اگر صدر بائیڈن کو میرے بارے میں غلط فہمی ہے تو مجھے بھی پرواہ نہیں: سعودی ولی عہد
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ اگر امریکی صدر کو ان کے بارے میں غلط فہمی ہے تو انھیں اس کی کوئی پرواہ نہیں۔
ایک امریکی جریدے کے ساتھ انٹرویو میں ولی عہد نے یہ بھی کہا کہ وہ اسرائیل کو دشمن کے طور پر نہیں دیکھتے بلکہ ایک اتحادی کے امکان کے طور پر دیکھتے ہیں۔
سعودی ولی عہد کے امریکی جریدے ‘دی اٹلانٹک’ کو دیئے گئے انٹرویو کو سعودی پریس ایجنسی نے بھی شائع کیا ہے۔
اس انٹرویو میں ولی عہد محمد بن سلمان نے اسلام، وہابیت، قرآن، اسرائیل اور امریکہ سمیت بہت سے مسائل پر تفصیل کے ساتھ بات کی۔
اٹلانٹک نے ولی عہد سے پوچھا کہ کیا وہ سعودی عرب کو اس قدر جدید کریں گے کہ اس کی اسلامی شناخت کمزور ہو جائے؟
اس سوال کے جواب میں ولی عہد نے کہا کہ ‘دنیا کے ہر ملک کا قیام مختلف نظریات اور اقدار کی بنیاد پر عمل میں آیا ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ جمہوریت، آزادی اور آزاد معیشت جیسی اقدار پر قائم ہے۔ لوگ ان اقدار کی بنیاد پر متحد رہتے ہیں۔ لیکن کیا تمام جمہوریتیں اچھی ہیں؟ کیا تمام جمہوریتیں ٹھیک طریقے سے کام کر رہی ہیں؟ یقینی طور پر نہیں۔
‘ہمارا ملک اسلام کی اقدار اور نظریات کی بنیاد پر بنا ہے۔ اس میں قبائلی ثقافت ہے، عرب ثقافت ہے۔ سعودی ثقافت اور عقائد بھی اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ ہماری روح ہے۔ اگر ہم نے اسے چھوڑ دیا تو ملک تباہ ہو جائے گا۔
سعودی ولی عہد نے کہا کہ ہمارے لیے سوال یہ ہے کہ سعودی عرب کو ترقی اور جدیدیت کے صحیح راستے پر کیسے ڈالا جائے۔ اسی طرح کے سوالات امریکہ کے لیے ہیں کہ جمہوریت، آزاد منڈیوں اور آزادی کو صحیح راستے پر کیسے رکھا جائے۔ یہ سوال اہم ہے کیونکہ وہ غلط راستے پر جا سکتے ہیں۔’
انھوں نے مزید کہا: ‘اس لیے ہم اپنی اقدار سے نہیں بھاگیں گے کیونکہ یہ ہماری روح ہے۔ سعودی عرب میں مقدس مساجد ہیں، انھیں کوئی نہیں ہٹا سکتا۔ ان مقدس مساجد کو ہمیشہ قائم رکھنا ہماری ذمہ داری ہے اور ہم سعودی عوام کے لیے، اس خطے کے لیے ملک کو صحیح راستے پر رکھنا چاہتے ہیں۔ امن اور بقائے باہمی کی بنیاد پر ہم چاہتے ہیں کہ باقی دنیا سے چیزوں کو شامل کریں۔’
اعتدال پسند اسلام کی اصطلاح سے متفق نہیں
دی اٹلانٹک کے صحافی نے ولی عہد محمد بن سلمان پوچھا- ‘میرا خیال ہے کہ آپ بھی اس بات سے اتفاق کریں گے کہ اگر ہم 1983 میں آپ کے عہدے پر کسی سے بات کر رہے ہوتے، اس کے مقابلے میں جس طرح اعتدال پسند اسلام کو فروغ دیا جا رہا ہے، وہ بالکل مختلف ہے۔’
اس سوال کے جواب میں ولی عہد نے کہا کہ ‘میں لبرل یا اعتدال پسند اسلام جیسی اصطلاح استعمال نہیں کرتا کیونکہ اس اصطلاح کے استعمال سے انتہا پسند اور دہشت گرد خوش ہوتے ہیں۔ اعتدال پسند اسلام جیسی اصطلاح کا استعمال ان کے لیے اچھی خبر ہے۔ اگر ہم اعتدال پسند اسلام کہتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ سعودی عرب اور دیگر مسلم ممالک میں اسلام کو تبدیل کیا جا رہا ہے جو درست نہیں ہے۔
‘ہم اسلام کی حقیقی تعلیم کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ یہ رسول اللہ کا راستہ ہے اور یہی راستہ چاروں خلفاء نے اختیار کیا۔ یہ ایک آزاد اور پرامن معاشرے کا راستہ ہے۔ عیسائی اور یہودی بھی ان کی حکومت میں رہتے تھے۔ انھوں نے ہمیں تمام ثقافتوں اور مذاہب کا احترام کرنا سکھایا ہے۔ یہ نبی اور چاروں خلفاء کی تعلیم ہے۔ یہ بہترین ہے اور ہم اسی جڑ کی طرف واپس جا رہے ہیں۔ ہوا یہ ہے کہ انتہا پسندوں نے اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے ہمارے مذہب کو اغوا کیا اور تبدیل کر کے رکھ دیا۔’
