بھارت میں انتہا پسندوں کا مسجد پرچڑھ کر رقص اورجے شری رام کے نعرے،ویڈیووائرل

ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ہاتھوں میں زعفرانی رنگ کے جھنڈے تھامے ہندو انتہا پسندوں کے ایک گروہ نے مسجد کو گھیرے میں لے رکھا ہے

گہمار گائوں میں مسلمان بہت کم تعداد میں رہتے ہیں، وہ سب اس واقعے کے بارے میں بات کرنے سے خوفزدہ تھے، سماجی کارکن عظمی پروین

 واقعے کا نوٹس لے لیا ہے اور آئی پی سی کے سیکشن 153 (اے)کے تحت نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے، ایس پی غازی پور

غازی پور(ویب  نیوز) بھارت میں ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے کا سلسلہ جاری ہے۔بھارتی ریاست اتر پردیش کے شہر غازی پور کے گائوں گہمار میں ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے مسجد کے تقدس کو پامال کرنے کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ہاتھوں میں زعفرانی رنگ کے جھنڈے تھامے ہندو انتہا پسندوں کے ایک گروہ نے مسجد کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔ ہجوم میں شامل افراد نہ صرف جے شری رام کے نعرے لگارہے ہیں بلکہ مسجد کے اوپر چڑھ کر اور ارد گرد خوفناک طریقے سے رقص بھی کررہے ہیں۔لکھنو سے تعلق رکھنے والی ایک سماجی کارکن عظمی پروین نے یہ ویڈیو اپنے ٹوئٹر اکائونٹ پر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ یہ واقعہ 2 اپریل کو اس وقت پیش آیا تھا جب بھارتی جنتا پارٹی کی سابق ایم ایل اے سنیتا سنگھ نے ایک ریلی نکالی تھی۔ عظمی پروین نے میڈیا کو ویڈیو کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ابتدا ء میں کہا جارہا تھا کہ یہ ویڈیو راجستھان کے کرالی کی ہے جہاں فرقہ ورانہ تصادم کی اطلاعات ہیں۔ لیکن گہمار گائوں کے ایک رہائشی نے عظمی کو بتایا کہ یہ ویڈیو کرالی کی نہیں بلکہ اس کے گائوں کی ہے۔ عظمی نے بتایا کہ ویڈیو کے بارے میں بتانے والا شخص طالبعلم ہے اور اتناخوفزدہ تھا کہ اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا اور نشانہ بننے کے خوف سے اس بارے میں میڈیا سے بات کرنے کو بھی تیار نہیں تھا۔ عظمی پروین کے مطابق گہمار گائوں میں مسلمان بہت کم تعداد میں رہتے ہیں۔ وہ سب اس واقعے کے بارے میں بات کرنے سے خوفزدہ تھے اور کوئی بھی واقعے اور ملزمان کے خلاف شکایت درج کرانے کے لیے سامنے نہیں آرہا ہے۔ عظمی نے کہا کہ گائوں کے مسلم د کانداروں کو اکثر مقامی افراد کی جانب سے ہراساں کیاجاتا ہے جو زیادہ تر ہندو ہیں۔ انہوں نے مسجد پر حملے کے بارے میں حقائق سامنے لانے کے لیے گمہار گائوں جانے کا عزم ظاہر کیا جبکہ انہیں بھی نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ عظمی نے بتایا کہ ویڈیو ٹوئٹر اکائونٹ پر شیئر ہونے کے بعد پولیس نے مسجد کے ارد گرد گشت لگانا شروع کردیا ہے۔ سب سے زیادہ خوفزدہ کرنے والی بات یہ ہے کہ عبادت گاہ پر تشدد میں ملوث افراد عظمی کے بارے میں پوچھ گچھ کررہے ہیں، لیکن عظمی کا کہنا ہے کہ وہ مجرموں کی سزا ملنے تک واقعے کے خلاف اپنی آواز بلند کرتی رہیں گی۔ سماجی کارکن عظمی پروین کی ٹوئٹ پر ردعمل دیتے ہوئے غازی پور پولیس کا کہنا ہے کہ واقعے کے خلاف کوئی شکایت درج نہیں کی گئی ہے۔ تاہم غازی پور کے دیہی ایس پی کو ویڈیو کی تحقیقات کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ پولیس نے یقین دہانی کرائی ہے کہ تحقیقات کے دوران اگر کوئی قصوروار پایا گیا تو اسے سخت سزا دی جائے گی۔ غازی پور کے ایس پی کا کہنا ہے کہ انہوں نے واقعے کا نوٹس لے لیا ہے اور آئی پی سی کے سیکشن 153 (اے)کے تحت نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے۔ ایک مقامی رہائشی مرتضی انصاری کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ہندئوں کے مذہبی تہوار نوراتری کے موقع پر ہندو توا کے ایک گروہ نے ریلی نکالی۔ جب ریلی گائوں کے جنوبی علاقے میں پہنچی تو ریلی میں شامل چند لوگوں نے مسجد پر زعفرانی رنگ کے جھنڈے لہرائے اور جے شری رام کے نعرے لگائے۔ 5 منٹ تک مسجد میں موجود ہجوم نے مسجد پر رنگوں کا چھڑکائو کیا۔