کچھ لوگوں نے غیر قانونی طور پر پی ٹی آئی کا نام لیکر فنڈاکٹھے کئے،وکیل پی ٹی آئی

فنڈنگ کے ذرائع کیا تھے؟،ممبرالیکشن کمیشن نثار احمد درانی

 ذاتی حیثیت میں فنڈنگ لی گئی، تفصیلات سکروٹنی کمیٹی میں جمع کرائیں،انورمنصور

ایجنٹس نے گڑ بڑ کی تو پارٹی نے کیا کارروائی کی؟،ممبر نثار احمد درانی

 پارٹی نے گڑ بڑ کرنے والے ایجنٹس کو ہٹا دیا تھا،انورمنصور کا جواب

 الیکشن کمیشن نے کیس کی مزید سماعت آج (جمعرات ) تک ملتوی کردی

اسلام آباد (ویب  نیوز)

ممنوعہ فنڈنگ کیس کی سماعت میں پاکستان تحریک انصاف کے وکیل انورمنصور نے کہا ہے کہ کچھ لوگوں نے غیر قانونی طور پر پی ٹی آئی کا نام لیکر فنڈ اکٹھے کئے اور سینٹرل فنانس کمیٹی کی اجازت کے بغیر کوئی فنڈنگ ہوئی تو پی ٹی آئی ذمہ دار نہیں۔ بدھ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس کی سماعت کی۔ پی ٹی آئی کے وکیل انور منصور الیکشن کمیشن پیش ہوئے اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 2010میں پی ٹی آئی امریکہ میں رجسٹر ڈہوئی، کچھ لوگوں نے غیر قانونی طور پر پی ٹی آئی کا نام لیکر فنڈنگ اکٹھی کی، پارٹی چیئرمین نے اس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے ہدایات جاری کیں، سینٹرل سیکرٹری فنانس کی اجازت کے بغیر اکٹھی کی گئی فنڈنگ سے متعلق ہدایات دیں، سینٹرل فنانس کمیٹی کی اجازت کے بغیر کوئی فنڈنگ ہوئی تو پی ٹی آئی ذمہ دار نہیں۔کمیشن کے ممبر سندھ نثار احمد درانی نے پوچھا کہ فنڈنگ کے ذرائع کیا تھے؟۔ تو انور منصور نے جواب دیا کہ ذاتی حیثیت میں فنڈنگ لی گئی، پی ٹی آئی نے فنڈنگ کی تمام تفصیلات سکروٹنی کمیٹی میں جمع کرائیں، پی ٹی آئی فنڈز کا بین الاقوامی معیار پر ایکسٹرنل آڈٹ بھی کرایا جاتا رہا، فنڈنگ کے غیر قانونی استعمال روکنے کیلئے چیکس اینڈ بیلنسز رکھے گئے، 2013 میں پارٹی فنڈنگ کا نظام بہتر بنانے کیلئے سینٹرل فنانس کمیٹی نے خط لکھا، 2013 سے قبل فنڈنگ میں مسائل تھے جس پر پارٹی چیئرمین نے خط لکھا، غلطیوں کی نشان دہی کے بعد ذمہ داروں کو وارننگ لیٹر بھی دیئے گئے ۔ممبر سندھ نے پوچھا کہ احسن اینڈ احسن پر پھر آپ کا اعتماد رہا؟۔ انور منصور نے جواب دیا کہ احسن اینڈ احسن ریگولر آڈیٹر نہیں تھے، ان کی رپورٹ پی ٹی آئی کا آڈٹ تصور نہیں کیا جاسکتا، ان کی رپورٹ سکروٹنی کمیٹی نے ویب سائٹ سے ڈان لوڈ کی، ہمیں ایجنٹ سے جو پیسے ملے ہم صرف اس کے ذمہ دار ہیں، ایجنٹ فنڈنگ بھیجنے میں کچھ گڑ بڑ کرتا ہے تو پارٹی اس کی ذمہ دار نہیں، 2010-11 میں امریکہ، برطانیہ سے جتنی فنڈنگ آئی اور تمام ڈونرز کا ریکارڈ سکروٹنی کمیٹی کو دیا، سکروٹنی کمیٹی نے مفروضے کی بنیاد پر ریکارڈ مسترد کردیا۔انور منصور نے بتایا کہ ہماری ڈونیشن بیرون ملک مقیم پاکستانیوں پر مشتمل ہے، پی ٹی آئی نے غیر ملکیوں سے کوئی فنڈنگ وصول نہیں کی۔ممبر نثار احمد درانی نے پوچھا کہ ایجنٹس نے گڑ بڑ کی تو پارٹی نے کیا کاروائی کی؟۔ انور منصور نے جواب دیا کہ پارٹی نے گڑ بڑ کرنے والے ایجنٹس کو ہٹا دیا تھا، سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ایسا لگتا ہے کہ غیر ملکیوں نے پی ٹی آئی کو فنڈنگ دی، ایسا لگتا ہے اور ممکنہ طور پر کے نتائج اخذ کیے گئے، قانون میں امکانات کی کوئی حیثیت نہیں، غیر یقینی رپورٹ کو بنیاد بنا کر کیسے فیصلہ کیا جاسکتا ہے؟، کمیٹی نے جن فنڈز پر سوالات اٹھائے وہ پارٹی کو موصول ہی نہیں ہوئے۔ممبر شاہ محمد جتوئی نے پوچھا کہ ہٹائے گئے ایجنٹس کے خلاف کوئی قانونی کاروائی کی گئی؟ تو انور منصور نے بتایا کہ ایجنٹ کو پارٹی نے ہٹا دیا لیکن کارروائی نہیں کی۔انور منصور نے مزید بتایا کہ ایجنٹس کو معاہدہ کے تحت پارٹی کیلئے فنڈز اکٹھے کرنے کی اجازت دی گئی، ایجنٹس رضاکارانہ طور پر پارٹی کیلئے کام کرتے تھے۔بیرسٹر احمد حسن نے پوچھا کہ یہ بتا دیں کہ نصر اللہ کس ملک کا شہری تھا؟۔ الیکشن کمیشن نے کیس کی مزید سماعت آج (جمعرات ) تک ملتوی کردی۔