ہمارے سیاسی نظام میں بہت زیادہ اتار چڑھاؤ، ہیجان دباؤ اور عدم استحکام موجود ہے۔عدالت عظمی
عدالت عظمی نے نئے اٹارنی جنرل اشتراوصاف کے سامنے دو قانونی سوال اٹھا کر معاونت طلب کرلی
ہم نے آئین کا تحفظ کرنا ہے اس لئے آرٹیکل تریسٹھ اے کی تشریح کا ریفرنس سن رہے ہیں،چیف جسٹس عمر عطابندیال
اسلام آباد (ویب نیوز)
سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے بھجوائے گئے صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران ابزرویشن دی ہے کہ کسی رکن پارلیمان پر تاحیات پابندی لگانا بہت بڑی سزا ہے، پارٹی سے انحراف ایک بہت بڑا ناسور ہے ملک کی ترقی کے لئے مستحکم حکومت کی ضرورت ہے1970 سے جو میوزیکل چیئر چل رہی ہے اسے ختم ہونا چاہیے۔ہمارے سیاسی نظام میں بہت زیادہ اتار چڑھاؤ، ہیجان دباؤ اور عدم استحکام موجود ہے۔عدالت عظمی نے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کے سامنے دو قانونی سوال رکھے ہیں اور انہیں ان پر معاونت کیلئے کہا ہے ۔ چیف جسٹس نے واضح کیاہے کہ ہم نے آئین کا تحفظ کرنا ہے اس لئے آرٹیکل تریسٹھ اے کی تشریح کا ریفرنس سن رہے ہیں،آئینی ترمیم کے ذریعے منحرف ارکان سے متعلق آرٹیکل تریسٹھ اے لانے کا کوئی مقصد ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے بھجوائے گئے صدارتی ریفرنس کی سماعت کا آغاز کیا تومسلم لیگ ق کے وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے مسلسل دوسرے روز دلائل جاری رکھتے ہوئے موقف اپنایا کہ آرٹیکل 63 اے کا مقصد ارکان کو انحراف سے روکنا ہے،ارکان کو انحراف سے روکنے کے لیے آئین میں ترمیم بھی کی گئی، اظہر صدیق کا کہنا تھاکہ16 اپریل کو پی ٹی آئی کے ارکان نے پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کی،منحرف ارکان نے پارٹی پالیسی کے برعکس حمزہ شہباز کو ووٹ دیا،منحرف ارکان کیخلاف ریفرنس الیکشن کمیشن میں زیر التوا ہے،ق لیگ کے وکیل اظہر صدیق نے پانچ مئی کے اخبار میں شائع آرٹیکل کا حوالہ دیا تو چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ یہ آرٹیکل کس نے لکھا اور کب شائع ہوا،اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ آرٹیکل پانچ مئی کو شائع ہوا، رائٹر کا نام بعد میںبتا دوں گا، چیف جسٹس نے کہاکہ ہم الیکشن کمیشن میں زیرسماعت نااہلی ریفرنس پر رائے نہیں دے سکتے، منحرف ارکان کا معاملہ الیکشن کمیشن میں زیر التوا ہے، اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے کہا کہ میرا مقدمہ نااہلی ریفرنس نہیں ہے، میرا مقدمہ یہ ہے کہ دن کی روشنی میں پارٹی کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا،جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے ریمارکس دیئے کہ اس معاملے کا جائزہ الیکشن کمیشن نے لینا ہے،الیکشن کمیشن کے فیصلے کیخلاف اپیل سپریم کورٹ ہی آئے گی،جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہاکہ آپکی پارٹی کے کچھ لوگ ادھر، کچھ ادھر ہیں اورق لیگ کے سربراہ خاموش ہیں،ایک بلوچستان کی پارٹی ہے انکے لوگوں کا پتہ نہیں وہ کدھر ہیں، آدھی پارٹی ادھر ہے آدھی پارٹی ادھر ہے، جس کی چوری ہوتی ہے اسکو معلوم ہوتا ہے، ان پارٹیوں کے سربراہ ابھی تک مکمل خاموش ہیں،اظہر صدیق نے کہا کہ انڈیا میں منحرف ارکان کے لئے ڈی سیٹ نہیں بلکہ نااہلی کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیاکی انڈیا کے 10 شیڈول میں منحرف رکن کی نااہلی کی معیاد کتنی ہے؟ یہ کیوں کہتے ہیں کہ سیاستدان چور ہیں؟ جب تک تحقیقات نہیں کی جاتیں تو ایسے بیان کیوں دیتے ہیں؟ چیف جسٹس نے کہاکہ اٹھائیس مارچ کو عدم اعتماد پر قرارداد منظور ہوئی، اکتیس مارچ کو عدم اعتماد پر بحث ہونا تھی،یہ سوال پوچھنا چاہیے تھا کہ عدم اعتماد کیوں لائی گئی، اکتیس مارچ کو ارکان نے عدم اعتماد پر ووٹنگ کا مطالبہ کیا, چیف جسٹس نے واضح کیا کی ہم نے آئین کا تحفظ کرنا ہے اس لئے آرٹیکل تریسٹھ اے کی تشریح کا ریفرنس سن رہے ہیں،منحرف ارکان سے متعلق آرٹیکل تریسٹھ اے کا کوئی مقصد ہے،آئینی ترامیم کے ذریعے تریسٹھ اے کو لایا گیا۔چیف جسٹس عمرعطابندیال نے کہاکہ کسی رکن پر تاحیات پابندی لگانا بہت بڑی سزا ہے، آرٹیکل 62(1) ایف کے اطلاق کی بھی بڑی شرائط ہیں، چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کیا آرٹیکل 63 اے کے ساتھ آرٹیکل 62(1) ایف کو پڑھ سکتے ہیں ؟ پارٹی سے انحراف ایک بہت بڑا ناسور ہے ملک کی ترقی کے لئے مستحکم حکومت کی ضرورت ہے,1970 سے جو میوزیکل چیئر چل رہی ہے اسے ختم ہونا چاہیے۔ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے جواب دیا کہ میری نظر میں قانون غیر موثر ہے،ابھی بھی ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ کسی کو غلط اقدام اٹھانے کی اجازت نہیں دے سکتے،قانون کے اندر عدالت کوئی تبدیلی نہیں کر سکتی، جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ پارٹی پالیسی سے انحراف کی ایک سزا ڈی سیٹ ہونا ہے،ڈی سیٹ کے ساتھ دوسری سزا کیا ہو سکتی ہے؟آرٹیکل 63 اے میں نااہلی کی معیاد کا ذکر نہیں،سوال یہ ہے کہ آرٹیکل تریسٹھ اے کو کسی دوسرے آرٹیکل کے ساتھ ملا سکتے ہیں؟،ڈی سیٹ ہونا توآئینی نتیجہ ہے، جسٹس جمال خان کا کہنا تھاکہ سوال یہ ہے کہ منحرف کو نااہلی کرنے کا طریقہ کار کیا ہوگا، کیا نااہلی کے لیے ٹرائل ہوگا،اگر رشوت کا الزام لگایا ہے تو اسکے شواہد کیا ہوں گے؟جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ انحراف بذات حود ایک آئینی جرم ہے،مخرف ارکان کے لیے ڈی سیٹ ہونا سزا نہیں ہے،اظہر صدیق نے جواب دیا کہ قانون کے مطابق الیکشن ہوں گے تو یہ چیزیں ختم ہو جائیں گی،ق لیگ کے وکیل اظہر صدیق کے دلائل مکمل ہوئے توسپریم کورٹ بار کے وکیل منصور اعوان نے دلائل کا آغاز کیا اس دوران اٹارنی جنرل اشتراوصاف کمرہ عدالت میں پہنچ گئے اس د۔ منصور اعوان ایڈووکیٹ کا دلائل میں کہنا تھاکہ آرٹیکل تریسٹھ اے کے تحت منحرف رکن کا ووٹ شمار ہوگا، جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ منحرف رکن کی نااہلی کی معیاد کیا ہو گی ؟ منصور اعوان نے کہاکہ آرٹیکل تریسٹھ اے منحرف رکن کو ڈی سیٹ کرتا ہے، قانون سازوں نے منحرف رکن کے لیے نااہلی کی معیاد نہیں رکھی جسٹس منیب اختر نے کہاکہ رضا ربانی نے فوجی عدالتوں پر اعتراض کیالیکن اعتراض کرنے کے باوجود رضا ربانی نے ووٹ فوجی عدالتوں کے حق میں دیارضا ربانی نے ضمیر کی آواز کے باوجود ووٹ پارٹی کو دیاجسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی میں ایک رکن نے پارٹی پالیسی سے انحراف کیا اور وہ ڈی سیٹ ہوئے, آج وہ سیاسی شخصیت سینیٹر ہے, جسٹس اعجازالاحسن نے سپریم کورٹ بار کے وکیل سے مکالمہ کے دوران سوال کیاکہ کیا تاریخ میں کسی رکن کے ضمیر کے مطابق انحراف کرنے کا کوئی ڈاکومنٹ ہے؟ کیا آپ سمجھتے ہیں انحراف کرنا ٹھیک ہے، آئین میں انحراف کو غلط کہا گیا ہے،سپریم کورٹ بار کے وکیل کا کہنا تھاکہ ضمیر کی آواز پر جو انحراف کرے اسکی سزا ڈی سیٹ ہونا ٹھیک ہے تاہم جس نے پیسے لیکر انحراف کیا اسکی سزا سخت ہونی چاہیے،جسٹس منیب اختر نے کہاکہ اگرضمیر کی بات ہے تو انحراف نہ کریں، انحراف سے بہتر ہے ضمیر کی آواز پر استعفی دیا جائے کیونکہ انحراف کرنے والوں کیلئے عوام سخت لفظ استعمال کرتے ہیں،وہ لفظ میں استعمال نہیں کروں گا منحرف ارکان ہوٹلوں میں جاتے ہیں تو عوام آوازیں کستے ہیں،وکیل سپریم کورٹ بار نے کہاکہ منحرف اراکین نے آخر کار عوام میں جاکر انکا سامنا کرنا ہے ، جسٹس منیب اختر نے کہاکہ آئین کے آرٹیکل تریسٹھ اے کو آرٹیکل 17(2) کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں،آرٹیکل 17 کی ذیلی شق 2 کے تحت سیاسی جماعتوں کے حقوق ہوتے ہیںاس دوران اٹارنی جنرل روسٹرم پر آگئے تو چیف جسٹس نے کہاکہ اٹارنی جنرل آپ کے آنے کا شکریہ کیا آپ اس معاملے پر عدالت کی معاونت کریں گے؟ اشتراوصاف نے جواب دیا کہ اگر عدالت چاہے گی تو اگلے ہفتے منگل کو عدالت کی معاونت کروں گا چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت کے سامنے بڑا اہم اور پیچیدہ سوال ہے ایسے معاملات پر کہیں لائن کھینچنا پڑے گی, آپ پیر کو صدارتی ریفرنس پر ہماری معاونت کریں،چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کے سامنے سوال اٹھایا کہ کیا آرٹیکل تریسٹھ اے کی تشریح اس انداز سے کرسکتے ہیں جس سے سیاسی و قانونی استحکام آئے؟کیا آئینی تشریح میں پارٹی سربراہ کو اجازت دے دیں،پارٹی سربراہ چاہے تو منحرف ارکان کے خلاف کاروائی کرے،پارٹی سربراہ نہ چاہے تو کاروائی نہ کرے،چیف جسٹس نے کہاکہ ہمارے سیاسی نظام میں بہت زیادہ اتار چڑھاؤ، ہیجان دباؤ اور عدم استحکام موجود ہے عدالت میں فریقین کے درمیان فیصلہ کرنا ہوتا ہے ہزاروں مقدمات عدالتوں کے سامنے زیرِالتوا ہیںاٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہاکہ عدالتی بحث سے کسی نا کسی سمت کا تعین ہوجائے گا،جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایک نقطہ یہ بھی ہے کہ منحرف رکن کا ووٹ شمار نہ کیا جائے چیف جسٹس نے کہاکہ ہر معاملہ عدالت میں آرہا ہے ہم یہاں بیٹھے جماعتوں کے آپس کے اور اندونی معاملات کو حل کرنے کیلئے ہیں۔ سپریم کورٹ بار کے وکیل منصور اعوان نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہاکہ آئین ضمیر کے مطابق ارکان کو ووٹ کا حق دیتا ہے، جسٹس منیب اختر کا کہنا تھاکہ پارلیمانی نظام حکومت میں سیاسی جماعتوں کا ڈسپلن ضروری ہوتاہے، اگر آپکی دلیل تسلیم کر لیں تو سیاسی جماعتیں کہاں کھڑی ہوں گی، اس طرح سارا نظام تباہ ہو جائے گا، پارٹی ڈسپلن نہیں ہوگا تو سیاسی جماعت میں انتشار ہوگا، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آرٹیکل 17 (2)کے تحت سیاسی جماعتوں کے حقوق ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیاکہ سیاسی جماعتوں کے حقوق کا آرٹیکل 17 اور 63 اے کی موجودگی میں رابطہ کہاں منقطع ہو جاتا ہے؟منصور اعوان ایڈووکیٹ نے کہاکہ اگر پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو جماعت اپنی سیٹ واپس لے سکتی ہے،چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہاکہ 1973 کے آئین میں قانون ساز سسٹم کو مستحکم کرنا چاہتے تھے،1985 میں آرٹیکل 96 کو ختم کردیا گیا،اور انتخابات غیر جماعتی بنیاد پر کرائے گئے، سپریم کورٹ نے 1989 قرار دیا کہ انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوں،سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ سیاسی جماعتوں کے حقوق ہیں، اس کے بعد آرٹیکل 63 اے کو آئین میں شامل کیا گیا، چیف جسٹس نے چار سوالات اٹھائے کہ کیا آرٹیکل 63 اے کو محض ایک رسمی آرٹیکل سمجھ لیں؟کیا آرٹیکل 63 اے سیاسی جماعتوں کے بنیادی حقوق سے بھی منسلک ہے؟کیا آرٹیکل 63 اے کو محض شوپیس آرٹیکل سمجھ لیں؟ کیا آرٹیکل 63 اے کا کوئی اثر بھی ہونا چاہئے؟ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھاکہ آئین آزادی اظہار رائے کا حق بھی دیتا ہے لیکن یہاں کہا جا رہا ہے کہ منحرف رکن کی سزا بڑھا دیں،سپریم کورٹ بار کے وکیل منصور اعوان کے دلائل مکمل ہوئے تو عدالت نے بلوچستان نیشنل پارٹی کے وکیل کو تحریری معروضات جمع کرانے کی ہدایت کردی اورکیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