نئی دہلی ،واشنگٹن (ویب نیوز)

امریکہ کے ڈیفنس انٹیلیجنس کے ڈائریکٹر لیفٹیننٹ جنرل اسکاٹ بیریئر نے انکشاف کیا ہے کہ بھارت اپنی دفاع کے لیے ایک طرف جہاں فوج کے تمام شعبوں بشمول فضائی، زمینی، بحری اور اسٹریٹیجک جوہری فورسز،کی جدیدکاری پر عمل کررہا ہے وہیں پاکستانی اور چینی خطرات سے نمٹنے کے لیے روسی ساخت کا ایس 400 میزائل سسٹم بھی نصب کررہا ہے۔جرمن ٹی وی رپورٹ کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل بیریئر نے امریکی سینیٹ کی مسلح سروسز کمیٹی کے اراکین کو بتایا،”بھارت کو دسمبر میں روسی ساخت فضائی دفاعی سسٹم ایس 400 کی پہلی کھیپ ملی تھی اور وہ اس سسٹم کو جون 2022  تک پاکستانی اور چینی خطرات سے دفاع کے لیے نصب کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔پنٹاگون کے افسرنے مزید کہا،”بھارت اپنے ہائپر سونک بیلسٹک، کروز اور ایئر ڈیفنس میزائل صلاحیتوں کو فروغ دینے کے لیے مسلسل اقدامات کررہا ہے اور اس نے سن 2021 میں متعدد تجربات بھی کیے تھے۔ خلا میں بھارتی سیٹلائٹس کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور یہ اپنے خلائی اثاثوں مثلا خلائی حملے کی صلاحیتوں کو وسعت دے رہا ہے۔لیفٹیننٹ جنرل بیریئر کا کہنا تھا کہ بھارت وسیع ترفوجی جدیدکاری کے پروگرام پر عمل کررہا ہے اور اپنی گھریلو دفاعی پیداوار پر توجہ دے رہا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ بھارت قائدانہ رول ادا کرنے اور بحیرہ ہند کے علاقے میں سکیورٹی فراہم کرنے والے ملک کے طورپر اپنی خارجہ پالیسی کو مسلسل آگے بڑھارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت انڈو پیسیفک علاقے میں خوشحالی کو فروغ دینے اور استحکام کو یقینی بنانے کے لیے باہمی اور کثیرفریقی میکانزم کے ذریعہ اپنے اثرات کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے اسٹریٹیجک پارٹنرشپ قائم کررہا ہے۔لیفٹیننٹ جنرل بیریئر کا کہنا تھا، ”بھارت نے یوکرین پر روس کے فوجی حملے کے معاملے پر غیر جانبدار موقف اپنایا۔ روس کے ساتھ بھارت کے دیرینہ تعلقات اب بھی مستحکم ہیں اور اس نے روس کے ساتھ وزیر خارجہ اور وزیر دفاع پر مشتمل ‘ ٹو۔ ٹو فارمیٹ  کی پہلی میٹنگ دسمبر میں کی۔ بھارت نے اس سے پہلے اس طرح کی میٹنگ صرف امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ کی تھی۔امریکی ڈیفنس انٹیلیجنس کے سربراہ  نے دعوی کیا کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد نئی دہلی پاکستان سے لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسے سرگرم عسکریت پسند گروپوں کی جانب سے ممکنہ حملوں کے حوالے سے فکر مند ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان سے بھارتی اہلکاروں کے انخلا کی وجہ سے ممکنہ خطرات پر نگاہ رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔امریکی اعلی فوجی عہدیدار کا کہنا تھا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان سن 2003 میں جنگ بندی معاہدے کے باوجود بھارت کسی بھی مبینہ دہشت گردانہ خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہے ،انہوں نے کہا کہ سن 2020 میں حقیقی کنٹرول لائن پر بھارتی اور چینی فوج کے درمیان جھڑپ کے بعد سے دونوں ملکوں کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ گوکہ پچھلے برس سے دونوں ملکوں کے مابین اعلی سطحی فوجی اور سفارتی بات چیت کا سلسلہ چل رہا ہے لیکن تعطل اب بھی برقرار ہے اور دونوں ملکوں نے تقریبا پچاس ہزار افواج اپنی اپنی سرحدوں پر تعینات کررکھی ہیں۔