اسلام آباد (ویب ڈیسک)

ایوان صدر میں شہباز شریف نے وزیراعظم پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھا لیا ہے، چیئرمین سینیٹ اور قائم مقام صدر صادق سنجرانی نے شہباز شریف سے وزارت عظمیٰ کا حلف لیا۔

واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی مختصر رخصت پر چلے گئے ہیں جس کے سبب وہ نئے وزیراعظم شہباز شریف سے حلف نہیں لے سکے۔

ایوان صدر میں منعقد تقریب میں شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے شرکت کی۔ حلف برداری کی تقریب کا آغاز قومی ترانے کے بعد تلاوتِ قرآن پاک سے ہوا۔

اپوزیشن کے نامزد امیدوار شہباز شریف بلامقابلہ پاکستان کے 23 ویں وزیراعظم منتخب ہوگئے جبکہ تحریک انصاف کے ارکان انتخابی عمل کا بائیکاٹ کرتے ہوئے ایوان سے باہر چلے گئے۔

قومی اسمبلی کا اہم ترین اجلاس قائم مقام اسپیکر قاسم سوری کی زیر صدارت شروع ہوا۔ اپوزیشن کے نامزد امیدوار شہباز شریف سمیت اپوزیشن کے تمام ارکان اسمبلی ایوان میں موجود ہیں۔ پی ٹی آئی کے منحرف ارکان ایوان میں موجود نہیں تاہم پی ٹی آئی کے ارکان اور نامزد امیدوار شاہ محمود قریشی نے اجلاس میں شرکت کی۔

پی ٹی آئی اراکین کے ایوان میں آتے ہی شور شرابہ شروع ہوگیا۔ مسلم لیگ (ن) کی خواتین نے نواز شریف کی تصویر ایوان میں لہرا دی جس پر پی ٹی آئی ارکان نے گلی گلی میں شور ہے، نواز شریف چور ہے کے نعرے لگائے جس پر مسلم لیگی ارکان نے  وزیراعظم شہباز شریف کے جوابی نعرے لگائے۔

اجلاس کے آغاز پر قائم مقام اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے ایوان سے خطاب کیا اور کہا کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر جو فیصلہ میں نے کیا تھا وہ حالات اور واقعات کے عین مطابق تھا، وہ فیصلہ پاکستانی کی حیثیت سے کیا، میں نے قومی اسمبلی کے محافظ کے طور پر اسپیکر کے طور پر کیا۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی کابینہ، قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں وہ غیر ملکی مراسلہ دکھایا جاچکا ہے اور اس بات کی تائید کی گئی کہ پاکستان کے وزیراعظم کے خلاف جو معاملات ہوئے وہ غیر ملکی سازش ہے، وفاقی کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ یہ مراسلہ ڈی کلاسیفائیڈ کیا جائے۔

اس موقع پر ڈپٹی اسپیکر نے مراسلہ ایوان میں لہرا دیا اور کہا کہ اس مراسلے میں برملا پاکستان کو دھمکی دی گئی ہے، یہ مراسلہ پاکستان میں عدم اعتماد کی تحریک آنے سے قبل دیا گیا جس میں کہا گیا کہ اگر تحریک کامیاب نہ ہوئی تو پاکستان کو سنگین حالات سے گزرنا پڑے گا، عمران خان کا یہ قصور تھا کہ انہوں نے پاکستان کے لیے آواز بلند کی، کیا یہ ملک غلامی کے لیے بنا؟ آج میں پورے پاکستان کے عوام سے پوچھتا ہوں؟

انہوں نے مراسلہ اسمبلی کی جانب سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو ارسال کرنے کا اعلان کردیا اور کہا کہ میں نے عدالت عظمی کا جو بھی فیصلہ ہے اسے من و عن تسلیم کیا تاہم سب سے کہتا ہوں کہ خدارا اس پر سوچیں، کوشش ہے کہ ایوان کو قانون کے مطابق چلاؤں۔

اسپیکر نے سب سے پہلے شاہ محمود قریشی کو بات کرنے کی اجازت دی۔ تحریک انصاف کی جانب سے وزیراعظم کے لیے نامزد امیدوار شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آج کوئی جیت کر بھی ہار جائے گا اور آج کوئی ہار کر بھی جیت جائے گا، آج قوم کو دو میں سے ایک راستہ چننا ہے ایک خودی کا دوسرا غلامی کا، میں اپنے تمام ممبران کا شکر گزار ہوں جو جھکے نہیں بکے نہیں۔

انہوں نے کہا کہ جے یو آئی ایک سیاسی جماعت ہے، اسی ایوان میں بیٹھی ایک جماعت نے مفتی محمود کو یہاں سے نکالا، یہاں اے این پی بیٹھی ہے یہیں ایک جماعت نے ان کے خلاف مقدمات بنائے، آج پیپلز پارٹی یہاں بیٹھی ہے اس کے ساتھ وہ ہے جنہوں نے محترمہ کی بے توقیری کی، آج قاتل و مقتول یہاں اکٹھے بیٹھے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج اختر مینگل یہاں بیٹھے ہیں مگر ان کے ساتھ بیٹھے ہیں جن کے جلیل القدر والد عطاء مینگل سے جیل کی چکیاں پسوائی گئیں، آج ایم کیو ایم بھی بیٹھی ہے جو تین سال آٹھ ماہ حزب اختلاف کا کردار سندھ میں ادا کرتی رہی۔

انہوں نے کہا کہ آج شہباز شریف کو وزیراعظم کے لیے پیش کیا جارہا ہے کون نہیں جانتا کہ انہیں مسلط کیا جارہا ہے، اپوزیشن کا اتحاد غیر فطری ہے، جوڑ توڑ کرکے عارضی حکومت مسلط کی جارہی ہے، آج گیارہ اپریل ہے جسے وزیراعظم بننا ہے آج اس کی پیشی تھی اس پر اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات ہیں، شہباز چاہتے ہیں کہ وزیراعظم بن کر کرپشن کے کیسز ختم کردیں۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بازگشت ہے کہ بلاول کو وزیر خارجہ بنایا جائے گا، بلاول نے شہباز کی دی گئی وزارت قبول کی تو یہ بھٹو کے نواسے کو سجتی نہیں، یہ پاکستان کی عجیب جمہوریت ہے جس میں باپ وزیراعظم اور بیٹا وزیر اعلیٰ بن رہا ہے۔

اس موقع پر قائم مقام اسپیکر سمیت پی ٹی آئی کے تمام ارکان اسمبلی نے وزارت عظمی کے الیکشن کا بائیکاٹ کرتے ہوئے اسمبلی کی نشستوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔

اس بات کا اعلان شاہ محمود قریشی نے اپنی تقریر کے اختتام پر کیا جس کے بعد تحریک انصاف کے ارکان ایوان سے جانا شروع ہوگئے۔ قاسم سوری نے اسپیکر شپ سنبھالنے سے معذرت کرتے ہوئے صدارت ایاز صادق کو سونپ دی اور انہوں نے بطورپینل آف چئیر قائم مقام اسپیکر کی کرسی سنبھال کر ایوان کو چلانا شروع کردیا۔