ولی عہد نے کہا: ‘وہ کوشش کر رہے ہیں کہ لوگ اسلام کو ان کے طریقے سے دیکھیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ نہ کوئی ان سے بحث کر رہا ہے اور نہ ہی ان سے سنجیدگی سے لڑ رہا ہے۔ ایسے میں انھیں اپنے انتہا پسندانہ خیالات کو پھیلانے کا موقع مل رہا ہے۔ جس کی وجہ سے سنی اور شیعہ دونوں گروہ میں انتہائی شدت پسند دہشت گرد تنظیمیں پیدا ہو چکی ہیں۔
انتہا پسندی پر رائے
دی اٹلانٹک نے پوچھا: ‘یہاں کے مذہبی گروہ سے منسلک افراد کا کہنا ہے کہ 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں اخوان المسلمون کے زیر اثر انتہا پسندی پروان چڑھی، لیکن یہ بھی واضح ہے کہ سعودی اثر و رسوخ بھی ہے۔ سعودی قدامت پسندی بھی اہم ہے۔ وہابیت بھی ہے۔ آپ سعودی انتہا پسندی سے کیسے نمٹ رہے ہیں؟’
ولی عہد نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ‘اخوان المسلمون نے انتہا پسندی کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہ دوسری انتہا پسندوں کو اکٹھا کرنے میں پل بن گئے ہیں۔ اسامہ بن لادن اخوان المسلمون کے رکن تھے۔ الظواہری کا تعلق بھی اسی سے تھا۔ دولت اسلامیہ کے رہنما بھی اس سے وابستہ رہے ہیں۔ تو اخوان ہی راستہ ہے۔ اس نے پچھلی دہائیوں میں انتہا پسند گروپوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
لیکن یہ صرف اخوان المسلمین کے بارے میں نہیں ہے۔ بہت سی چیزیں ہیں جنھوں نے انتہا پسندی کی حوصلہ افزائی کی۔ ایسا صرف مسلم دنیا کے ساتھ نہیں ہوا۔ امریکہ کے ساتھ بھی ہوا۔ مثال کے طور پر عراق پر حملے نے انتہا پسندوں کے لیے اپنا نقطہ نظر بیان کرنا آسان بنا دیا۔ یہ درست ہے کہ کچھ انتہا پسند سعودی میں بھی ہیں۔’
وہابیت کے بارے میں رائے
ولی عہد نے وہابیت کے بارے میں کہا کہ میں یہ کہنا چاہوں گا کہ محمد بن عبد الوہاب کوئی نبی نہیں تھے۔ وہ ایک عالم تھے اور ویسے ہی عالم تھے جو پہلے سعودی ریاست میں ہوا کرتے تھے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جزیرہ نما عرب میں صرف عبد الوہاب کے طلباء ہی تاریخ لکھنا یا پڑھنا جانتے تھے۔ اور انھوں نے اسے اپنے انداز میں لکھا۔
‘عبد الوہاب کی تحریروں کو انتہا پسند اپنے ایجنڈے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر عبد الوہاب، بن باز اور دیگر زندہ ہوتے تو وہ شدت پسندوں اور دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے۔ دولت اسلامیہ سعودی عرب میں کسی زندہ مذہبی شخصیت کی مثال نہیں دیتی۔ لوگ اپنا ایجنڈا ان کے نام پر پورا کرتے ہیں جو اس دنیا میں نہیں ہیں۔’
ولی عہد نے کہا کہ سعودی عرب عبد الوہاب نہیں ہے۔ سعودی میں سنی اور شیعہ ہیں اور سنیوں میں بھی چار مکاتب فکر کے لوگ ہیں اور شیعہ کے اندر بھی بہت سے مکاتب فکر کے لوگ ہیں۔ سبھی مذہبی بورڈ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ آج سعودی عرب میں مذہب کو کسی ایک مکتب کی نظر سے نہیں دیکھا جا سکتا۔
‘آج ہم صحیح راستے پر ہیں۔ ہم اپنی جڑوں کی طرف واپس جا رہے ہیں، ہم خالص اسلام کی طرف جا رہے ہیں اور یہ سب کے حق میں ہے۔ اگر آپ سنہ 2016 میں انٹرویو لے رہے ہوتے تو کہتے کہ یہ سب گمان اور قیاس آرائیاں ہیں۔ لیکن ہم نے کر لیا ہے۔ اس وقت آپ سعودی عرب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ آپ پچھلے چھ سات سال پہلے کی سعودی ویڈیو دیکھیں۔ ہم نے بہت کچھ کیا ہے اور ابھی بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔’