حلف کی پاسداری نہ کرنا بے ایمانی ،پارٹی سے انحراف کینسر کے مترادف ہے۔سپریم کورٹ پاکستان
آرٹیکل 63۔اے کا مقصد پارٹی سے دفاداری کو یقینی بنانا ہے، چیف جسٹس عمر عطابندیال
آئین کے آرٹیکل 63 اے کا مستقبل یہ بھی ہے کہ پارٹی معاف کردے، دوران سماعت فاضل ججز کے ریمارکس
اسلام آباد ( ویب نیوز)
سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 63-اے کی تشریح کے لیے بھجوائے گئے صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران ابزرویشن دی ہے کہ حلف کی پاسداری نہ کرنا بے ایمانی اور پارٹی سے انحراف کینسر کے مترادف ہے۔آرٹیکل 5 میں درج ہے کہ ہر جماعت کے رکن کی ریاست سے وفاداری لازم ہے، نااہلی تو معمولی چیز ہے، آرٹیکل 63۔اے کا مقصد پارٹی سے دفاداری کو یقینی بنانا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 63 اے کا مستقبل یہ بھی ہے کہ پارٹی معاف کردے،1998 سے یہ آرٹیکل آج تک صرف ایک کیس میں آیا ہے، اس کا مطلب ہے پارٹی سربراہ نے اس آرٹیکل کو سنجیدہ نہیں لیا،اس کی کیا وجہ ہے پارٹی سے انحراف کرنے والوں کو واپس لیا جاتا ہے، اس کی وجہ سیاست میں لچک ہے۔چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربرہی میںجسٹس اعجازالاحسن، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے بھجوائے گئے صدارتی ریفرنس کی سماعت کا آغاز کیا تو پاکستان پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے مسلسل دوسرے روز دلائل جاری رکھتے ہوئے موقف اپنایا کہ 1997 میں 13 ویں آئین ترمیم کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 58 ٹو بی کو ختم کیا گیا تھا ،اورفوجی صدرپرویز مشرف نے 2002 میں ایل ایف او کے ذریعے آرٹیکل58 ٹو بی کو بحال کیااس کے بعد سال2010 میں 18 ویں ترمیم کے ذریعے 58 ٹو بی دوبارہ ختم کیا گیا، فاروق نائیک کا کہنا تھاکہ چودہویں آئینی ترمیم میں آرٹیکل 63 اے کو آئین میں شامل کیا گیا ، اور اسی چودہویں ترمیم کے ذریعے پارٹی سربراہ کو بہت وسیع اختیارات دیئے گئے تھے ،الیکشن کمیشن کے پاس پارٹی سربراہ کا فیصلہ مسترد کرنے کا اختیار نہیں تھا ، فاروق ایچ نائیک نے مزید کہا کہ2002 میں صدارتی آرڈر کے ذریعے 63 اے میں ترمیم کر دی گئی،2002 کی تبدیلی کے ذریعے پارٹی ہیڈ کے اختیارات کو کم کردیا گیاجبکہ18 ویں ترمیم میں پارٹی سربراہ کے اختیار کو پارلیمانی پارٹی کے سربراہ کو دے دیا گیا ،ان کا کہنا تھا کہ 18 ویں ترمیم میں آرٹیکل63 اے کے تحت اختیارات کو مزید کم کردیا گیااور حتمی فیصلے کا اختیار سپریم کورٹ کو دے دیا گیا ، فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھاکہ18 ویں میں الیکشن کمیشن کو تین ماہ میں فیصلہ کرنے کا پابند بنا دیا گیا ،اٹھارہوں ترمیم میں آرٹیکل تریسٹھ اے کے ریفرنس پر فیصلہ کا اختیار الیکشن کمیشن کو دیا گیا ہے۔ نااہلی کی کتنی میعاد ہو گی وہ ارٹیکل تریسٹھ میں دے دی گئی ہے،فاروق نائیک نے کہاکہ یہ صدارتی ریفرنس آئین کے آرٹیکل تریسٹھ اے کے خلاف نہیں ہے۔ صدارتی ریفرنس صرف ارٹیکل تریسٹھ اے کی ذیلی شق چار سے متعلقہ ہے۔ فاروق نائیک کا کہنا تھا کہ انگریز کی اخلاقیات کچھ اور ہیں اور مسلمانوں کی اخلاقیات کچھ نہیں ہیں۔ اللہ نے فرمایا جھوٹ نہیں بولنا لیکن روز عدالتوں میں لوگ جھوٹی گواہیاں دیتے ہیں جھوٹ بولتے ہیں۔انگریز سے کہیں عدالت میں جھوٹ بولیں وہ جھوٹ نہیں بولتے انگریز تو اپنے بھائی کو فائدہ دینے کے لیے جھوٹ نہیں بولے گا۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ آرٹیکل 62-1 ایف میں میعاد نہیں تھی۔ اس لئے آرٹیکل باسٹھ ون ایف کی تشریح سپریم کورٹ نے کی۔فارق نائیک کا کہنا تھا کہ قانون سازوں نے آرٹیکل تریسٹھ اے میں منحرف رکن کے لیے نااہلی کا تعین نہیں کیا۔