میری وابستگی کو44سال ہو گئے
جب قانون انگریزی میں ہو اوران کے ترجمے لوگوں کو نہ ملیں تو پھر آپ لوگوں کو کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ قانون پر عمل کریں
لاہورہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی تقریب سے خطاب
لاہور (ویب نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان کے تیسرے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ جج کو اللہ تعالیٰ کی ذات اورآئین کا ڈر ہونا چاہئے ۔ ہماری زندگیاں ایک ہی مقصد کے تحت گزرتی ہیں۔ قانون کے شعبہ سے میری وابستگی کو44سال ہو گئے ہیں۔ عوام کی شکایت ہے کہ فیصلے برسوں بعد ہوتے ہیں۔ پاکستان میں جتنے قوانین بنتے ہیں وہ انگریزی زبان میں بنتے ہیں۔جب قانون انگریزی میں ہو اوران کے ترجمے لوگوں کو نہ ملیں تو پھر آپ لوگوں کو کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ قانون پر عمل کریں۔قانون سازی میں انگریزی زبان میں تو بہت کچھ ہوا تاہم قانون سازی میں اُردو زبان میں بھی تیز کام کی ضرورت ہے۔ لاہورہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ انگریزی زبان میں تو بہت کام ہوا ہے اور اُردو زبان میں ابھی بہت کام ہونا باقی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جتنے قوانین بنتے ہیں وہ انگریزی زبان میں بنتے ہیں ، مجھے سمجھ نہیںآیا کہ اسی وقت چاہے وفاقی پارلیمان ہو یا صوبائی اسمبلیاں ہوں وہی قانون اُردو میں بھی اسی وقت کیوں شائع نہیں ہوسکتا ہے، اس معاملہ پر بھی وکلاء آواز اٹھا سکتے ہیں۔ جب قانون انگریزی میں ہو اوران کے ترجمے لوگوں کو نہ ملیں تو پھر آپ لوگوں کو کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ قانون پر عمل کریں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جہاں تک مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کی بات ہے تو حالات کو بہتر بنانے کے لئے کچھ اقدام اٹھائے جاسکتے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ جب میں بلوچستان ہائی کورٹ کا چیف جسٹس تھا تو وکلاء کی ہڑتال کی وجہ سے کبھی عدالت کا کام معطل نہیں ہوا، ہمارے تعلقات وکیلوں کے ساتھ بہت اچھے تھے اور میرے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے تھے تاکہ اگر کوئی مسئلہ ہو تو وہ اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے مجھ سے آکر بات کریں، بیشتر ایسے مسئلے ہوتے تھے جو نظام عدل کی بہتری کے لئے ہی ہوتے تھے، جس پر کوئی دورائے نہیں ہوسکتی، ہڑتال کی سزاسائلین کو بھگتنا پڑتی ہے، جج اورعدالت کے عملے کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتااوران کو پہلے کی طرح اپنی تنخواہ ملتی رہتی ہے۔کسی اصولی مسئلہ پر جدوجہد اوراپنی آواز بلندکرنے کے لئے ہڑتال کے علاوہ بھی کئی طریقے ہیں، بشمول خط لکھنا، قراردادمنظورکرنا وغیر ہ، اس طرح سائلین کو تکلیف دیئے بغیر ایک باعزت طریقہ سے مسئلہ کی نشاندہی ہو جاتی ہے اور ضرورت پڑے تو احتجاج بھی، احتجاج کرنا بھی وکلاء کا آئینی حق ہے۔ ZS