نئی دہلی  (ویب ڈیسک)

بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی  نے کہا ہے کہ دنیا مختلف دھڑوں میں منقسم ہے لیکن بھارت اپنے مفادات کے لیے غیر جانبدار موقف پر قائم ہے۔ ان کا یہ بیان ایسے وقت آیا ہے جب امریکہ نے بھارت سے روس کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا ہے۔جرمن ٹی وی کے مطابق بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے چھ اپریل بدھ کے روز کہا کہ وہ کسی بھی عالمی دبا وکے سامنے جھکے بغیر اس مضبوط آزادانہ موقف پر قائم ہیں، جو قومی مفادات کو ترجیح دینے کی اجازت دیتا ہے۔یوکرین پر روسی حملے کے تناظر میں مغربی ممالک بھارت سے روسی کارروائیوں کی مذمت کرنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں تاہم بھارت نے کبھی ایسا نہیں کیا۔ اس کا موقف ہے کہ روس کے ساتھ اس کے دیرینہ دفاعی تعلقات ہیں اور وہ اس معاملے میں کسی بھی فریق کی حمایت یا مخالفت نہیں کر سکتا۔ اس طرح بھارتی موقف عملی طور پر روس کی حمایت میں رہا ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی بدھ کے روز اپنی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی 42 ویں یوم تاسیس کے موقع پر کارکنان سے خطاب کر رہے تھے۔ یہ ان کی آن لائن ویڈیو کانفرس تھی جس میں انہوں نے اپنی حکومت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ بھارت اب بین الاقوامی سطح پر تیزی سے اپنی ساکھ بحال کر رہا ہے۔انہوں نے کہا، آج بھارت بغیر کسی خوف اور دباو کے اپنے مفادات کے ساتھ دنیا کے سامنے مضبوط کھڑا ہے۔ جب پوری دنیا دو مختلف حریف دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے، بھارت کو ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو مضبوطی سے انسانیت کی بھی بات کر سکتا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ تحریک حاصل کرنے کا ایک بڑا موقع ہے۔ عالمی منظر نامہ تیزی سے بدل رہا ہے اور اس کے عالمی نظام پر بھی گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے، بھارت  کے لیے بہت سے نئے مواقع بھی سامنے آ رہے ہیں۔منگل کے روز ہی امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے امریکی کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے روسی دفاعی آلات پر نئی دہلی کے انحصار کو کم کرنے کی امریکی خواہش پر زور دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بھارت کے بہترین مفاد میں نہیں ہے کہ وہ روس کے فوجی ساز و سامان میں اپنی سرمایہ کاری کا سلسلہ جاری رکھے۔امریکی وزیر دفاع نے امریکہ کے سالانہ دفاعی بجٹ پر مباحثے کے دوران کہا، ”ہم ان (بھارت) کے ساتھ کام کرنا جاری رکھیں گے تاکہ اس بات کو یقینی بناسکیں کہ انہیں یہ بات سمجھ میں آگئی ، جیسا کہ ہم سمجھتے ہیں، کہ روسی دفاعی آلات میں سرمایہ کاری کا سلسلہ جاری رکھنا ان کے بہترین مفاد میں نہیں ہے۔آسٹن کا مزید کہنا تھا، ”ہم چاہتے ہیں کہ وہ جس قسم کے آلات میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں ان میں کمی کر دیں اور ان چیزوں پر مزید سرمایہ کاری کریں جو ہمیں مسابقت کے لائق بناسکیں۔ لائیڈ آسٹن امریکی کانگریس کے رکن جوئے ولسن کے ایک سوال کا جواب دے رہے تھے، جنہیں امریکی کانگریس میں بھارت کا دوست سمجھا جاتا ہے۔ تاہم انہوں نے یوکرین پر روسی فوجی حملے کے حوالے سے بھارت کے موقف پر نکتہ چینی کی تھی۔گزشتہ ہفتے ہی روسی وزیر خارجہ کی نئی دہلی آمد سے قبل امریکہ کے قومی سلامتی کے نائب  مشیر دلیپ سنگھ نئی دہلی پہنچے تھے اور اس موقع پر بھی انہوں نے چین اور روس کے تعلقات کے حوالے سے بھارت کو آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ نئی دہلی کے لیے اس کے مضمرات ہوں گے۔ روس بھارت کے لیے ہتھیاروں اور دیگر اسٹریٹیجک اشیا کا ایک بڑا سپلائر ہے۔ لیکن یوکرین پر حملے کے سبب امریکہ نے روس پر پابندیاں عائد کی ہیں اور فی الحال ایسے کوئی اشارے نہیں ہیں کہ بھارت روس کے ساتھ اپنے تجارتی اور اسٹریٹیجک تعلقات میں کسی طرح کی کوئی کمی کرے گا۔ بھارت نے حال ہی میں ماسکو کے ساتھ کئی بڑے معاہدے بھی کیے ہیں اور اس وقت وہ روس سے سستے داموں پر تیل بھی خرید رہا ہے۔ بھارت کے اس موقف سے امریکہ بہت خوش نہیں ہے اور اسی لیے وہ اپنی تشویش کا اظہار بھی کرتا رہا ہے۔گزشتہ ہفتے امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ ‘کواڈ ملکوں میں بھارت ہی ہے جو روس کے خلاف متزلزل نظر آتا ہے جبکہ باقی ارکان نے ثابت قدمی سے کام لیا ہے۔ لیکن بھارت کا کہنا ہے کہ اس کے روس اور امریکہ دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