چیف جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ آئین کے آرٹیکل تریسٹھ اے میں چار مواقع پر وفاداری کو پارٹی پالیسی سے مشروط کر دیا ہے، وفاداری بنیادی آئینی اصول ہے۔ایک نااہلی کوئی معمولی بات ہے آئین کے ارٹیکل تریسٹھ اے کا مقصد پارٹی سے دفاداری کو یقینی بنانا ہے۔ ضروری نہیں جو حاصل کرنا ہے وہ آرٹیکل تریسٹھ اے سے حاصل کریں۔ ہم نے آئین کو مجموعی طور پر دیکھنا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہاکہ پارٹی ٹکٹ ہولڈر ہر امیدوار حلف دیتا ہے،ٹکٹ ہولڈر حلف دیتا ہے کہ کس پارٹی سے وابستہ ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ ٹکٹ ہولڈرز اپنے کاغذات نامزدگی میں حلف دیتاہے کہ وہ پارٹی پالیسی ڈسپلن کا پابند رہے گا۔ فاروق نائیک نے کہاکہ کسی رکن کو غلام نہیں بنایا جا سکتا۔جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس کے دوران سوال اٹھایاکہ اگر کوئی شہری سرکاری نوکری لیتا ہے تو کیا وہ غلام ہو جاتا ہے؟فاروق نائیک نے جواب دیا کہ اگر کوئی رکن خلاف ورزی کرتا ہے تو سزا ارٹیکل 63 اے میں لکھ دی گئی ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہاکہ حلف کی پاسداری نہ کرنا بے ایمانی ہے۔ انخراف کرنے والا کسی سیاسی جماعت کے ٹکٹ پر آتا ہے۔ کینسر کیا ہوتا ہے؟ یہ کینسر ہوتا ہے کہ باڈی کے سیل جسم کوتباہ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ پارٹی سے انحراف کو بھی کینسر کہا گیا ہے۔ جسٹس منیب اخترنے کہاکہ پارٹی سے انحراف پر نااہلی نہیں ہوتی۔جسٹس اعجازالاحسن نے سوال اٹھایا کہ کیا بے ایمانی پر نااہلی نہیں ہو سکتی؟۔ کیا بے وفائی بے ایمانی نہیں ہوتی ؟فاروق نائیک نے ، جسٹس اعجاز الاحسن کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ بے وفائی سخت لفظ ہے اس کا آرٹیکل 63 اے میں ذکر نہیں، جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھاکہ کوئی پارٹی ممبر مستعفی ہو جائے تو وزیر اعظم کیسے منتخب ہوگا؟فاروق نائیک نے کہاکہ مستعفی رکن الیکشن لڑ کر دوبارہ آسکتا ہے، بے ایمانی ہو یا بے وفائی دونوں کے نتائج آئین میں دیے گئے ہیں، منحرف رکن اپنی نشست سے ہاتھ دھو بیٹھے گا ،قانون سازوں نے آرٹیکل 63 اے میں منحرف رکن کے لیے نااہلی کا تعین نہیں کیا،چیف جسٹس نے کہاکہ آرٹیکل تریسٹھ اے میں چار مواقعوں پر وفاداری کو پارٹی پالیسی سے مشروط کر دیا ہے،اٹارنی جنرل کو دلائل کے دوران کہا تھا آرٹیکل 63 اے وفاداری سے متعلق ہے، وفاداری بنیادی آئینی اصول ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ آرٹیکل 5 میں درج ہے کہ ہر جماعت کے رکن کی ریاست سے وفاداری لازم ہے، چیف جسٹس نااہلی تو معمولی چیز ہے آرٹیکل 63 اے کا مقصد پارٹی سے دفاداری کو یقینی بنانا ہے،جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ جب ایک رکن حلف میں کہتا ہے کہ وہ ایک جماعت کا رکن ہے تو اس کا مطلب ہے وہ پارٹی پالیسز کا پابند ہے،فاروق نائیک نے کہاکہ پارٹی رکن غلام تو نہیں ہوتا کہ ہر بات پر عمل کرے، جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ سرکاری ملازم اگر ملازمت کرتے ہیں تو کیا وہ غلام ہوتے ہیں؟ ہر چیز ہر جماعت کے کچھ قوائد و ضوابط ہوتے ہیں جن کی پابندی لازم ہے، چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ اگر کوئی شخص بدیانتی پر نا اہل ہو جائے تو وہ اگلا الیکشن کے لیے بھی نا اہل ہو جاتا ہے، فاروق نائیک نے کہاکہ یہ بات آئین میں کسی جگہ نہیں لکھی ، یہ بات دکھا دیں میں روسٹرم چھوڑ دونگا ،جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اہلیت (کوالی فیکیشن) اورنااہلی ( ڈس کوالی فیکیشن) کے آرٹیکل آگ کی دیوار نہیں،اگر بے وفائی بے ایمانی ہے تو آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق