وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے سابق چیف جسٹس گلزار احمد کو پاکستان کا نگران وزیراعظم بنانے کی تجویز

اسلام آباد(ویب  نیوز)

وزیراعظم عمران خان نے سابق چیف جسٹس گلزار احمد کو پاکستان کا نگران وزیراعظم بنانے کی تجویز دی ہے۔ وزیر اعظم ہاوس سے جاری اعلامیہ کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے اس مقصد کے لیے صدر ڈاکٹر عارف علوی کے خط کے جواب میں  سابق چیف جسٹس گلزار احمد کا نام تجویز کیا،سابق وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اس سلسلے میں ایک ٹویٹ میں لکھا کہ صدر مملکت کے خط کے جواب میں تحریک انصاف کور کمیٹی سے مشورے اور منظوری کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کا نام نگران وزیر اعظم کے لیے تجویز کیا ہے۔اس سے قبل صدر مملکت عارف علوی نے وزیراعظم عمران خان اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کو آئین کے آرٹیکل 224 اے ون کے تحت نگران وزیراعظم کی تعیناتی کے لیے موزوں نام دینے کے لیے خط لکھا تھا۔صدر مملکت کی جانب سے یہ خط گزشتہ روز ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانب سے وزیراعظم کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کے بعد بھیجا گیا تھا۔ایوان صدر سے جاری خط میں ڈاکٹر عارف علوی نے کہا تھا کہ آئین کے آرٹیکل (1) 58 کے تحت 3 اپریل 2022 کو قومی اسمبلی اور وفاقی کابینہ تحلیل کردی گئی تھی۔صدر مملکت نے کہا  تھا کہ آئین کے آرٹیکل 224 اے فور کے تحت نگران وزیراعظم کی تقرری تک وزیراعظم عمران خان بدستور وزیراعظم ہوں گے۔خط میں دونوں شخصیات سے کہا گیا تھا کہ وہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 224 اے (1) کے تحت بطور نگراں وزیر اعظم تقرر کے لیے ایک موزوں شخص کا نام تجویز کریں۔انہوں نے دونوں رہنماوں کو آگاہ کیا تھا کہ اگر وزیراعظم اور سبکدوش ہونے والی قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کسی شخص کو نگران وزیراعظم بنانے پر متفق نہ ہوں تو قومی اسمبلی کی تحلیل کے تین دن کے اندر وہ ہر دو نامزد افراد کو قومی اسمبلی کے اسپیکر کی جانب سے فوری طور پر تشکیل دی جانے والی کمیٹی کے پاس بھیجیں گے۔یہ کمیٹی سبکدوش ہونے والی قومی اسمبلی، یا سینیٹ، یا دونوں کے 8 اراکین پر مشتمل ہوگی جس میں حکومتی اور اپوزیشن کو نمائندگی حاصل ہوگی اور آئین کے آرٹیکل 224 اے(1) کے تحت انہیں بالترتیب وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کی جانب سے نامزد کیا جائے گا۔دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے کہا ہے کہ وہ اس عمل کا حصہ نہیں بنیں گے کیونکہ یہ غیرقانونی ہے۔انہوں نے کہا کہ صدر اور وزیراعظم نے قانون توڑا ہے اور سوال یہ ہے کہ وہ اپوزیشن سے کیسے رابطہ کرسکتے ہیں۔