ہوگا ،فاروق نائیک نے کہاکہ وفاداری صرف بادشاہت میں ہوتی ہے،اگر یہ مان بھی لیں کہ رکن نے بے وفائی کی ہے تب بھی ڈی سیٹ ہوگا ، عوام کو فیصلہ کرنے دیں کس کو منتخب کرنا ہے ، جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ پھر آرٹیکل 62 اور 63 کو آئین سے نکال دیں،فاروق نائیک نے کہاکہ انحراف پر کسی رکن کوتاحیات نااہل نہیں کرسکتے ہیں، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہاکہ نااہلی جیسی بڑی سزا ٹرائل کے بغیر نہیں دی جا سکتی،آزاد کامیاب ہو کر پارٹی میں شامل ہونے والے نے جماعت سے وفاداری کا حلف نہیں لیا ہوتا،فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ عدالت گھوڑے اور گدھے کو ایک نہیں کر سکتی، ، جسٹس اعجازالاحسن نے فاروق نائیک سے کہاکہ واضح کریں کہ گدھا کون ہے اور گھوڑا کون ہے۔فاروق نائیک نے کہاکہ کوئی رکن اسمبلی پارٹی سربراہ کی ہر بات ماننے کا حلف نہیں اٹھاتا، جسٹس منیب اختر نے کہاکہ پارلیمانی جمہوریت میں آزاد اراکین ہونے ہی نہیں چاہییں،چند اراکین کے آزاد ہونے سے فرق نہیں پڑتا، جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ سیاسی جماعتیں پارلیمانی نظام میں ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہیں، ریڑھ کی ہڈی کو کینسر لگا کر نظام کیسے چلایا جا سکتا ہے؟ فاروق نائیک نے جواب دیا کہ منحرف اراکین ڈی سیٹ ہوتے لیکن ہیں نااہل نہیں، چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ آئین کے آرٹیکل 63 اے کا مستقبل یہ بھی ہے کہ پارٹی معاف کردے،1998 سے یہ آرٹیکل آج تک صرف ایک کیس میں آیا ہے، اس کا مطلب ہے پارٹی سربراہ نے اس آرٹیکل کو سنجیدہ نہیں لیا،اس کی کیا وجہ ہے پارٹی سے انحراف کرنے والوں کو واپس لیا جاتا ہے، اس کی وجہ سیاست میں لچک ہے، فاروق نائیک نے جواب دیا کہ سیاست میں سخت گیری سے انتشار پھیلتا ہے، جسٹس منیب اختر نے سوال اٹھایا کہ یہ بتادیں جو رکن انحراف کرے وہ ڈی سیٹ کے بعد ضمنی الیکشن لڑسکتا ہے؟۔فاروق نائیک نے کہاکہ پارٹی سے انحراف پرڈی سیٹ ہونے والا ضمنی الیکشن لڑسکتا ہے کیونکہ انحراف کرنے والے کی کی یہی سزا ہے کہ ڈی سیٹ ہو۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک کے دلائل مکمل ہوئے تو چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ آپ نے بڑے اچھے دلائل دیئے اپ نے بہت سارے گرے ایریاز کو کلئیر کیا ہے، اس دوران ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے دلائل میں کہاکہ پیسے دیکر ووٹ خریدنے والے اراکین سے استعفے بھی دلواسکتے ہیں۔ سیاسی معاملے میں عدالت کو بلاوجہ ملوث کیا جارہا ہے،صدارتی ریفرنس کی ٹائمنگ بہت مشکوک ہے۔ سلمان طالب الدین کا کہنا تھاکہ منحرف اراکین پر باسٹھ ون ایف لگنے کا مطلب آرٹیکل تریسٹھ اے ختم ہو گیا۔آرٹیکل تریسٹھ اے میچور جمہوریت کی جانب ایک قدم ہے۔ آرٹیکل تریسٹھ اے کہتا ہے واپس عوام میں جائیں۔ اس دوران چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ کیا پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان دلائل دیں گے۔ علی ظفر ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ بابر اعوان آئینی درخواست پر کچھ نکات اٹھائیں گے۔چیف جسٹس نے سوال کیاکہ آرٹیکل تریسٹھ اے تحت سپریم کورٹ اپیل میں کیا فیصلہ کر سکتی ہے؟۔ ایک سوال یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پارٹی کے خلاف ووٹ دیا گیا یا نہیں؟ دوسرا سوال یہ ہوسکتا ہے۔ کہ پارٹی سے انحراف ہوا۔اگر پالیسی کے خلاف ووٹ دیدیا تو عدالت کسی چیز کا تعین کرے گی ۔ رہنما پاکستان پیپلزپارٹی رضاربانی نے کہاکہ وہ جمعرات کو عدالت کے ان سوالات کے جوابات دیں گے۔عدالتی وقت ختم ہونے پر کیس کی سماعت آج جمعرات تک ملتوی کر دی گئی ۔
#/S